خلافت کی مانگ کے پس پردہ فکر


حضرت محمد ﷺ کے بعد حالات کچھ ایسے بنے کہ صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ ان حالات میں مؤرخین کے مطابق فتنے کو ٹالنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں دکھتا تھا سوائے اس کے کہ فوری کسی سربراہ کا تعین ہو۔ تاہم تاریخ گواہ ہے کہ اہل بیت صحابہ کرام کی جماعت کے اس فیصلے پر کچھ خاص خوش نہیں تھے۔ حضرت فاطمہ باغ فدک کے فیصلے پر جبکہ حضرت علی مشاورت میں اہل بیت کو نظرانداز کیے جانے پر ناراض ہوئے۔

حضرت ابوبکرؓ عین جمہوری اصول پر جب سربراہ منتخب ہوئے تو انہیں خلیفۃ الرسول یعنی رسولؐ کا جانشین کہا جانے لگا۔ سو خلیفہ کوئی دینی ٹرم نہیں بلکہ عربی کا ایک لفظ ہے۔ حضرت عمرؓ پر جب سب کا اتفاق ہو گیا تو انہیں خلیفۃ خلیفۃ الرسول یعنی رسول اللہ کے جانشین کا جانشین کہا جانے لگا تاہم انہیں جب لگا کہ یہ خطاب آئندہ مزید لمبا نہ ہو جائے تو انہوں نے امیرالمومنین کا خطاب پسند کیا۔

حضرت عثمان تیسرے خلیفہ تھے جنہیں مدینہ کی شوریٰ نے منتخب کیا اور باقیوں نے فیصلے کی تائید کی۔ حضرت عثمان کے دور کا اختتام مختلف شہروں میں بنو امیہ کی کرپشن اور اقرباپروری کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کے دوران ہوا جس کے بعد مکہ میں حضرت عائشہ اور شام میں حضرت امیر معاویہ نے حضرت علی کی خلافت کو تب تک کالعدم قرار دے دیا جب تک شہید حضرت عثمان کا بدلہ نہ لے لیا جائے۔ قصۂ مختصر، اپنی شہادت تک حضرت علی 60 فی صد جبکہ حضرت امیر معاویہ 40 فی صد اسلامی خلافت کے رقبے پر حکمران رہے۔

حضرت حسن نے ساری سلطنت امیر معاویہ کے حوالے کر کے صلح کو ترجیح دی جن کا بیٹا یزید اسلامی تاریخ کا پہلا بادشاہ بنا۔ یزید کے دور میں نواسۂ رسول حسین اور باقی خاندان اہل بیت کے جوانوں کی کربلا میں یزیدی لشکر کے ہاتھوں بے رحمانہ شہادت ہوئی جس کی چند دہائیوں بعد خراسانی لشکر کی مدد سے عراق کے بنو عباس نے بنو امیہ کا سارا خاندان شہید کر کے خلافت اپنے قبضے میں لے لی۔ عباسیوں نے ایک ایک اموی ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارا۔ اسلامی تاریخ میں قتال کی اتنی کہانیاں ہیں کہ انسان کو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ شہید کون ہے اور مقتول کون؟

خیر سپین میں امویوں کے کچھ ننھیالی موجود تھے جن کی مدد سے اموی عبدالرحمٰن نے سپین میں ایک عظیم سلطنت بنوامیہ کھڑی کر دی۔ 900ء تک عباسیوں کے خلیفہ بے بس ہو چکے تھے اور سلطنت کے امور سپہ سالار اور فوجی افسران کے پاس تھے جو عوام پر ٹیکس بڑھاتے رہتے تھے۔ 1000ء کے بعد سلجوق اور فاطمی سلطنت جبکہ بارہویں صدی میں ایوبی سلطنت بھی وجود رکھتی تھی۔ ایران، افغانستان، سنٹرل ایشیا اور ہندوستان کے علاوہ افریقی علاقوں پر اور لوگوں کے کنٹرول تھے تاہم یہاں موضوع بحث وہی علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کی نام نہاد خلافت جس کو قائم رکھنا دینی فریضہ سمجھا جاتا ہے، زندہ رہی۔

ہلاکو خان کے بعد نامعلوم ریاستیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں ، تاہم 1500ء تک زیادہ علاقے عثمانی سلطنت کے ماتحت آ گئے۔ سارے مسلمان حضرت عثمان کے بعد ایک سربراہ کے ماتحت کبھی نہیں آئے اور بعد میں مسلمان اتنے زیادہ علاقوں تک پھیل چکے تھے کہ یہ ممکن بھی نہیں تھا۔

اس سارے عرصے میں ایک دینی فکر پروان چڑھی۔ اس دینی فکر میں حضرت محمد ﷺ کے اصل عطا کیے دین میں اسلامی تاریخ کی بہت سی شخصیات کی روایات، آراء، اجتہاد اور قانونی فیصلے شامل ہو چکے ہیں اور یہ دینی فکر ہی ہے جس سے متأثر ہو کر پاکستان جیسے ملک میں جس کا کبھی خلافت یا خلافت والوں سے کوئی تاریخی یا جغرافیائی کنیکشن نہیں رہا، # 10 YearsWithoutKhilafah کا ٹویٹر ٹرینڈ چل ہوا ہے۔ مسلمان چاہے ہارورڈ یا آکسفورڈ کا فارغ التحصیل ہی کیوں نہ ہو، جب اس کا ضمیر اسے خدائے بزرگ و برتر اور دین اسلامی کے احکامات پر عمل کرنے کا کہتا ہے تو وہ اسی لٹریچر کا مطالعہ کرتا ہے جو اس دینی فکر کے نتیجے میں پروان چڑھا ہے۔ چاہے آپ آج مولانا طارق یا خادم رضوی کی تقاریر سنیں، چاہے اقبال کے شعری مجموعے دیکھیں، یہی دینی فکر ہے جو آپ کو سکھائی جا رہی ہے۔ اب دیکھیے کہ اس دینی فکر میں ہے کیا؟

اگر قانون، ریاست اور سیاست کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہماری فقہ کے قوانین کے مطابق دنیا میں صرف دو ملک ہیں: دارالأمن اور دارالحرب۔ دارالأمن جہاں مسلمانوں کی حکومت ہے اور دارالحرب جہاں غیر مسلم برسر اقتدار ہیں۔ کفر خود ہی ایک گناہ ہے سو اگر کافر کہیں اپنی حکومت قائم کریں تو مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ جب بھی ان کے پاس طاقت ہو، وہ اس کافر حکومت کو گرا دیں۔ اسی طرح مرتد کی سزا قتل ہے۔

زانی شادی شدہ ہے تو سنگسار کیا جائے گا اور اگر کنوارہ ہے تو سو کوڑوں کی سزا ہو گی۔ شراب پینے پر سزا ملے گی۔ چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔ سربراہ مملکت خلیفہ ہو گا اور پوری دنیا کے مسلمان اور ان کے علاقے خلیفہ کے ماتحت ہوں گے اور دارالحرب کو دارالأمن میں شامل کرنے کے لئے جہاد اور قتال مسلسل جاری رہے گا یہاں تک کہ پوری دنیا پر اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا جائے۔ جمہوریت اور ووٹ کا حق اس فکر کے نزدیک اجنبی چیزیں ہیں۔

قومیت کی بنیاد اسلام ہے جس کا مطلب اسلام قومی ریاست کو نہیں مانتا۔ جغرافیائی حدود کی کوئی بنیاد نہیں اور کافر سے دوستی گناہ ہے۔ عقائد کی فہرست میں مہدی اور مسیح کی واپسی پر ایمان لانا بھی ضروری ہے اور جو نہ مانے تو اس کے خلاف اقدام کیا جائے گا۔ دینی بیانیے پر تنقید یا اختلاف رائے پر کفر کے فتوے لگیں گے۔ ریاست چھوٹے سے چھوٹے دینی حکم کو بھی شہریوں پر لازم کرے گی جس کے بعد یقیناً سب ٹوپی اور حجاب میں پھرتے ہوں گے اور سب کی داڑھی ہو گی۔ لباس اور مرد و زن کے اختلاط کے قوانین پر عمل ہو گا۔ عورت کی گواہی آدھی ہو گی اور یقیناً بہت سے علماء ریپ زدہ عورت سے چار گواہان مانگیں گے۔

لہٰذا آپ جب بھی کسی کو دین کی طرف راغب دیکھیں تو صرف یہ نہ دیکھیں کہ وہ داڑھی رکھ کر اپنی بیوی کو پردے میں لا کر صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو چکا ہے، بلکہ ذہن میں رکھیں کہ خالی شلوار قمیض اور دوپٹے میں چلتی لڑکی دیکھ کر اس کا دل کرتا ہے کہ وہ اس چلن کو بدل دے اور اس کی ریفارمز مرد کا گھٹنا ننگا کرنے سے شروع ہو کر دنیا بھر کے غیر مسلموں سے جہاد کرنے تک جاتی ہیں اور اس روایتی دینی بیانیے میں ایسی کوئی بات نہیں جو اسامہ بن لادن نے نہ کہی ہو، بس اسامہ کے اقدام کو وقت کے حساب سے غلط قرار دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں جب ایسے ٹرینڈز بنتے ہیں تو یہ اسی مذہبی ذہن سے متأثر ہو کر بنتے ہیں۔ مدرسوں میں دہشت گردی نہیں، صرف یہی مذہبی ذہن پڑھایا جاتا ہے اور یہی تبدیلی ہے جس کی یہ لوگ مانگ کرتے ہیں اور کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس مسئلے کا حل صرف اور صرف تعلیم اور مکالمہ ہے۔ جن لوگوں نے تاریخ اور سوشل سائنسز پڑھ رکھی ہیں اور فرقوں سے ماوراء ہو کر دین کی روح جانی ہے، وہی ہیں جو اس دینی فکر کا جوابی بیانیہ بھی جانتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments