اپنی آپ بیتی پر تنقید و تبصرہ


چونکہ مستقبل قریب میں میری آپ بیتی کا دوسرا حصہ منظر عام پر آنے کو ہے، دوسرے پینسٹھ برس سے زائد عمر کے ہونے اور کورونا کے سبب ویکسی نیشن کے بعد بھی ہجوم میں جانے سے گریز کرنے کی ہدایت برقرار ہے، تیسرے اس بار بے تحاشا برف پڑی ہے اور درجہ حرارت معمول سے خاصا کم ہے، پھر گزشتہ کئی برس سے آمدنی ہے ہی نہیں ، چنانچہ نئی کتابیں میسر نہ آ سکیں اس لیے میں نے اپنی آپ بیتی کے پہلے حصے ”پریشاں سا پریشاں“ کو دوسری بار پڑھنے کا ارادہ کیا۔

ایک کمرے کے کوارٹر میں تین بچوں کے ساتھ رہتے ہوئے پڑھنا کوئی اتنا آسان نہیں ہوتا۔ پھر فیس بک، کورونا کی وبا کا فالو اپ اور ساتھ ہی ساتھ، وقت کاٹنے کو پاکستانی ڈرامہ سیریلز دیکھتے ہوئے مجھے اپنی لکھی اس کتاب کو باقاعدہ اور مکمل پڑھنے میں، آپ حیران ہوں گے ، دو تین ماہ لگ گئے، جب کہ میں ضخیم کتاب تین چار روز میں پڑھ لیا کرتا ہوں۔

پاکستانی سیریلز میں ایک بات دیکھنے کو ملی کہ جتنے بھی سیریل دیکھے کوئی چار پانچ، سب میں توقف کے لیے یا تو بادلوں میں گھرا چاند دکھایا جاتا ہے یا کراچی شہر کے کسی حصے کی ایریل تصویر۔ دوسری بات یہ کہ ہر ڈرامے میں ایک پاگل، کم ذہن یا ذہنی طور پر معذور کردار ہوتا ہے، یا ملنگ یا پیر۔ مزار اور منتیں، دعائیں اور رونا دھونا لازم۔ عجیب سی بات کہ ہر سیریل میں نرگس نام کا ایک کردار ضرور ہے اور وہ لامحالہ بدنیت۔ بھئی جیسا معاشرہ ویسے ہی ڈرامے۔

مگر میری آپ بیتی، یہ کہنا تو غلط ہو گا کہ جیسا معاشرہ ویسی میری زندگی کے مصداق بالکل نہیں مگر بہت حد تک نہیں رہی۔ یہ کتاب میں نے 2005 میں مکمل کی تھی۔ شاید 2014 میں بٹرفلائی پیپر پر پروف ریڈنگ کر کے دے دی تھی مگر فکشن ہاؤس کے ظہور خان نے نہ چھاپی تو نہ چھاپی ، اگرچہ اس نے مجھ سے یہ کہہ کے مسودہ لیا تھا کہ آپ اپنی ہر کتاب مجھے دیں گے۔

بالآخر زاہد کاظمی نے اس کو چھاپنے کی ٹھانی۔ دو ہفتے میں دوبارہ سے کمپوزنگ کروا لی مگر پروف ریڈنگ میں دھوکہ کا شکار ہو گئے۔ تو جناب مجھے اس کتاب میں کمپوزنگ اور لے آؤٹ کی غلطیوں کے بارے علم تھا مگر وہ پھر بھی بہت چبھتی رہیں ، یوں لگتا تھا جیسے موبائل فون کی ٹائپنگ میں آٹوکریکٹ کا نشانہ بنی ہے یہ کتاب۔ ایسے ایسے الفاظ ہیں جو شاید دنیا کی کسی زبان میں نہیں ہیں جیسے لکھا تھا ”بلیض“ ، ’’مولوی لقمان جیسے بلیض شخص نے رشتہ دے دیا۔‘‘

اگر آپ بہت ہی اچھے قاری ہیں تو آپ اس لفظ کو بلیغ سمجھ سکیں گے ورنہ نہیں۔ بعض فقرے تو ایسے کمپوز ہوئے کہ میں خود باوجود کوشش کے سمجھ نہ پایا اور چھوڑ دیا۔ کتاب میں پہلے 200 اور آخری سوا سو صفحات میں کمپوزنگ کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں باقی میں کم۔ ماضی کے زمرے میں تھا تھے زیادہ لکھنا میری عادت ہے مگر جب میں نے کمپوزنگ کی تھی تب میں نے تقریباً دو تہائی تھا تھے نکال باہر کیے تھے لیکن زیربحث کتاب میں یہ ویسے کے ویسے موجود ہیں۔ کمپوزنگ کی اغلاط اور تھا تھے کی بھرمار کے سبب ایسے لگتا ہے جیسے مصنف یعنی مجھے اردو املاء لکھنی ہی نہ آتی ہو۔

میں خود بدہیئت کتاب پڑھنا پسند نہیں کرتا اور ایسے بہت سے ہوں گے ۔ لیکن کئی لاکھ روپے لگا کے ایک ہزارکی تعداد میں چھپوائی ، کتابیں نہ تو نذر آتش کی جا سکتی تھیں نہ دریا برد۔ پبلشر زاہد کاظمی جو خود بھی بہت زیادہ پڑھنے والے اور ہزاروں کی تعداد میں کتابیں جمع کرنے والے ہیں ، کا کہنا تھا کہ کتاب کا نفس مضمون زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اب کی بار جب میں نے اپنی لکھی کتاب ایک قاری کے طور پر پڑھی تو مجھے بھی لگا کہ کتاب اچھی لکھی ہوئی ہے۔ بعض مقامات پر جہاں ربط ٹوٹا ہوا لگتا ہے وہ بھی خود بخود مربوط لگنے لگتا ہے۔

میری زندگی کے اتار چڑھاؤ خوشگوار لمحات و حوادث اپنی جگہ مگر کتاب میں کہیں حاشیہ آرائی کرنے کی خاطر کی گئی سعی دکھائی نہیں ‌ پڑتی، ایک رپورتاژ ہے جو جیسا لگا ویسے ہی لکھا، میری جانب سے تو سب سچ مگر کہنے والوں کا کہنا ہے کہ سب سچ تو کوئی نہیں لکھ سکتا۔ یہ بھی اپنی جگہ درست ہے ، مثال کے طور پر اگر میری زندگی میں کوئی بہت ہی غیر سماجی عنصر ہو گا تو میں نے لکھنے سے گریز کیا ہو گا لیکن ایسا تھا نہیں اور میں نے لکھا نہیں۔

تحریر میں روانی ہے اور روانی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کو آگے پیچھے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، آپ کو تحریر یاد ہوتی جاتی ہے۔ کیونکہ تحریر بہت زیادہ ادبی چاشنی لیے ہوئے نہیں ہے اور ادبی چاشنی کا مطلب بھاری بھر کم، متروک یا معرا الفاظ استعمال کرنا یا تحریر میں الفاظ کے حسن کا رنگ بھرنا ہے، اس لیے قاری اسے اخبار کے دلچسپ فیچر کی طرح پڑھتا چلا جاتا ہے حالانکہ اس میں کہیں بھی ایسا نہیں کہ ’آگے کیا ہو گا‘ کا تجسس پیدا ہو۔ یعنی وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا نہ کہ منظور مصنف۔

محمد حمید شاہد، عامر الحسینی، سید حیدر جاوید اور چند دوسرے معروف ناموں کی مہربانی کہ انہوں نے کتاب کو نہ صرف پورا پڑھا بلکہ سیر حاصل تبصرے بھی لکھے۔ جناب افتخار عارف تو اسلام آباد میں کتاب کی رونمائی کی تقریب میں بولنے کے لیے کتاب کے پہلے سو سے زیادہ صفحات باقاعدہ پڑھ کے آئے تھے مگر میرے دوست وجاہت مسعود اور مہربان ناصر عباس نئیر دو سال کے بعد بھی شاید نہیں پڑھ پائے ، ورنہ مجھے یقین ہے کہ کتاب خود انہیں اپنے بارے میں کچھ لکھنے پر مجبور کر دیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments