فواد چوہدری اور بلوچ: بات کچھ غلط تو نہیں


کل سے فواد چوہدری صاحب کی اک ٹویٹ پر فیشن ایبل طوفان جاری ہے۔ چوہدری صاحب نے یہ کہا کہ بلوچ مائیں پنجاب میں احتجاج کر سکتی ہیں، یہاں شناختی کارڈ دیکھ کر کوئی گولی نہیں مارے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جن پنجابی ماؤں کے بچوں کو ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر گھسیٹ کر گولیاں مار دی گئیں، ان کے دکھوں کا کیا کیا جائے۔

فواد چوہدری صاحب کوئی بہت زیرک یا بہت قابل احترام ادبی شخصیت نہیں ہیں کہ جن سے اک خاص ادبی معیار کی تخلیقات متوقع ہوں۔ وہ سیاستدان ہیں اور انہیں اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ عین اسی طرح، جیسے ان کی اس بات کے جواب میں احباب اپنے آرا دے رہے ہیں۔ گو کہ ہمارے مقتدر طبقات پاکستان کو برما، شمالی کوریا اور مصر بنانے کی بھرپور پرانی کوشش کر رہے ہیں، مگر ابھی تک تو، کم از کم، رائے زنی کی حد تک تو بری طرح سے ناکام ہیں۔ پاکستانیوں نے مزاحمت، جہاں کہیں ممکن ہو سکی، کی، اور کثیر الجہت معاشروں میں ایسے ہی چلتا ہے۔

اس بات سے قطع نظر کہ یہ بات کہنے اور کرنے والا کون ہے، بات میں وزن تلاش کیا جانا چاہیے۔

کل سے فیشن ایبل لبرل، اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے احباب ایسے ردعمل دے رہے ہیں کہ بلوچستان میں شناختی کارڈ دیکھ کر کبھی کوئی پنجابی، یا دوسری قومیت کا شخص قتل نہیں کیا گیا۔ بلوچستان میں جاری، چند بلوچوں کی دہشتگردی کی ڈائمینشنز تو مزید بھیانک اس لیے بھی ہیں کہ ان لوگوں نے ان معصوموں کو اکثریت سے قتل کیا جو بلوچوں کے خلاف کسی قسم کی کسی بھی کارروائی میں ملوث نہ تھے۔

بلوچ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں پر پاکستان کی تمام قوموں کا خون لگا ہوا ہے۔ ہاں اس میں پنجابیوں کی تعداد قابل ذکر ہے۔ چند بلوچوں کی اسی دہشتگردی کی وجہ سے بلوچستان سے ہزاروں پنجابی خاندان ہجرت پر بھی مجبور ہوئے، مگر یہ مہاجر اور مرنے والے چونکہ پنجابی تھے، تو وہاں پر جاری شدہ شورش کے اس پہلو پر شاذ ہی کوئی بات کبھی کی جاتی ہو۔

دس دن قبل صادق آباد کے تین پنجابی (سرائیکی دوست انہیں سرائیکی کہہ سکتے ہیں ) شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کر دیے گئے۔ شاذ ہی کوئی احتجاج برآمد ہوا۔ تصور تو کیجیے کہ ایسے ہی شناختی کارڈ دیکھ کر تین بلوچ، خدانخواستہ لاہور میں قتل کر دیے جائیں ؛ تب رویے کیا ہوں گے؟

یہ وقت تو بہت پہلے آن چکا ہے کہ بلوچستان میں جاری شدہ شورش کے تمام پہلوؤں پر بات کی جائے۔ مگر جب بھی کبھی بات کی تو جواباً غیرمنطقی اور بدعقلیت رویے ہی دیکھنے کو ملے کہ جیسے وہاں تمام مظالم پاکستان کے ریاستی اداروں کی جانب سے ہیں، جبکہ دہشتگردی کرنے والے چند بلوچ موجود ہی نہیں۔

پنجاب کے مزدوروں کے خون کا رنگ بھی سرخ ہی تھا اور ایسا کرنے والے بلوچوں میں اگر تڑ ہے تو ان کے ساتھ پنگے لیں جن کے ساتھ انہیں شکایتیں ہیں اور پھر جوابی ڈانگ ملنے پر، چیخ و پکار کی بجائے، ایسی باتوں کو اپنے ”مقدس مشن“ کی راہ میں قربانی جان کر خوشی محسوس کیا کریں۔ اس سلسلے میں، میری جانب سے اک ہزار سال کے لیے ”سرخ سلام“ ایڈوانس میں ہی قبول کر لیں۔

بات ختم کرتا ہوں : کل اک بلوچ صاحب نے ٹویٹر پر کہا کہ پنجابیوں کو قتل کرنے کے ایکٹ کی مذمت بنتی ہے، مگر اس عمل کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے اسباب کیا ہیں۔ میں نے ”ہاہا، آپ ٹھیک کہتے ہیں“ کہہ کر بات ختم کر دی، مگر اس کا جواب تو یہ تھا: ”جناب، پھر جو بلوچ غائب ہوتے ہیں، یا قتل کر دیے جاتے ہیں، ان کے بارے میں بھی یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے اسباب کیا ہیں۔“

ظلم، ظلم ہوتا ہے۔ پیریڈ۔ اس ظلم کے اسباب پر اگر جائیے، تو پیارو، یہ پھر لیروں والی کھدو (گیند) ہے اور ہر طرف کے اپنے ظالم، مظلوم اور اسباب ہیں۔ فواد چوہدری صاحب نے اس شورش کے اک پہلو پر اگر غلط انداز سے بات کی ہے، تو بھی بلوچستان میں، بلوچ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں جاری شدہ نسلی تشدد کی حقیقت نہیں بدلتی۔

کانفلیکٹ کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ آپ اگر اپنی مرضی کا پہلو اٹھاتے ہیں، تو یہی حق پھر آپ کے سامنے والے کو بھی حاصل ہوتا ہے۔
مکرر: ظلم، ظلم ہے۔ اپنے ظالم کو بھی ظالم ہی کہنا سیکھیے۔ شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments