جاوید اور مشتاق عالم: کشمیری عسکریت پسندوں کو اسلحہ فراہم کرنے کے الزام میں بہار کے دو بھائی گرفتار


'جب پولیس اسے گرفتار کرنے آئی تو وہ میرے ساتھ کھیتی باڑی میں مصروف تھا'۔

شدت پسندوں کو اسلحے کی فراہمی کے الزام میں بہار کے علاقے چھاپرا کے دیوبہوارا گاؤں کے ایک سکول کے ریٹائرڈ استاد محفوظ عالم کے 25 سالہ بیٹے جاوید عالم کو پیر کو پولیس نے گرفتار کیا ہے۔

وہ اپنے بیٹے کے بارے میں بات کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا فوج میں شامل ہونا چاہتا تھا لیکن ہر کوشش کے بعد بھی فوج میں شامل نہیں ہو سکا۔

جاوید کے علاوہ ان کے چھوٹے بھائی مشتاق عالم کو بھی اسی کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔ مشتاق پنجاب کے شہر موہالی میں نرسنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں جموں و کشمیر میں شدت پسندوں کو اسلحے کی فراہمی کے الزام میں بہار میں کسی کو گرفتار کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین مسلم کشمیر کی تحریک میں کیوں؟

کشمیرکی نئی عسکریت پسندی زیادہ دیرپا؟

’انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں شادی نہ کریں‘

‘ایک بیٹی انڈین ہے تو ایک پاکستانی،یہی ان کی تقدیر ہے’

لاپتہ انڈین فوجی کا ’حزب المجاہدین‘ میں شمولیت کا امکان

بہار پولیس کی تحقیقات

اس سے قبل اتوار کے روز جموں و کشمیر کے ڈی جی پی دلباغ سنگھ نے کہا تھا کہ اس سے پہلے ہدایت اللہ ملک اور ظہور احمد راتھر نامی دو عسکریت پسندوں کو اننت ناگ اور سامبا سے گرفتار کیا گیا تھا۔

اُن کے مطابق ان سے تفتیش کے دوران پتا چلا کہ انھوں نے بہار کے چھاپرا ضلع سے سات پستول خریدے تھے جس کے لیے پنجاب میں تعلیم حاصل کرنے والے کشمیری طلبا کو استعمال کیا جاتا تھا۔

اس معاملے پر بہار پولیس کے ڈی جی پی ایس کے سنگھل نے بی بی سی کو بتایا کہ جموں و کشمیر پولیس سے اطلاع ملنے کے بعد خصوصی ٹیموں نے تفتیش شروع کر دی ہے۔

سنگھل نے بی بی سی کو بتایا ‘ایک نوجوان کو گرفتار کیا گیا ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے ہتھیار فراہم کروائے ہیں۔ اب ہماری کوشش ہے کہ یہ معلوم کریں کہ یہ ہتھیار ان کے پاس کیسے اور کہاں سے آئے۔’

کشمیری علیحدگی پسندوں کو اسلحہ فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار 25 سالہ جاوید عالم اور مشتاق عالم کے گھر پر بدھ کے روز ہم نے ان کے والد محفوظ عالم سے ملاقات کی۔

وہ اپنے بیٹوں کے بارے میں میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کو رد کرتے ہیں۔

ہاتھ میں مقامی اخبار لیے محفوظ عالم نے اخبار کے صفحات پلٹ کر خبر دکھاتے ہوئے کہا ‘میں نے بار بار کہا ہے اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ میرا بیٹا جاوید کبھی بھی باہر پڑھنے نہیں گیا۔ اس نے بچپن سے اب تک کی تمام تعلیم یہیں حاصل کی ہے۔

’میں نے اس کی تمام دستاویزات میڈیا کو بھی دکھائی تھیں لیکن میڈیا نے یہ تاثر دیا ہے کہ جاوید باہر تعلیم حاصل کررہا تھا۔’

محفوظ عالم نے بتایا کہ ان کا دوسرا بیٹا مشتاق صرف ڈھائی ماہ قبل پڑھنے موہالی گیا ہے اور انھوں نے پچھلے کچھ دنوں سے مشتاق سے بات نہیں کی ہے۔

وہ کہتے ہیں ‘وہ گذشتہ سال 28 نومبر کو نرسنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے موہالی گیا تھا۔ دو تین دن سے اس کا فون بند تھا تو ہمیں لگا کہ پڑھائی میں مصروف ہو گا۔ لیکن جب پولیس جاوید کو گرفتار کرنے آئی تب ہمیں معلوم ہوا کہ مشتاق کو پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا ہے۔

محفوظ عالم کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ صرف ڈھائی ماہ قبل موہالی جانے والے ان کے بیٹے کے شدت پسندوں کے ساتھ تعلقات ہو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا آئی پی ایس افسر بننا چاہتا تھا۔

گاؤں والوں کا ردِ عمل

محفوظ عالم ایک استاد رہے ہیں لہٰذا پورے علاقے میں ان کی عزت ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی والے اس گاؤں میں ہم نے جس سے بھی بات کی اس نے محفوظ عالم اور ان کے خاندان کے بارے میں مثبت باتیں بتائیں۔

ان کے پڑوسی رمیت کا کہنا ہے کہ ‘جاوید ایسی حرکت کرے گا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مشتاق باہر تعلیم حاصل کر رہا تھا وہ باہر کیا کر رہا ہے، کون جانتا ہے اور اس کے گھر والوں کو کیسے پتہ چلے گا۔‘

جاوید کے ایک اور ہمسائے شیام نندہ سنگھ نے کہا ‘اگر آپ پورے گاؤں میں پوچھیں گے تو سب ایک ہی بات کریں گے کہ انھیں یقین نہیں ہے کہ محفوظ ماسٹر کے لڑکوں کا نام دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ کیسے ہوا تفتیش کے بعد معلوم ہوجائے گا۔ اگر لڑکے قصوروار ثابت ہوئے تو ہم انھیں کبھی معاف نہیں کرسکیں گے۔‘

مقامی پولیس گرفتاریوں سے آگاہ نہیں؟

مقامی پولیس کو جاوید اور مشتاق کی گرفتاری کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔

اتوار کے روز جب جموں و کشمیر کے ڈی جی پی نے شدت پسندوں کے چھاپرا سے تعلق کے بارے میں بات کی تو اس وقت چھاپرا کے ایس پی سنتوش کمار نے کہا کہ انھیں اس معاملے سے متعلق کوئی معلومات نہیں ہیں اور انھیں بھی خبروں کے ذریعہ پتہ چلا ہے۔

چھاپرا کے ایس پی سے بات کرنے کے فوراً بعد ہی ہمیں معلوم ہوا کہ جموں و کشمیر پولیس نے بہار پولیس کے ساتھ مشترکہ آپریشن کر کے جاوید کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس کے بعد ہم نے ایس پی سے ایک بار پھر بات کی لیکن انھوں نے پھر بھی یہی کہا کہ انھیں اس کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔

کیا جاوید کا پولیس ریکارڈ ہے؟

ماڈورا تھانے کی مقامی پولیس نے بھی اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سٹیشن انچارج نے بتایا کہ وہ اس معاملے پر بات نہیں کر سکتے۔

جب ہم نے جاوید کے بیک گراؤنڈ اور مجرمانہ ریکارڈ کے بارے میں پوچھا تو سٹیشن انچارج نے کہا ‘یہاں کے تھانے میں تو ریکارڈ اچھا ہے۔ لیکن اس کے خلاف 2018 میں ناگرا پولیس سٹیشن میں مار پیٹ کا واقعہ درج ہوا تھا۔ اس میں فائرنگ بھی ہوئی تھی۔’

جاوید عالم کی گرفتاری کے بعد پولیس اسے کشمیر لے گئی ہے۔ اے ٹی ایس کے فون کرنے کے بعد لڑکوں کے والد محفوظ عالم اپنے بیٹے سے ملنے منگل کے روز پٹنہ پہنچے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وہ تحقیقات میں تعاون کریں گے۔ انھیں یقین ہے کہ ان کے دونوں بیٹے جلد ہی بے قصور ثابت ہو جائیں گے۔

جہاں تک بہار کے ساتھ کشمیر کے عسکریت پسندوں کے تعلق کی بات ہے تو یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔

ماضی میں بھی انڈین مجاہدین، جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسے شدت پسند گروہوں کے بہار سے رابطوں کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔

تاہم بہار سے شدت پسندوں کو اسلحہ کی فراہمی کا معاملہ پہلی بار سامنے آیا ہے۔ اس سے پہلے بھی بیشتر مواقع پر انتہا پسندوں کے بہار میں چھپنے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp