فیمنسٹ: کیا اللہ میاں کی گاۓ کے سینگ ہیں؟


(ادارہ ہم سب یہ مضمون آزادی اظہار کے حق کے احترام میں شائع کر رہا ہے اور اس کے مندرجات سے بحیثیت مجموعی اتفاق نہیں رکھتا۔ خاص طور پر اس تاثر کے متعلق کہ آزادی نسواں کے مقصد کے لیے سرگرم خواتین غم روزگار سے بے نیاز ہوتی ہیں، ہم یہ تبصرہ کریں گے کہ آزادی نسواں کے لیے کام کرنے والی خواتین غم روزگار سے یوں آزاد نہیں ہوتیں جیسا تصور کیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں عورت مارچ کے متعلق اختلافی اور اتفاقی دونوں طرح کے مضامین متوقع ہیں اور ہم قارئین کے سامنے دونوں نقطہ نظر رکھیں گے تاکہ وہ خود فیصلہ کر سکیں۔ مدیر)۔

دانشوری کے اکھاڑے میں لڑنے والے کچھ متحارب فریق یہ طے کرنے میں لگے ہیں کہ خالق کائنات نے آدم و حوا میں سے کس کو فوقیت اور بالا دستی کی سند عطا کی تھی اور اس کے لیے اپنے دلائل میں الہامی حوالوں، حیاتیاتی نظریات اور من پسند فرمودات کے انبار لگا رہے ہیں ۔ ہمارے ایک بہت قابل دوست بڑے خشوع و خضوع سے یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ از شرق تا غرب یہ جو حوا کی بیٹی صنفی بالادستی کی ایک جنگ عظیم میں زبردست پیش قدمی کے دعوے رکھتی ہے تو اس کی حقیقت وہی زیرو جمع زیرو مساوی زیرو جیسی ہے۔

ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ جنگ کہاں اور کیوں چل رہی ہے اور چل بھی رہی ہے یا کچھ زمین کی گردش جیسا مسئلہ ہے کہ محسوس ہو نہ ہو۔ مانے بنا چارہ نہیں حالانکہ مانے بغیر بھی کچھ لوگ مزے کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ ریل کی حرکت جیسا ہے کہ باہر دیکھو تو سب الٹی طرف بھاگ رہا ہے اور اندر نظر کرو تو سب ساکت۔ کبھی محترم اور معزز خواتین فیس بک پر الفاظ کی توپوں سے دلائل کی ایسی گولہ باری کرتی نظر آتی ہیں کہ لگتا ہے فیمنزم کی زبردست جنگ عظیم گھر گھر جاری ہے۔ فیس بک سے باہر دیکھو تو دنیا وہی کہ جو تھی۔

روز جیسی پرسکون ، خاموش اور کلاک کی طرح یکسانیت سے آگے بڑھتی بڑھاتی۔ کسی گھر، گلی محلے شہر کے کوچہ و بازار، کسی گاؤں یا شہر سے صنفی بالادستی کے معاملے پر نہ کسی خانہ جنگی کی خبر نہ کوئی فتنہ و فساد کی اطلاع۔ ٹی وی پر ٹوٹکے فروشوں کے مارننگ شو سے تریا چلتر یعنی زنانہ مکر و فریب کے ایوننگ شو تک سب چل رہا ہے۔ لاکھوں کروڑوں علم و فن کی روشنی پھیلانے والی، اپنے جنم دیے ہوئے رشتوں کی آبیاری پیار سے کرنے والی، حسن کی ضو سے کائنات میں رنگ و نور بھرنے والی عورت کس مرد کی بالا دستی کے خلاف کہاں جہاد کر رہی ہے؟ صرف فیس بک پر۔

ہماری شدید عالم فاضل اور جھانسی کی رانی جیسی بہادر خواتین نے سوشل میڈیا پر یہ جنگ عظیم ضرور چھیڑ رکھی ہے۔  آج کچھ شوق غم روزگار سے فارغ خواتین نے پالے ہوئے ہیں۔ نام بنانے کے لئے کچھ شاعری گھڑنے کا شوق کرتی ہیں۔ کچھ ایکٹنگ ماڈلنگ ٹرینڈنگ، کچھ لیڈر بن جاتی ہیں۔ کچھ عالم غیب کا روپ دھار کے ٹی وی کے مارننگ شو میں قسمت کا اور حسن و شباب کے ٹوٹکوں کا بزنس چلاتی ہیں۔

ایسی ہی کچھ عاقلہ علامہ صرف فیس بک پر سادہ لوح بیبیوں کو بتاتی ہیں کہ تم تو ازل سے مرد کے ظلم و استحصال کا شکار ہو اور اللہ سے فریاد تو روز حشر کرنا لیکن دنیا میں مرد بد ذات کے خلاف آواز تو اٹھاؤ جس نے تم پر ناقص العقل کا لیبل لگا کے اپنی حاکمیت قائم کر لی ہے۔ تم کو پاؤں کی جوتی اور خود کو مجازی خدا سمجھنے والے کے منہ پر جوتی مارو۔ یہ باپ بھائی شوہر سب اسی قابل ہیں۔ پھر ایک بیانیہ لکھتی ہیں کہ عورت اب جاگ اٹھی ہے تو مشتری ہشیار باش۔ عافیت اسی میں ہے کہ مرد اب نامرد ہو جائیں ورنہ۔ ورنہ کے آگے کچھ نہیں۔

آگے کچھ ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ یہ مجاہد خواتین اپنے اپنے گھر میں بیٹی کی پرورش کے اصول وہی رکھتی ہیں جو ہزارہا سال سے نافذ ہیں۔ وہ کسی خاندان، برادری، قبیلے یا سماج یا عقیدے کی اجتماعی سوچ کے خلاف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ کون تحریک مساوات خواتین کی نقیب باپ سے کہے گی کہ ابا یہ تم کیا ظلم کر رہے ہو ،اپنی بیٹی کو سمجھا کر کہ بیٹی یہاں سے ڈولی اٹھ گئی اب سسرال سے تمہارا جنازہ ہی اٹھنا چاہیے۔ کیا وہ اپنی بیٹی کو یہ تعلیم دے سکتی ہے کہ بیٹی شریعت میں لکھا ہے شوہر تم کو الگ گھر لے کر دے اور اس کے ماں باپ کی خدمت تم پر واجب نہیں۔ سسرال میں شوہر گالی دے تو جواب میں تم بھی گالی دینا۔ وہ جوتا مارے تو تم بھی مارنا۔

دو جمع دو کے جواب کی طرح وہ جانتی ہے کہ اس کے بعد اس بیٹی کے ساتھ کیا ہو گا اور نیک نامی کی یہ کہانیاں عام ہوں گی تو باقی کے لئے رشتوں کے در کیسے بند ہوں گے۔ خود اس کے ساتھ سسرال اور میکے میں کیا ہو گا۔

چنانچہ وہ خود غرض اور مجبور بن جاتی ہے۔ نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر منافقت کرتی ہے۔ کسی پیر سائیں کے عرس پر شہر کے گوالے مزار کے تالاب میں ایک دن کا سارا دودھ ڈالتے تھے۔ پھر ایک نے سوچا کہ اگر میں ایک گاگر پانی کی ڈال دوں گا تو کسے پتا چلے گا۔ صبح تالاب پانی سے بھرا پایا گیا۔ یہی حال صنفی مساوات کی تحریک کا ہو رہا ہے۔ بہادر لیڈران کرام کے لئے اپنے گھر سے تحریک شروع کرنا ممکن نہیں۔ سب سے زیادہ تعداد میں وہ شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہیں لیکن ان کے لئے لاکھوں طالبات کو اس آزادی کی تلقین اور تبلیغ ممکن نہیں۔ دیگر ذرائع ابلاغ کا استعمال تو ممکن ہے۔ پرنٹ میڈیا ابھی متروک تو نہیں ہوا۔ کسی نے کالم یا مضمون لکھا ، کتاب کا سہارا لیا؟ ملکی سطح پر کتنے مذاکرے اور سیمینار منعقد کیے؟

اپنے دارالحکومت کے گلوں میں رنگ بھرنے والی بہار کے ساتھ یہاں میلوں کی بہار بھی اترتی ہے۔ کتابوں کا میلہ ، کلچر کا میلہ، ممنوعہ پتنگوں کا میلہ، کتوں پرندوں اور کاروں کا میلہ، پرچموں کا میلہ، فوجیوں کا میلہ مگر اس سے پہلے 8 مارچ کو ایک عورتوں کا میلہ۔ ایک بار غلطی سے راقم کو مدعو کیا گیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ جسے تو ڈھونڈتا تھا آسمانوں اور زمینوں میں، وہ ”پاکستان کی عورت“ تو پنج ستارہ ہوٹلوں کے جگمگ کرتے ہال میں ملتی ہے، اور کراچی لاہور اسلام آباد میں یہ ہزار دو ہزار درد مند نیک دل بیبیاں ہی در حقیقت ملکی خواتین کی قومی اسمبلی میں خود کو نامزد کر چکی ہیں۔ اللہ نے درد دل انہی کو دیا تو اس کی مرضی۔ یہ کس بے غرضی بے باکی سے فیس بک پر زنانہ جنگ عظیم کی قیادت کر رہی ہیں لیکن کیا کویٔی تحریک خواص کی محدود سطح پر رہ کر کامیاب ہو سکتی ہے؟ ٓ

آٹے میں نمک کا تناسب بھی زیادہ ہو گا۔ ملک کی گیارہ کروڑ زنانہ آبادی میں گیارہ ہزار بھی کیا ہیں۔ گیارہ لاکھ بھی ایک فیصد بنتا ہے۔ یہ خواتین گلی محلوں میں عام عورت تک کیوں نہیں جاتیں؟ دیہات کی ستر فیصد خواتین سے کیوں لا تعلق ہیں؟ قرۃالعین حیدر نے ہمسایہ ملک ایران کے بارے میں 1979 میں لکھا تھا کہ خواتین نے فرنچ ٹرانسپورٹ سروس کے خلاف تحریک چلائی تو وہ بسوں میں چڑھ کے مسافروں کو بائیکاٹ پر اکسانے لگیں۔ وہ گھروں سے اپنے زیور لے آئیں کہ یہ لو پیسے رکشا ٹیکسی کا زیادہ کرایہ دو مگر بس میں سفر مت کرو۔ بس کمپنی دیوالیہ ہو گئی۔ یہ اتحاد کی قوت کے سوا کیا تھا؟

اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ خرابی کے ذمہ دار مرد کے رویے کی اصلاح کی جائے مگر جو آدم خور شیر کے گلے میں گھنٹی باندھے جان سے جائے؟ شاید ایسا نہیں ہے۔ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر۔ عورت جب چاہتی ہے اس آدم خور شیر کو بلی بنا کے جو چاہتی ہے کرا لیتی ہے۔ دیس چھڑائے بھیس چھڑائے اپنے پرائے سب چھڑائے۔ دعوے کرے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے اسی کا ہاتھ ہے۔ زن مریدی اسی کے دم سے ہے اور ماں سے پوچھو تو سارے بیٹے زن مرید۔ پھرصنفی مساوات کا سبق پڑھانے کے معاملے میں وہ اللہ میاں کی گائے کیوں بن جاتی ہے۔ کیوں بھول جاتی ہے کہ اس کے سینگ بھی ہیں۔ اور انہی سینگوں پر دنیا قائم ہے، وہ سینگ بدلے تو زلزلہ آ جاتا ہے۔

احمد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد اقبال

احمد اقبال 45 سال سے کہانیاں لکھ رہے ہیں موروثی طور شاعر بھی ہیں مزاحیہ کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع ہو کے قبولیت عامہ کی سند حاصل کر چکا ہے سرگزشت زیر ترتیب ہے. معاشیات میں ایم اے کیا مگر سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ملکی تاریخ کے چشم دید گواہ بھی ہیں.

ahmad-iqbal has 32 posts and counting.See all posts by ahmad-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments