21 فروری: ماں بولی کا عالمی دن اور چترال کی مقامی زبانیں


عالمی سطح پر 1992ء سے زبانوں اور ثقافتوں کے بارے میں اقوام متحدہ میں بحث کا آغاز ہو چکا تھا کہ چھوٹی زبانوں اور ثقافتوں کو کیسے معدوم ہونے سے بچایا جائے۔ کیونکہ دنیا میں موجود بولنے والوں کے حساب سے ان چھوٹی زبانوں اور ثقافتوں کو سرکاری سرپرستی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہ خطرے سے دوچار تھیں۔ کئی زبانیں دنیا سے معدوم ہو گئی تھیں اور کئی معدوم ہونے کے قریب تھیں۔

ان زبانوں کو بچانے کے لیے عالمی سطح پر ہونے والی اس گفتگو کے نتیجے میں اقوام متحدہ میں سات سال بعد ( 1999ء) دنیا میں موجود زبانوں کو قومی ورثہ قراردے کر یونیسکو ایجوکیشن سائنٹفیک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (UNESCO) نے 21 فروری کو ماں بولی کے عالمی دن کے طور پر منانے کے لیے ایک قرارداد منظور کی۔ اس قرارداد کا مقصد دنیا میں موجود زبانوں اور ثقافتوں کے وجود کو برقرار رکھنا تھا۔ 2000ء کے بعد اس دن یعنی اکیس فروری کو پوری دنیا میں زبانوں اور ثقافتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔

پاکستان میں صوبہ خیبرپختونخوا زبانوں اور ثقافتوں کا ایک باغیچہ ہے۔ اس میں 29 زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ صدیوں سے آباد ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بولی جانے والی ان زبانوں اور ثقافتوں میں سے 14 لسانی برادریوں کا تعلق چترال سے ہے۔ ان لسانی برادریوں کی زبانوں کے نام گواربتی، دامیا بھاشا، گوجری، کمویری/کٹویری، کلاشہ، کھوار، مداک لشٹی، پلولہ، پشتو، کرغیز وار، شیخانی، واخی اور یدغہ شامل ہیں۔

سرزمین چترال کو زبانوں اور ثقافتوں کے تنوع کے لیے ایک زرخیز خطہ تصور کیاجاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے چترال میں آبادی کم ہونے کے باوجود معاشرے میں لسانی طور پر تنوع زیادہ ہے۔ چترال کے لوگوں کے لیے یہ بہت فخر کی بات ہے کہ زبانیں اور ثقافتیں ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود یہاں پر لسانی بنیاد پر تفرقہ نہیں ہے اور یہاں پر رہنے والے سب لوگ چترال کو اپنا گھر سمجھ کر پیار، محبت کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ چترال کے لوگوں کی طرف سے دنیا کے لیے پیغام ہے کہ زبانوں اور ثقافتوں کا مختلف ہونا جھگڑے اور نفرت کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ علاقے کی خوبصورتی اور مضبوطی کی علامتیں ہیں۔ چترال کے لوگ ماں بولی کی محبت کا یہ پیغام بہت پہلے دنیا کو پہنچا چکے تھے ، بعد میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو (UNESCO) نے بھی اپنی ایک قرارداد کے ذریعے ”دنیا میں قوموں کی ترقی، امن قائم رکھنے اور لوگوں کو آپس میں قریب لانے میں مقامی زبانوں کا ایک اہم کردار ہے“ یہ جملہ اپنی قرارداد میں شامل کر کے چترال والوں کے اس پیغام محبت کے پر مہر ثبت کر دی۔

ریاست پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ میں پاس ہونے والی اس قرارداد کی حمایت ضرور کی گئی ہے جس میں چھوٹی زبانوں اور ثقافتوں کو قومی ورثہ قراردیا گیا ہے لیکن عملی طور پر ان قومی ورثوں کو بچانے اور ترقی دینے کے لیے ابھی تک منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ مرکزی اور صوبائی سطح پر زبانوں کی ترقی اور ثقافتوں کی حفاظت کے لیے ادارے تو موجود ہیں لیکن ان کی کارکردگی برائے نام ہے۔ ان اداروں کی ناکامی کی واضح مثال چترال میں بولی جانے والی زبانوں کی حالت زار ہے۔

چترال میں بولی جانے والی چودہ زبانوں میں سے زیادہ تر زبانوں کے لیے ابھی تک بنیادی حروف تہجی تک کا تعین نہیں ہوا ہے اور نہ زبانوں اور ثقافتوں کو بچانے کے لیے کوئی عملی اقدام اٹھایا گیا ہے ۔ کھوار اور پلولہ کے علاوہ کسی اور زبان میں ابھی تک لکھنے کا کلچر موجود نہیں۔

چترال میں بسنے والے لسانی گروہ اپنی طرف سے تنظیم بنا کر اپنی بساط بھر کوشش کر رہے ہیں کہ علاقے کا یہ تنوع برقرار رہے۔ یہ زبانیں اور ثفافتیں ترقی کریں لیکن یہ حکومتی سرپرستی اور امداد کے بغیر کسی طرح سے بھی ممکن نہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی مقامی تنظیمات اپنی زبانوں کی خدمت اور ان کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے میوزک پروگرام، شعروشاعری اور ادب پارے تخلیق کرتی رہتی ہیں لیکن محدود پیمانے پر ہونے والے یہ کام کسی بھی طرح سے ان زبانوں کو بچانے اور جدید دنیا میں ان کو مقام دلانے کے لیے کافی نہیں ہے۔

ماں بولی کی اہمیت صرف بات کرنے یا گفتگو تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے پس منظر میں علاقے کی تہذیب، ثقافت، تاریخ اور لوک روایات کی شکل میں ہزاروں سال پر محیط دانش کارفرما ہوتی ہے۔ زبان اس تہذیب کے اظہار کا بڑا ذریعہ ہے۔ ماں بولی ایک ایسا ذریعہ ہے کہ اس سے ایک نسل اپنی ماضی کو دوسرے نسل کو منتقل کرتی ہے۔ ماں بولی میں ایک نسل اپنے مستقبل سنوارتی ہے۔ ماں بولی کا محاورہ بچے کے مزاج کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

موجودہ وقت میں زبانوں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ  2001ء کے بعد یونیسکو نے ایک قرارداد کے ذریعے یہ واضح کیا ہے کہ ”پرائمری تعلیم ماں بولی میں حاصل کرنے کو ایک بچے کے بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جائے“ اس قرارداد پر حکومت پاکستان کا بھی دستخط موجود ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں صوبائی سطح پر کلچر ڈیپارٹمنٹ موجود ہونے اور سالانہ بنیاد پر فنڈز ملنے کے باوجود زمین پر کوئی سرگرمی نظر نہیں آ رہی۔ ان اداروں کے پاس زبانوں اور ثفافتوں کو بچانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ان اداروں کو پتہ ہے کہ علاقے میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں اور یہ کہاں کہاں پر بولی جاتی ہیں۔

ابھی بھی وقت ہے کہ حکومتی ادارے مقامی تنظیمات کے ساتھ مل کر ان ثقافتوں اور زبانوں کو بچانے کے لیے منصوبہ بندی کریں کیونکہ زبان اور ثقافت کو قومی ورثے کا کہا جاتا ہے ۔ قومی ورثہ سب کا مشترک ہوتا ہے۔ مشترکہ ورثے کو بچانے کے لیے کوششیں بھی مشترک ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ ہماری ذمہ داری ہے ہم سب مل کر اپنے قومی ورثوں کو بچانے کے لیے متحد ہو کر کام کریں اور یہ ورثے بچا کر آنے والی نسلوں تک پہنچائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments