عوام آئی ایم ایف سے نہ گھبرائیں


دنیا بھر میں جن ممالک نے بھی آئی ایم ایف سے قرض لینے کی غلطی کی ہے، معاشی طور پر بہتر ہونے کی بجائے تباہ ہی ہوئے ہیں، پاکستان بھی انہی ممالک میں سے ایک ہے جو آئی ایم ایف سے قرض لے کر اپنی آزادی خود مختاری اور سلامتی داؤ پر لگا چکے ہیں۔ پاکستان کی ہر حکومت نے آئی ایم ایف کے قرضوں کا مزہ چکھا، اب موجودہ حکومت بھی مزہ چھکنے پر مجبور نظر آتی ہے، حالانکہ تحریک انصاف اقتدار میں آنے سے پہلے آئی ایم ایف کے قرض کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی تھی، مگر اقتدار میں آنے کے بعد قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے اور ملکی معیشت کی خرابی کی ذمہ داری گزشتہ حکومتوں پر ڈال رہی ہے، اس جماعت کو اقتدار میں آئے اڑھائی سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور ملکی حالات میں بہتری لانے کے لیے اتنا عرصہ کافی ہوتا ہے، مگر حکومت ملکی معیشت میں بہتری لانے کی بجائے عوام کو نہ گھبرانے کی تلقین کر رہی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف حکومت ملکی معیشت میں بہتری کے لئے شب روز کوشاں ہے، مگر حالات کی ستم ظریفی ہے کہ حکومت کے نہ چاہنے کے باوجود آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانا پڑ رہا ہے، اس بار بھی آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے تمام شرائط تسلیم کر لینے کے بعد پاکستان کے لیے قرض کا پروگرام بحال کر دیا ہے، آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان گزشتہ تین ماہ سے آن لائن مذاکرات جاری تھے، اس دوران میں آئی ایم ایف کے جائزہ مشن نے پانچواں جائزہ مکمل کیا اور ایگزیکٹیو بورڈ کو 50 کروڑ ڈالر کے قرض کی نئی قسط کے اجراء کی سفارش کر دی ہے، پاکستان، آئی ایم ایف مذاکرات کے اختتام پر آئی ایم ایف کے جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے پختہ عزم کا اظہار کیا ہے۔

یہ امر واضح ہے کہ آئی ایم ایف قرض دینے پر کڑی شرائط بھی رکھتا ہے، اس بار بھی آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ شرائط کوئی نئی نہیں ہیں، 2013ء میں میاں نواز شریف کے دور حکومت میں آئی ایم ایف نے 6.7 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا تھا تو اس وقت بھی ایسی ہی تباہ کن شرائط عائد کی گئی تھیں، جن میں تیل، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ، نجکاری کے نام پر قومی اداروں کی اونے پونے داموں فروخت، عوام کے لیے زرتلافی کا خاتمہ، وار آن ٹیرر کے ضمن میں ڈو مور کا مطالبہ شامل تھا۔

اس وقت بھی موجودہ وزیر خزانہ کی طرح، اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں، اس بار بھی یہی کچھ کہا جا رہا ہے، پہلے زرداری، گیلانی حکومت نے 2008ء میں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا فیصلہ کیا، اس کے بعد میاں نواز شریف نے اور اب پی ٹی آئی حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

پا کستانی حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، مگر اس کا قر ض دینے کے پیچھے ایجنڈا سیاسی ہوتا ہے، وہ کسی حکومت کو قومی و بین الاقوامی سیاست میں آزادانہ فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا، سابق حکومت کے دور میں مطالبہ تھا کہ بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دیا جائے، تاکہ وسط ایشیا اور بھارت کے درمیان زمینی رابطہ بحال ہو جائے اور اب آئی ایم ایف کے قرض کی منظوری سے پہلے ( سی پیک ) یعنی چین کی جانب سے بری اور بحری تجارتی راہداری کے منصوبے کی تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، آئی ایم ایف نے تینوں حکومتوں کو تین سال کے لیے 6 ارب ڈالر کی قرض کی منظوری دی اور ہر قسط کے موقع پر اپنی شرائط پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جاتا ہے، اگر شرائط پر عمل در آمد میں کوتاہی کی جائے تواصلاحاتی عمل کے نام پر بلیک میل کیا جاتا ہے۔

اس اصلاحاتی عمل سے مراد ہے کہ پاکستان کے قومی اداروں کی خود مختاری سلب کر لی جائے، ملک کے اوگرا، نیپرا اور اسٹیٹ بینک جیسے اہم ادارے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے نہ صرف تابع ہو جائیں، بلکہ حکومت کا ان پر کنٹرول بھی کم سے کم ہو جائے، آئی ایم ایف کو بڑھتی مہنگائی اور عوامی مشکلات سے کوئی غرض نہیں، انہیں اپنے ایجنڈے کی تکمیل سے غرض ہے۔ اس وقت ملک میں ایک طرف توبحث جاری ہے کہ سیاسی بالادستی کسے حاصل ہونی چاہیے، جبکہ دوسری جانب کوئی بھی سیاسی جماعت یا ریاستی ادارہ امریکا اور عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات کی مزاحمت کرنے کو تیار نہیں ہے، اگر آج پاکستان قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور معیشت اپنے قرضوں کو ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے تو اس کی بڑی وجہ ایسی حکومتیں رہی ہیں کہ جو اپنے اقتدار کے لیے امریکا اور عالمی اداروں کی خدمت گاری کے لیے پست سطح پر اترنے کے لیے بھی تیار ہو جاتی ہیں۔

تحریک انصاف حکومت ملکی معیشت میں بہتری لانے کے لیے آئی ایم ایف کا کڑوا گھونٹ پی رہی ہے، جبکہ اپوزیشن کی خواہش ہے کہ حکومت کو ناکام کر کے آئی ایم ایف پروگرام معطل کروایا جائے، یہاں قومی حوالے سے تو کوئی نہیں سوچ رہا، سب اپنے مفادات کے حصول میں لگے ہیں، آئی ایم ایف کے ارادوں سے لگتا ہے کہ اس بار بھی کوئی رعایت دینے کے لئے تیار نہیں، آئی ایم ایف اگر، مگر سننے کی بجائے اپنی شرائط پر عمل چاہتا ہے، ملک ایسے حالات معاشی لحاظ سے ایسی سمت کی جانب جا رہے ہیں کہ جس میں غریب عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو جائے گا، اگر اسی طرح بجلی، گیس، پٹرول مہنگی کرنے کی شرائط پوری ہوتی رہیں تو سمجھ لیں کہ ملکی معیشت یرغمال بن گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کے باعث بڑھتی مہنگائی میں عمران خان تو عوام سے یہی کہیں گے کہ آپ نے گھبرانا نہیں، لیکن حقیقت میں عوام اب گھبرا بھی رہے ہیں اور آئی ایم ایف سے پناہ بھی مانگ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments