فسادات پنجاب 47ء کے کچھ کردار


بنگال اور بہار کے بعد فسادات کا دوسرا خوناب دھارا پنجاب کے شمالی علاقوں سے پھوٹا۔ پنجاب کے فسادات میں بھی تقویمی ترتیب پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ خضر حیات کی وزارت 2 مارچ کو مستعفی ہوئی۔ گورنر ایون جین کنز ( Sir Even Jenkins) نے مسلم لیگ کو حکومت سازی کی دعوت دینے کی بجائے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کی دفعہ 93 کے تحت پنجاب میں گورنر راج نافذ کر دیا۔ شوکت حیات لکھتے ہیں کہ ”مسلمانوں کو نظر انداز کر کے پنجاب میں حکومت بنانے کا یہ بدقسمت واقعہ پنجاب میں مشکلات اور ہندوستان بھر میں قتل عام کی وجہ بنا…. وہ (گورنر) اس عمل کے متوقع خوفناک نتائج کو بھانپ نہ سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں مسلمان مشرقی پنجاب میں شہید ہوئے اور بہت سے ہندو مغربی پنجاب میں مارے گئے“۔

سردار شوکت حیات نے یہ نشاندہی کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ واہ ، ٹیکسلا ، کہوٹہ ، جہلم ، راولپنڈی ، کیمبل پور اور چکوال میں یہ فسادات 4 مارچ 1947ء کو (گویا مسلم لیگ حکومت نہ بن سکنے کے عین دو روز بعد) شروع ہوئے۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ مسلم لیگ کی حکومت نہ بننے اور پوٹھوہار کے ناخواندہ اور پسماندہ خطے میں شروع ہونے والے فسادات میں علت و معلول کا کیا رشتہ تھا جب کہ وہاں کے بیشتر باشندے تو انتخابات میں ٹیکس ، تعلیم اور جائیداد جیسی شرائط پوری نہ کرنے کی بنا پر ووٹ دینے کے اہل ہی نہیں تھے۔نیز یہ کہ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کی بنا پر اس منطقے کا پاکستان میں شامل ہونا ناگزیر تھا۔

سردار شوکت حیات، جنہیں 1943 ء میں نامناسب رویے کے الزام میں 28 برس کی عمر میں صوبائی وزارت سے برطرف کیا گیا تھا، خود پوٹھوہار کے علاقے واہ میں کھٹر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ سابق وزیر اعظم پنجاب سکندر حیات کے بیٹے تھے۔ بائیں بازو کے رہنما طارق علی کے ماموں تھے۔ بادی النظر میں یہ شک کیا جا سکتا ہے کہ مارچ 1947 ء کے پہلے ہفتے میں شروع ہونے والے ان فسادات کے پیچھے سردار شوکت حیات کا ہاتھ تھا۔ تاہم ایسا الزام بغیر سوچے سمجھے عائد نہیں کرنا چاہیے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مشتاق احمد وجدی (تب ریلوے میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے) اس ضمن میں اپنی خود نوشت میں کیا کہتے ہیں۔

 ”(انہی ایام میں) سردار شوکت حیات نے مجھے طلب کیا اور کہا کہ سخت فسادات ہونے والے ہیں۔ ان کے لیے ہتھیار جمع کرنے ضروری ہیں۔ یہ صوبہ سرحد سے آئیں گے۔ لیکن ریلوے سٹاف کی مدد ضروری ہے۔ میں نے لائن سٹاف کے مسلمانوں کو جمع کیا۔ سب نے انتہائی مستعدی کا اظہار کیا اور قسم کھائی کہ اس کام میں جیل جانا تو کیا جان بھی دینی پڑے تو ثابت قدم رہیں گے۔ کمیٹی بنی ، فرائض تقسیم ہوئے۔ میں نے حاضر ہو کر سردار شوکت حیات کو تفصیل بتائی۔ انہوں نے کہا فوراً دلی جاﺅ اور لیاقت علی خاں صاحب کو بتاﺅ۔ میں دوسرے ہی دن دلی پہنچا۔ لیاقت علی خاں اس وقت کانگریس اور مسلم لیگ کی مخلوط وزارت میں وزیرِ خزانہ تھے۔ غالباً میرے آنے کی اطلاع ان کو پہلے سے تھی۔ کارڈ ملتے ہی فوراً طلب کیا۔ غور سے تفصیلات سنیں۔ مزید ہدایات کا وعدہ کیا اور اخفائے راز کی تاکید کی۔ اسی زمانے میں وزارتِ خزانہ میں میرا تقرر بحیثیت ڈپٹی سیکرٹری کے ہو گیا۔ اور میں لاہور سے دلی چلا گیا۔ معلوم نہیں میری بنائی ہوئی تنظیم کہاں تک مفید رہی۔ بعد میں وسیع پیمانے پر جو کشت و خون ہوئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے کچھ نہ کچھ ضرور مدد کی ہو گی“۔

خیال ہو سکتا ہے کہ ایک اہم سیاسی رہنما پر اتنا بڑا الزام محض ایک سرکاری افسر کی شہادت پر نہیں لگانا چاہیے۔ مناسب ہو گا کہ اس پر میجر جنرل ریٹائرڈ شاہد حامد سے بھی گواہی لے لی جائے۔ اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھتے ہیں۔

”ہندوﺅں اور سکھوں کے خلاف فسادات پنڈی میں شروع ہوئے۔ اس وقت لوگوں کو بالعموم طور پر معلوم تھا کہ ایک نوجوان مسلم لیگی لیڈر نے جو فوج کا ایک ریٹائرڈ افسر اور علاقے کے ایک بڑے جاگیردار خاندان کا فرزند تھا ، ’قوم کی محبت اور اسلامی فریضے‘ پر مبنی اس کام کا آغاز کیا۔ مسلمان ان دنوں عام طور پر اسے ملک سے محبت کا کام سمجھتے تھے۔ بریگیڈئیر نور احمد حسین نے بتایا کہ 1980ءکے عشرے میں محض اتفاقاً ان کی ملاقات اس لیڈر سے ہو گئی جو اس زمانے میں سال خوردہ سیاست دانوں میں شمار ہوتے تھے۔ یہ ملاقات لندن میں ہوئی تھی۔ بریگیڈئیر نے انہیں ساتھ لیا اور ہائیڈ پارک سے جہاں ان کی اتفاق سے مڈ بھیڑ ہو گئی تھی ، اپنے فلیٹ میں لے گئے۔ بزرگ سیاست دان نے اپنے اس فعل سے نہ تو انکار کیا اور نہ افسوس کیا اور نہ انہیں ان فسادات پر کوئی ندامت تھی۔ بلکہ نور احمد حسین کو اس بات سے حیرت ہوئی کہ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی انہوں نے اس کا دفاع کیا اور بھلا کیوں نہ کرتے انہیں ان فسادات سے ذاتی طور پر بہت فائدہ پہنچا تھا“۔

میجر جنرل (ریٹائرڈ ) شاہد حامد نے خوب کہا کہ ان دنوں ”لوگوں کو بالعموم معلوم تھا “۔ صاحب! لوگوں کو ان دنوں ”بالعموم یہ بھی معلوم تھا“کہ لاہور میں ہونے والی قتل و غارت بالخصوص ایم اے او کالج کے باہر غیر مسلم بچیوں کا برہنہ جلوس نکالنے میں اسی خاتون کا دست معجزہ کار دخل انداز تھا جو ’شاہ نواز‘ ہونے کا زعم اور ’جہاں آرائی‘ کا عزم رکھتی تھی۔

ایک قابل غور پہلو یہ ہے کہ گورنر پنجاب نے فسادات کو روکنے کے لیے پنجاب کانگرس کے سابق صدر مولانا داﺅد غزنوی کو پنڈی روانہ کیا تو اس پر سردار شوکت حیات خاصے سیخ پا ہوئے۔ انہیں اعتراض تھا کہ مولانا کی اس علاقے میں ”کوئی پہچان نہیں تھی“ البتہ جب سردار شوکت حیات کو موقع دیا گیا تو بقول ان کے ”میں نے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر اس قتل و غارت کو بند کرا دیا“۔ سبحان اللہ ! ایسی کیا گیڈر سنگھی تھی کہ پوٹھوہار کے طول وعرض میں بھڑکتے شعلے 24 گھنٹے میں سرد پڑ گئے ۔

خود سردار شوکت حیات اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں ”بہار میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد اچانک قواعد اور معمول سے ہٹ کر ان مسلم فوجیوں کو جن کا تعلق راولپنڈی ڈویژن سے تھا فوری طور پر رخصت پر بھیج دیا گیاتاکہ وہ بہار کے قتل عام کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ردعمل کے طور پر اس سپاہی خیز خطہ میں قتل، لوٹ مار اور عصمت دری شروع کر دیں“۔ یہ منطق تو غالباً سردار شوکت ہی سمجھتے ہوں گے کہ راولپنڈی ڈویژن سے تعلق رکھنے والے مسلم فوجیوں کو رخصت پر بھیجنے میں کیا مصلحت کارفرما تھی۔ فوج براہ راست برطانوی حکومت کے ماتحت تھی۔ تو گویا انگریز فسادات بھڑکانا چاہتے تھے؟ آخر کیوں؟ برطانیہ تو ہندوستان چھوڑ کر جا رہا تھا۔ بہار میں فسادات 25 اکتوبر 1946ء کو شروع ہوئے تھے۔ عبوری حکومت قائم ہو چکی تھی جس میں پنڈت نہرو وزیراعظم تھے۔ راولپنڈی ڈویژن میں سکھ اور ہندو آبادی کے قتل عام سے کانگرس کو کیا فائدہ ہو سکتا تھا؟ فوجیوں کو رخصت پر بھیجنے کے فیصلے پر مسلم لیگ کیسے اثر انداز ہو سکتی تھی ؟ منطق سردار شوکت حیات کا تخصص نہیں لیکن انہوں نے کم از کم یہ توتسلیم کیا کہ غیر مسلم آبادی کو تہہ تیغ کرنے میں مسلم سپاہی ملوث تھے۔

shaukat hayat – mumtaz daultana-ch altaf hussain

ہارون الرشید ایک خاص ذہن کے حامل اردو صحافی ہیں۔ اپنی پارسائی کی ہوا باندھتے ہیں ۔ ’رقیق القلم‘ واقع ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ منفعل مداحی بلکہ تملق کے لیے معروف ہیں۔ ہارون الرشید نے ’فاتح‘ کے عنوان سے افغان جہاد کے ایک اہم پاکستانی کردار اور طویل عرصے تک آئی ایس آئی کے سربراہ اختر عبدالرحمن کی سوانح لکھی تھی۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

”ریٹائرڈ حوالدار مرتضیٰ اب راولپنڈی کی ایک فیکٹری میں لیبر افسر کے فرائض انجام دیتا ہے۔ اسے وہ دن خوب یاد ہے جب پنڈ دادن کے مالدار ہندوﺅں سے بھری ہوئی ریل گاڑی پتوکی ریلوے سٹیشن پر روک دی گئی اور ہجوم نے اس پر حملہ کر کے ہزاروں آدمیوں کو ہلاک کر ڈالا۔ حفاظتی گارڈ کے انچارج (لیفٹیننٹ) اختر عبدالرحمن نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں اور بھپرے ہوئے ہجوم کا راستہ نہ روکیں۔ ’اگر حفاظتی دستے کو ہجوم کا راستہ روکنے کا حکم دیا جاتا تو کیا وہ اس کی تعمیل کرتے؟‘۔ مرتضیٰ کا جواب نفی میں ہے۔ ’صاحب !ہم نے لاشوں سے بھری گاڑیاں دیکھی تھیں۔ آئے روز ہمارے عزیزوں کے مرنے، لٹنے کی خبریں آتی تھیں‘۔ جب پتو کی کے قریب مشتعل ہجوم نے گاڑی کو روکا اور فیصلے کا لمحہ آ پہنچا تو لیفٹیننٹ اختر عبدالرحمن نے اپنا دل پتھر کا بنا لیا اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں تک وہ اس واقعہ کو یاد کرتے رہے اور انہیں اس کا کوئی ملال نہ تھا۔ اِن کی رائے یہ محسوس ہوتی تھی کہ یہ تو ایک جنگ کی طرح تھا، جب ایک قوم کے لوگوں کو بے دردی اور سفاکی سے قتل کیا جائے، ان کی عورتوں کی آبرو ریزی کی جائے، ان کے بچوں کو سنگینوں سے چھید ڈالا جائے اور ان کے بوڑھوں پر گھوڑے چڑھا دیے جائیں تو اس سے دشمن کے معاملے میں رحم دلی کی امید نہیں کی جا سکتی، ’ ہم نے ہجوم کو نہیں روکا‘۔ انہوں نے 1987ءمیں اس تاریخی رجمنٹ(2فیلڈ رجمنٹ) کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’ہم انہیں روکنا نہیں چاہتے تھے۔“

Bhutto and akhtar abdur rehman

اس سوال کو جانے دیں کہ شمالی پنجاب میں دریائے جہلم کے کنارے واقع پنڈ دادن خان سے مشرقی پنجاب کی طرف سفر کرتے ہوئے ریل لاہور سے 83 کلومیٹر جنوب میں واقع پتوکی کیسے پہنچتی ہے۔ بحر ظلمات وغیرہ میں گھوڑے دوڑانے والے تاریخ ہی نہیں، جغرافیہ بھی روندتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ لیفٹیننٹ اختر عبدالرحمن حکومت پاکستان کے ملازم تھے اور حکومت نے فسادات کے دوران انہیں مشرقی پنجاب کی طرف سفر کرنے والے غیر مسلم باشندوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی۔ نہتے مسافروں پر حملہ آور ہونے والے شرپسندوں کو کھلی چھٹی دے کر لیفٹیننٹ اختر عبدالرحمن اپنے فرائض منصبی سے مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے۔ ہارون الرشید ان کی ’رائے محسوس کرنے‘ کا استحقاق رکھتے ہیں کہ قرب عساکر سے بہرہ ور رہے ہیں لیکن یہ جنگ تو نہیں تھی، یہ تو مذہب کے نام پہ فسادات اور لوٹ مار کی

وحشت تھی۔ جہاں تک جنگ کا تعلق ہے تو اختر عبدالرحمن کی کارکردگی پر زیادہ پیشہ ورانہ تبصرہ میجر آفتاب احمد نے اٹک سازش میں ملزم کی حیثیت سے اپنے بیانِ صفائی میں کر رکھا ہے جو ان کی کتاب ’اٹک قلعے سے‘ میں شامل ہے۔ اختر عبدالرحمن نے برطانوی فوج میں کمیشن لیا تھا ۔ یہ تو ممکن نہیں کہ انہیں جنیوا کنونشن سے آشنائی نہ ہو اور وہ حالت جنگ میں مزاحمت نہ کرنے والے حریف کے حقوق سے آگاہ نہ ہوں۔ ہارون الرشید سیا سی امور پر مذہبیت کا کمبل ڈالنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ لیکن وہ جس مذہب کے نام لیوا ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں اس کی تعلیمات میں بھی جنگ کے دوران عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر ہاتھ نہ اٹھانے کا حکم شامل ہے۔

جنگ سپاہی کا پیشہ ہے اور اس کے جملہ تکنیکی امور پر عبور اس کی تربیت کا حصہ۔ تاہم انسانی تاریخ میں جنگی رہنما ﺅں کے ہمیشہ سے دو زمرے رہے ہیں۔ پہلا طبقہ جنگ کو ایک ناگزیر مگر ہنگامی ذمہ داری تصور کرتا ہے اور فوجی کارروائی ختم ہوتے ہی بنیادی اخلاقیات اور انسانی معمولات کی طرف مراجعت کو ترجیح دیتا ہے۔ دوسرے زمرے میں ان سپاہیوں کا شمار ہوتا ہے جن کے لیے قتل و غارت اور خوں خواری بذات خود ایک طرز حیات کا درجہ رکھتی ہیں۔ چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے اعلیٰ عہدے پر پہنچ کر بھی اپنے ماتحت افسروں اور جوانوں کے سامنے چالیس برس پہلے کے ایک غیر انسانی، غیر قانونی اور غیر پیشہ ورانہ مجرمانہ فعل پر ندامت کا اظہار نہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اختر عبدالرحمن  خون آشامی اور برخود غلط جاہ پسندی پر غیر معتدل قوم پرستی اور مذہبیت کی چادر ڈالنے کی کوشش کرتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments