سینیٹ انتخاب: ‘یوسف رضا گیلانی حکومت کو سرپرائز دینے کی اہلیت رکھتے ہیں’


پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور پیپلز پارٹی کے اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست کے لیے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے کاغذات نامزدگی پر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اعتراضات ریٹرننگ افسر نے مسترد کر دیے ہیں۔

اسلام آباد کی جنرل نشست پر یوسف رضا گیلانی پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار ہیں اور ان کے اس نشست پر انتخاب کے حوالے سے اپوزیشن جماعتیں بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔

اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست پر کامیابی کی صورت میں یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ کا الیکشن لڑانے کی بازگشت سنائی دی جا رہی ہے۔

یوسف رضا گیلانی کے کاغذاتِ نامزدگی کے خلاف اعتراضات پر ریٹرننگ افسر نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد انہیں سینیٹ کا الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار دیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی پانچ سالہ نااہلی ختم ہو چکی جب کہ ان کے مقدمات عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں۔ تاہم زیرِ التوا مقدمات پر کسی کو الیکشن لڑنے سے روکا نہیں جا سکتا۔

سینیٹ کے انتخابات میں کیا کوئی اپ سیٹ ہو سکتا ہے؟

تحریک انصاف کی جانب سے اعتراض کنندہ فرید رحمان نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یوسف رضا گیلانی آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتے۔ وزیرِ اعظم کے حلف کی خلاف ورزی کرنے پر نااہلی تاحیات ہے، ان کے خلاف نیب میں ریفرنس زیر التوا ہیں۔ اس لیے اُنہیں سینیٹ انتخابات لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

یوسف رضا گیلانی کمزور یا تگڑے امیدوار؟

پیپلز پارٹی کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کا نام سینیٹ کی نشست کے لیے دیے جانے کو اپوزیشن کی ‘سیاسی چال’ قرار دی جا رہی ہے۔

یوسف رضا گیلانی اس انتخاب میں اپنے سابق ماتحت ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے خلاف الیکشن لڑنے جارہے ہیں۔

عبدالحفیظ شیخ یوسف رضا گیلانی کے دورِ حکومت میں اُن کے وزیرِ خزانہ تھے اور اُنہیں پاکستان پیپلز پارٹی نے سینیٹر بھی بنوایا تھا۔ لیکن موجودہ الیکشن میں وہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے اپنے سابق باس کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں۔

یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے الیکشن لڑوانے پر تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کا اسلام آباد سے سینیٹ الیکشن لڑنا خاصا معنی خیز ہے۔ اپوزیشن نے باقاعدہ اس پر ورکنگ کے بعد ہی انہیں اس نشست پر کھڑا کیا ہے۔

حزب اختلاف کا 26 مارچ کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان

اُن کے بقول، “یوسف رضا گیلانی حکمران جماعت کو سرپرائز دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔”

اسلام آباد میں سینیٹ کی دو نشستیں ہیں جن میں سے ایک جنرل اور ایک خواتین کی نشست ہے۔ جنرل نشست پر یوسف رضا گیلانی اور ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے درمیان ہی اصل مقابلہ ہوگا۔

اس نشست پر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اسلام آباد کے ماضی کے ایم این اے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو امیدوار نامزد کیا ہے۔ لیکن امکان ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم کا نام استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کا نام واپس لے لیا جائے گا اور اصل مقابلہ عبدالحفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہوگا۔

ان تین ناموں کے علاوہ باقی تین کورنگ امیدوار ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) کے محمد یوسف اور پی ٹی آئی کے سید محمد علی بخاری اور فرید رحمان شامل ہیں۔

اسلام آباد میں خواتین کی ایک نشست کے لیے چار امیدواروں میں پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد، منیزہ جاوید مرزا، مسلم لیگ (ن) کی فرزانہ اور فرح ناز اکبر شامل ہیں۔

دو کورنگ امیدواروں کی موجودگی میں اصل مقابلہ فوزیہ ارشد اور فرزانہ کے درمیان ہی ہونے کا امکان ہے۔

اسلام آباد سے جنرل نشست پر اگر یوسف رضا گیلانی کے لیے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو دستبردار کروایا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی بھی خواتین نشست کے لیے (ن) لیگی امیدوار کی حمایت کرے گی۔

جیتنے کے لیے کس کو کتنے ووٹ درکار ہیں؟

اسلام آباد کی ان دو نشستوں کے لیے قومی اسمبلی کے 342 ارکان ووٹ دیں گے۔ اس وقت حکمران جماعت کے اتحادیوں کے ساتھ 180 ووٹ ہیں جب کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے پاس 158 ووٹ ہیں۔

جماعت اسلامی کے چار ووٹ الگ سے ہیں جو خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔

خفیہ رائے شماری کی صورت میں 15 ووٹ کا فرق آنا مشکل امر نہیں۔ اس نشست پر حکومت کے لیے اپ سیٹ ہونے کا بھی امکان ہے۔

یوسف رضا گیلانی اپنے دورِ حکومت میں ارکان قومی اسمبلی کے لیے خاصے فیاض رہے اور موجودہ اسمبلی میں اپوزیشن کے علاوہ حکمران جماعت کے کئی ارکان سے ان کے ذاتی مراسم بھی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ پھر سے مدِ مقابل، آگے کیا ہو گا؟

پیرپگاڑا خاندان کے علاوہ، سندھ اور خیبرپختونخوا میں بھی ان کی رشتہ داریاں ہیں۔ اس تمام صورتِ حال میں یوسف رضا گیلانی حکمران جماعت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اور اسلام آباد کی نشست پر حکومت کے لیے اپ سیٹ ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب عبدالحفیظ شیخ کے نام پر پی ٹی آئی کے بعض لوگوں کو بھی اعتراضات ہیں اور خفیہ رائے شماری کی صورت میں پیپلز پارٹی فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرے گی۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے نام پر پی ٹی آئی کے بعض ارکان کو اعتراض ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے باقاعدہ ممبر ہی نہیں ہیں، کراچی سے رکن اسمبلی عامر لیاقت نے بعض ٹی وی شوز میں انہیں ووٹ دینے سے واضح انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ایسے شخص کو ووٹ نہیں دیں گے جو پارٹی کا رکن ہی نہیں۔

یوسف رضا گیلانی جیت گئے تو کیا ہوگا؟

سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی جیت کے لیے ہمیں صرف آٹھ سے نو ووٹ درکار ہیں۔

ان کے بقول، “آئین کے آرٹیکل 62 اے کے مطابق سینیٹ الیکشن میں دوسری جماعت کو ووٹ دینے پر کوئی پابندی نہیں۔ لہذا ہم اس الیکشن کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں، ہار جیت الیکشن کا حصہ ہے لیکن صحت مند مقابلہ ہونا ضروری ہے۔”

اس سوال پر کہ کیا یوسف رضا گیلانی کی جیت حکومت کے خلاف عدم اعتماد ہوگی؟ فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ اخلاقی طور پر یہ وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد ہی ہو گا لیکن ابھی الیکشن سے پہلے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ اس وقت حکمران جماعت کے کئی ارکان اپنی جماعت سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور پالیسیاں درست نہ ہونے کی وجہ سے نالاں ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ اس الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دے کر کامیاب کرائیں گے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments