احتجاج کا طریقہ بدلیں



ایک سوشل ورکر بھائی ہیں بہت اچھا کام کرتے ہیں ،  ویڈیوز بھی بناتے ہیں،  ساتھ ساتھ اس ویڈیو کا مقصد فقط اپنی تنظیم کی واہ واہ نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کو اس جانب راغب بھی کرنا ہوتا ہے۔ لیکن کیا اچھا کام کرنے کے لئے لائیو ویڈیو ہونا ضروری ہے؟ بھئی چھپ کر بھی تو کام ہو سکتا ہے لیکن دکھانے کی وجہ یہ ہے کہ بھئی دکھائیں گے تو عوام واہ واہ کریں گے، آنسو بہائیں گے، دوستوں کو بھی بتائیں گے اور ان دیکھنے والوں میں چند ایسے ہوں گے جو اس چلتی پھرتی اشتہار بازی کے اثر میں آ جائیں گے اور امداد دے جائیں گے۔

بہرحال ویڈیو بنانے کی بہت سی اور بھی وجوہات ہو سکتی ہے جو ادھر نہیں لکھی جا سکتی ہیں۔ چلیں کم سے کم جذباتی اشتہار بازی سے کوئی نہ کوئی فائدہ تو اٹھاتا ہے، وہ کیمرے پہ آنے والا سوشل ورکر ہو، کوئی تنظیم ہو یا پھر وہ روٹی کھاتا بے روزگار مزدور۔

کراچی کو ذرا دیکھیے، آئے روز احتجاج اور دھرنے ہوتے ہیں۔ ایک پارٹی نے ابھی کچھ روز پہلے کراچی میں درجنوں مقامات پر دھرنے دیے تھے اور لوگوں نے بڑی تعداد میں احتجاج بھی کیا تھا اور وہ احتجاج کراچی کے حقوق کے لیے تھے۔ اس احتجاج میں کراچی کے مسائل کے لئے بڑے بڑے اسپیکرز اور بینرز کے ساتھ آواز بلند کی گئی تھی۔ اندازے کے مطابق احتجاج ہو یا جلسہ اس میں لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔

اب آپ اندازہ لگائیے، چھوٹے سے احتجاج میں 2، 4 بینرز تو ضرور لگتے ہیں، پلے کارڈز بنتے ہیں، ساؤنڈ سسٹم لگتا ہے، ڈیکوریشن کا خرچہ ہوتا ہے، مہمانوں کے لئے چائے اور ٹرانسپورٹیشن میں بھی خرچہ ہوتا ہے، اور پھر احتجاج ہو جاتا ہے لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔ بہت محتاط اندازے کے مطابق ایک چھوٹے سے احتجاج میں 40، 50 ہزار روپے تو لگ ہی جاتے ہیں۔

اس طرح چھوٹے سے جلسے پر 10، 15 لاکھ تو لگتے ہیں اور اگر بڑا جلسہ ہو تو کروڑوں میں معاملات چلیں جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر تحریک کے لئے جلسوں، ریلیوں اور احتجاج کی ضرورت پڑتی ہے مگر کچھ معاملات میں ان دھرنوں اور جلسوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور جس مقصد کے لئے احتجاج ہوتا ہے وہ برسوں تک جوں کا توں ویسا ہی رہتا ہے۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک سڑک کی تعمیر کے لئے احتجاج کیا جا رہا تھا اور وہ سڑک برسوں سے ایسے ہی موجود تھی اور اس احتجاج کے لئے کافی دنوں سے بینرز لگتے آ رہے تھے اور ساتھ ساتھ دوسرے طریقوں سے احتجاج بھی کیا جا رہا تھا، اس احتجاج کے پورے سلسلے میں لاکھوں روپے لگ گئے تھے مگر پھر بھی انتظامیہ حرکت میں نہ آئی، پیسے برباد گئے ۔ اگر وہ احتجاج کے انتظامات پت لگنے والے روڈ کی تعمیر میں لگ جاتے تو دو قسم کے کام ہو جاتے ایک تو پیسوں کا صحیح استعمال ہو جاتا اور دوسرا احتجاج والے لوگوں کو صحیح سلامت سڑک بھی دستیاب ہو جاتی۔

اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ایک علاقے میں پانی کا مسئلہ ہوا، وہاں کی مقامی تنظیموں نے کئی مہینوں تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا مگر مسئلہ جوں کا توں رہا، اس عرصے کے دوران کئی بار احتجاج ہوا جس میں بینرز، ساؤنڈ سسٹم، ڈیکوریشن سمیت مختلف قسم کے خرچے ہوئے لیکن اس کے باوجود کوئی فائدہ نہ ہوا اور لاکھوں روپے ضائع ہو گئے۔ وہ رقم سیاسی جماعتوں نے اپنے فنڈز سے خرچ کیے تھے، سیاسی جماعت کا مقصد اپنی واہ واہ تھی لیکن وہ بھی حاصل نہ ہوئی۔

لیکن اسی علاقے کی ایک جماعت نے اپنے فنڈز سے اس علاقے میں کئی جگہوں پر بورنگ کا آغاز کیا اور پھر پانی وافر مقدار میں ملنا شروع ہو گیا، عوام میں اس جماعت کی واہ واہ ہو گئی۔ اس جماعت نے ایک تیر سے دو شکار کیے ایک تو اپنی جماعت کی واہ واہ بھی کروا لی اور عوام کی پریشانی بھی دور کر دی اور ہاں اگلے الیکشن کے لئے بہت سے ووٹ بھی پکے کر لیے ۔

کراچی ہو یا دوسرا کوئی شہر اس میں آئے روز مختلف قسم کے احتجاج کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ان احتجاجوں کی مختلف اقسام ہوتی ہے، کوئی دھرنا ہوتا ہے ، کوئی جلسہ ہوتا ہے ، کوئی ریلی ہوتی ہے۔ لیکن یہ سب مفت میں نہیں ہوتا بلکہ اس میں ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں روپے لگ جاتے ہیں۔ کچھ احتجاج سڑکوں، پانی، گٹر کے ڈھکن جیسے مسائل کے حل کے لیے ہوتے ہیں مگر ان میں سے اکثر کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ اس میں وقت اور پیسے دونوں کا ضیاع ہوتا ہے اور اس سے عوام کو مزید پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ جدید دور میں احتجاج کے طریقے تبدیل بھی ہو رہے ہیں تو کیوں نہ احتجاج کا وہ طریقہ اختیار کریں جس میں عوام کو بھی کوئی فائدہ پہنچ سکے اور پارٹی کو بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments