میانمار میں فوجی بغاوت: برطانیہ نے تین جنرلوں پر پابندیاں عائد کر دیں، اثاثے منجمد


میانمار

برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ میانمار میں فروری کے شروع میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے تین جنرلوں کے اثاثے منجمد کر کے اُن پر سفری پابندیاں عائد کر رہا ہے۔

سیکریٹری خارجہ ڈومینیک راب نے کہا کہ ان پابندیوں کے باعث ‘میانمار کی فوج کو اُن کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر حساب دینا ہوگا۔’

اس کے علاوہ برطانیہ میانمار کی فوجی حکومت کی بالواسطہ برطانوی امداد روکنے کے لیے بھی نئے اقدامات کرے گا۔

اس سے پہلے گذشتہ ہفتے امریکہ بھی فوجی بغاوت کے قائدین پر پابندیاں عائد کر چکا ہے۔

فوج نے ملک کی منتخب سربراہ آنگ سان سوچی کی جماعت کی عام انتخابات میں زبردست کامیابی کے بعد یکم فروری کو اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

میانمار میں فوجی بغاوت، آنگ سان سوچی زیر حراست

آنگ سان سوچی: نوبل امن انعام سے روہنگیا قتلِ عام کے الزامات کے دفاع تک

میانمار میں منتخب حکومت گرا کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی سربراہ کون ہیں؟

میانمار

آنگ سان سوچی کو اُن کی جماعت کے دیگر ارکان کے ساتھ زیرِ حراست رکھا گیا ہے اور فوج نے ملک کا انتظام سنبھال کر ایک سالہ ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے۔

پابندیاں وزیرِ دفاع جنرل میا تن او، وزیرِ داخلہ لیفٹیننٹ جنرل سو ہتوت اور ڈپٹی وزیرِ داخلہ لیفٹیننٹ جنرل تھان ہلینگ پر عائد کی جائیں گی۔

اس سے پہلے بھی برطانیہ نے میانمار کی فوج کے 16 افراد پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

ڈومینیک راب نے کہا: ‘برطانیہ اس فوجی بغاوت اور آنگ سان سوچی سمیت دیگر سیاسی شخصیات کی غیر قانونی حراست کی مذمت کرتا ہے۔’

‘ہم اپنے بین الاقوامی اتحادیوں کے ساتھ مل کر میانمار کی فوج سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حساب لیں گے اور میانمار کے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے اقدام کریں گے۔’

میانمار

‘درست مگر ناکافی اقدام’

اس کے بعد لیبر پارٹی کے شیڈو وزیر سٹیفن کنوک نے فوجی حکام پر تازہ ترین پابندیوں کو ‘درست سمت میں قدم’ قرار دیا۔

مگر انھوں نے کہا کہ یہ اقدام ‘اب بھی کافی نہیں’ تھا اور کہا کہ برطانوی حکومت کو میانمار کی اُن فرمز کو بھی نشانہ بنانا چاہیے جو فوج کی مالی مدد کرتی ہیں۔

برطانوی وزرا پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی گئی تھی کہ اُنھوں نے بغاوت کے فوراً بعد فوجی حکام پر پابندیاں کیوں نہیں عائد کیں۔

اس کے ایک دن بعد دارالعوام میں ایک بحث کے دوران دفترِ خارجہ کے وزیر نائجل ایڈمز نے کہا تھا کہ برطانیہ بین الاقوامی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ‘اس حوالے سے اگلے اقدامات پر غور’ کرے گا۔

برما کے نام سے بھی مشہور میانمار سابقہ برطانوی کالونی ہے جس نے 1948 میں آزادی حاصل کی تھی۔

فوج نے اس ملک پر 1962 سے 2011 تک حکومت کی جس کے بعد یہاں سول حکمرانی قائم ہوئی۔

میانمار

فوج نے اقتدار پر قبضہ کیوں کیا؟

میانمار میں گذشتہ سال نومبر میں انتخابات منعقد ہوئے تھے جس میں آنگ سان سوچی کی جماعت این ایل ڈی نے بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔

مگر الیکشن کے نتائج کو فوج کی حمایت یافتہ جماعت یو ایس ڈی پی کی جانب سے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے مسترد کر دیا گیا، تاہم الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے الزامات کو رد کر دیا۔

اس کے بعد فوج کے سربراہ جنرل من آنگ ہلینگ نے 27 جنوری کو آئین کی معطلی کی دھمکی دی تھی مگر بعد میں 30 جنوری کو اُن کے دفتر نے کہا تھا کہ اس بیان کی غلط تشریح کی گئی ہے۔

مگر یکم فروری کو نئی حکومت کی توثیق کے لیے ہونے والے پارلیمانی اجلاس سے قبل سیاسی شخصیات کو گرفتار کر کے ہنگامی حالت نافذ کر دی۔

فوج کے سربراہ کے تحت منعقد ہونے والے نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں کہا گیا کہ انتخاب میں دھاندلی کے الزمات کی تحقیقات کرائی جائیں گی اور ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔ اس اعلان سے عملاً گذشتہ انتخابات میں این ایل ڈی کی کامیابی کو رد کر دیا گیا ہے۔

میانمار

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف عوام کی جانب سے بڑی تعداد میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ فوج اقتدار سے دستبردار ہو جائے۔

ان مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر گولیاں بھر برسائیں تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ یہ گولیاں ربڑ کی ہیں یا اصلی۔

امریکہ سمیت کئی ممالک نے اس فوجی بغاوت کی مذمت کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32467 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp