سینیٹ الیکشن: سوال گندم جواب چنا


پچھلی کئی مرتبہ سے سینیٹ کا الیکشن اپنے ساتھ ایک مسلسل لیکن لاحاصل بحث لے آتا ہے کہ ووٹ کی خرید و فروخت کیسے روکی جائے۔

آج کل پھر یہ معاملہ زوروں پر ہے اور موجودہ حکومت کہ جس کا سارا نظام ہی میڈیا پرسیپشن کی بنیاد پر چل رہا ہے، اس موضوع پر بھی انکشافات کی بھرمار کے ساتھ علاج میں خوب دور کی کوڑیاں لا رہی ہے۔ الیکشن کے طریق کار میں تبدیلی سے لے کر خود سینیٹ وجود کے جواز تک ہر گفتنی نا گفتنی بات ہو رہی ہے، جس میں تازہ ترین درفنطنی متناسب نمائندگی کی تشریح پر عدالت عظمیٰ میں چھوڑی گئی کہ آئین میں سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے متناسب نمائندگی کا مفہوم صوبوں کی برابر نمائندگی تک محدود نہیں بلکہ ہر سیاسی جماعت کی متناسب نمائندگی تک وسیع ہے۔ (چونکہ یہ عدالتی معاملہ ہے اس لیے اس پر فی الحال چپ ہی سادھی جا سکتی ہے۔ )

پورے زور و شور سے جاری اس بحث کو تھوڑے سے بڑے کینوس پر پھیلا کر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ کولہو کے بیل کی طرح سب آنکھوں پر ایک ہی کھوپا چڑھا کر بھاگے چلے جا رہے ہیں، اور وہ ہے کرپشن، کرپشن، کرپشن۔ اس ٹنل وژن کا شکار ہونے کے سبب کوئی اس کرپشن کے راگ سے پار نہیں دیکھ پا رہا کہ اس خرید و فروخت کے خاتمے کی مجوزہ تدبیروں میں بذات خود کیا کیا قباحتیں مضمر ہیں۔ بنیادی زور الیکشن کو خفیہ بیلٹ سے تبدیل کر کے اوپن رائے شماری میں تبدیل کرنے پر دیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن اس کی مخالفت کر رہی ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح وہ بھی کرپشن کے ہوے کے سامنے دفاعی پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہے اور اوپن بیلٹ کی قباحتوں کی نشاندہی نہیں کر پا رہی۔

مسئلہ یہ ہے کہ ووٹوں کی مبینہ خرید و فروخت کا واحد سبب خفیہ رائے شماری قرار دیا جا رہا ہے، اور اس کا واحد حل بھی اوپن بیلٹ یا براہ راست انتخاب کو ہی قرار دیا جا رہا ہے، کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ سینیٹ کے انتخاب کے لئے موجودہ طریقہ کار کیوں چنا گیا تھا۔ اس طریقہ کار کی علتوں کا تجزیہ کرنے سے پہلے آئیے اس طریقہ کار کے اپنائے جانے کے جواز کا اعادہ کیے لیتے ہیں۔

قومی اسمبلی کی موجودگی میں ایک دوسرے ایوان یعنی سینیٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے دو بڑے محرکات گنوائے جاتے ہیں، اولاً صوبوں کی برابر کی نمائندگی تاکہ چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم کیا جا سکے، ثانیاً ایسی اہم شخصیات کو حکومتی بندوبست میں شامل کیا جا سکے جو شاید پاپولر سیاست یا دوسرے لفظوں میں حلقے کی سیاست تو نہیں کر سکتیں لیکن اپنی فکری، علمی یا تکنیکی صلاحیتوں کی بناء پر مفید ہو سکتی ہیں۔

ان مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے غور کریں تو براہ راست انتخاب کی قباحتیں واضح ہو جاتی ہیں۔ مثلاً جب پنجاب اور بلوچستان سے ایک ہی تعداد میں سینیٹرز منتخب کرنے ہوں گے تو دونوں صوبوں میں ایک حلقے کے ووٹرز کی تعداد میں فرق غیر منطقی حد تک بڑھ جائے گا۔ اسی طرح براہ راست انتخاب سے دوبارہ وہی پاپولر سیاست والے لوگ ہی سامنے آئیں گے۔

ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنے ممکنہ سینیٹ کے امیدواروں کی لسٹ ترجیحاً مشتہر کر دیں اور عام انتخابات میں پڑنے والے ووٹوں کے تناسب سے ان میں سے ہر سیاسی جماعت کے سینیٹرز منتخب ہو جائیں۔ اس تجویز میں اور اوپن بیلٹنگ کی دیگر تجاویز میں ایک جیسی ہی قباحتیں ہیں۔ ایسے تمام انتظامات میں بنیادی طور پر سینیٹ کے اراکین الیکٹڈ کی بجائے سیلیکٹڈ ہوں گے۔ اس بات کو سمجھا جانا چاہیے کہ ووٹوں کی مبینہ خرید و فروخت جیسے قبیح الزامات سے قطع نظر، سینیٹ کے انتخابات میں خفیہ رائے شماری سیاسی پارٹیوں کی قیادت کے سینیٹ امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ کے اجراء کے اختیار پر ایک مناسب چیک اینڈ بیلنس ہے۔

اگر سیاسی پارٹیاں اپنے اسمبلی ممبران کی ترجیح یا پسند سے مختلف امیدوار کو ٹکٹ دیتے ہیں تو ایسے ممبرز شکست کھا سکتے ہیں۔ اس طرح سیاسی پارٹیوں میں داخلی طور پر ایک احتسابی نظام موجود رہتا ہے، جو جمہوریت کا حسن ہے۔ اسمبلی ممبران کے سینیٹ اراکین منتخب کرنے کے آزادانہ اختیار پر قدغن کے نتائج دوررس ہوں گے۔ نا صرف اسمبلی ممبران کا حق انتخاب غصب ہو گا، بلکہ اس کے نتیجے میں منتخب ہونے والے سینیٹرز بھی آزاد رائے رکھنے کی بجائے یس مین قسم کے ہوں گے، کیونکہ ان کا انتخاب محض سیاسی قیادت کی خوشنودی پر منحصر ہو گا۔ اگر ووٹ خرید کر منتخب ہونے والے سینیٹرز کرپٹ ہوں گے تو سیاسی قیادت کی جی حضوری کر کے آنے والے سینیٹرز بھی نا اہل اور انکومپیٹنٹ ہوں گے۔

تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر اس کمی کا تدارک کیا ہے؟ اس بحث کا حاصل کیا ہے؟

یہ بحث لاحاصل اس لئے رہ جاتی ہے کہ ہم ایک گندم سوال کا جواب چنے میں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ بات اخلاقیات کی ہے ہم قانون کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ مسئلہ معاشرتی اقدار کی گراوٹ کا ہے اور حل ہم آئینی ترمیم میں ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔ عفریت سیاسی نابالغی کا ہے اور ہم اسے عدالتی ایکٹوزم سے زیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کل کلاں کو ہم جھوٹ بولنے کی عادت پر قابو پانے کے لئے آئین میں ترمیم لے آئیں کہ آئین کی دفعہ فلاں کے تحت ملک خداداد میں جھوٹ بولنے پر پابندی ہے۔

دنیا بھر میں قوانین ہمیشہ اس مفروضے پر بنتے ہیں کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی قانون کی ازخود پابندی کرتا ہے اور ایک محدود تعداد میں قانون شکنی کرنے والوں کی روک تھام کے لئے چیک اینڈ بیلنس کا نظام وضع کیا جاتا ہے۔ ایسا کوئی بھی نظام ایسی صورتحال سے نہیں نمٹ سکتا جہاں آوے کا آوا ہی قانون شکنی کے درپے ہو۔ اور اس کیس میں تو معاملہ ملک کے طاقتور حلقوں کا ہے جو آپ کے قانون سازی کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ کوئی قانونی قدغن اس کا سد باب نہیں کر سکتی۔

آئین اور قانون طویل مدت کے لئے بنتے ہیں۔ ان کے پیچھے طویل المدت سوچ اور اغراض و مقاصد ہوتے ہیں ، کسی وقتی چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے انہیں تبدیل کرنا کبھی بھی دانش مندانہ اقدام نہیں ہوتا۔ اور وہ بھی ایک ایسی حکومت کے ہاتھوں، جس کی پریشاں خیالی تو اس ستم ظریفانہ حرکت سے عیاں ہے کہ اس کے ماہرین خود اس بارے میں clarity of thought نہیں رکھتے کہ اس مسئلے پر قانون سازی کی ضرورت ہے یا آئینی ترمیم کی؟ گستاخی معاف! بہت سے دوسرے معاملات کی طرح اس مسئلے میں بھی ترجیح خلوص دل سے معاملہ حل کرنے کی بجائے پوائنٹ سکورنگ لگتی ہے۔

اس مسئلے کا طویل مدتی حل سیاسی بلوغت میں ہی پوشیدہ ہے۔ رہا قلیل مدتی بندوبست تو اس کے لئے بھی ملکی آئین اور قوانین میں چھیڑ چھاڑ کی بجائے تھوڑی سی معاملہ فہمی اور سیاسی بصیرت ہی درکار ہے۔ آخر اس میں کیا قباحت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں آپس میں مل بیٹھ کر فیصلہ کر لیں کہ الیکشن میں امیدوار ہی اتنے اتارے جائیں جتنے ہر جماعت کی جائز نشستیں بنتی ہیں؟ پھر کسی طالع آزما کو بازار سجانے کا موقع ہی نہ ملے گا۔

لیکن ایسے اقدامات کرنے کے لئے مائنڈ سیٹ کو کنٹینر سے اتارنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments