کیا عورت کو مرد پر حاکم ہونا چاہیے؟


یہ ایک ایسی محفل کا قصہ ہے جہاں کوئی خاتون موجود نہیں تھی۔ بات چیت بہت سے راستوں پر بھٹکنے کے بعد صنفی مساوات کی پھسلواں ڈھلوان پر جا نکلی۔ عورت کا یک طرفہ مقدمہ سمجھنے اور پیش کرنے میں یوں بھی برصغیر کے مرد ید طولی رکھتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں فیصلہ ہو گیا کہ صنفی مساوات کا پرچم محض گمراہی کا پر تو ہے۔ مرد عورتوں پر حاکم ہیں تو کسی وجہ سے ہیں اور عورتیں ناقص العقل مشہور ہیں تو اس میں کچھ مبالغہ واللہ نہیں ہے۔

ہمارے ساتھ ایک ہم زاد نما دوست بھی تھے۔ ان کے نام کا آپ کیا کریں گے۔ ہم انہیں پروفیسر صاحب کہہ لیتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کو ہمیشہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ کھڑی کرنے اور بہاؤ کے مخالف نیا کھینے کا مرض تھا پر اس دن وہ خاموش بیٹھے یہ پدر شاہی فلسفہ سنتے رہے۔ وہ الگ بات تھی کہ ایک بیزاری ان کے ماتھے پر تحریر کی صورت پڑھی جا سکتی تھی۔ شاید بات اسی طرح سمٹ جاتی کہ ہمارے ایک نسبتاً مذہبی دوست کچھ زیادہ ہی جوش میں آ گئے اور عورت کی کمتری ثابت کرتے کرتے اس روایت پر جا پہنچے جس میں عورت کو یہ مژدہ سنایا گیا تھا کہ اگر وہ اپنے شوہر کے زخم سے رسنے والی پیپ اپنی زبان سے بھی چاٹ کر صاف کرے تو اس کا حق ادا نہیں کر سکتی۔ اونٹ کی کمر پر شاید یہ آخری تنکا تھا۔

پروفیسر صاحب کا رنگ ایک لمحے کے لیے متغیر ہوا پھر انہوں نے کرسی کا رخ موڑ کر مفتی صاحب کی طرف کیا اور منہ بھر کر ایسی گالی ان کی طرف اچھالی کہ سب کے کان سرخ ہو گئے۔

مفتیٔ وقت ابھی اس حملے سے سنبھل نہ پائے تھے کہ پروفیسر صاحب نے باقی توپوں کے دہانے بھی کھول دیے۔ جو انہوں نے کہا، اس کو من و عن اور مع مغلظات نقل کرنا ممکن نہیں پر اس کا مطلب کچھ یہ تھا کہ

”ابے گدھوں کے سردار، تجھ میں اور عورت میں فرق ہے کیا۔ ایک شرمگاہ کی شکل میں فرق ہے پر تو نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تناسل کا لقب صرف تیرے ساتھ ہی مخصوص ہو گا۔ ایک تیرے پٹھے زیادہ مضبوط ہیں، اس سے فائدہ بس یہ ہے کہ تو پتھر جلدی توڑ لے گا اگر دنیا میں بس یہی ایک کام بچ گیا تو اور تیسرا یہ کہ اس کے سر پستان کچھ نمایاں ہیں جن کے بغیر افزائش نسل ممکن نہ ہو اور تیرے سر پستان ہیں جن کا کوئی کام ہی نہیں۔ ویسے کبھی سوچا ہے یہ بھٹنیاں اور چوچیاں تیرے سینے پر ہیں کیوں۔ اس لیے ہیں کہ ماں کے بطن میں ہر نطفہ پہلے عورت ہی ہوتا ہے۔ سو تو بھی کبھی عورت تھا، بعد میں جب وائی کروموسوم کی وجہ سے مرد بن گیا تو ان کا کوئی کام نہیں رہ گیا۔ اسی طرح جیسے تیرے سر میں موجود بھوسے کا کوئی کام نہیں۔ اور یہ بتا اپنے باپ کی اولاد کہ اس میں تیرا کارنامہ کیا ہے کہ تجھے مرد ہونے پر فخر ہو یا تجھے تیری بہن اور بیوی پر فضیلت دے دی جائے۔ دیکھا جائے تو خراب النسل تو تو ہے جو پہلے عورت تھا پھر مرد بنا۔ عورت تو ہمیشہ سے عورت ہے۔ تین اور تیرہ کے بیچ تو تو معلق رہا ہے۔ “

”اور مجھے بتا کہ تیرا کمال ہے کیا۔ تو بند ڈھکن جلدی کھول لیتا ہے۔ کار کو جیک پر جلدی چڑھا لیتا ہے یا بھاگنے میں اپنے گھر کی عورتوں سے آگے نکل جاتا ہے۔ اس پر تجھے سردار بنا دیں۔ اور کائنات میں تخلیق کا جو سر چشمہ ہے، جو ایک پورا انسانی وجود تشکیل دیتی ہے جس میں تیرا حصہ ایک سپرم سے زیادہ نہیں۔ جو اسے جنم دیتی ہے، پالتی ہے، اسے اتنا بڑا کرتی ہے کہ ایک دن وہ اس پر ہاتھ اٹھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔“

”جو گھر بناتی ہے، اس کو سنوارتی ہے، جو خاندان کا نیوکلیس ہے، محبت کا بہتا دریا ہے، مسیحا ہے، تیماردار ہے، پالنہار ہے، اسے تیری رعایا بنا دیں۔ اسے تیری حاکم کیوں نہ بنائیں۔ تیری ساری زندگی کی مشقت اس کے نو ماہ کی تکلیف کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ اور اس تخلیق کی قیمت وہ ہر ماہ خون سے چکاتی ہے۔ اور تو اسے ناپاک کہہ کر آگے نکل جاتا ہے۔ صرف اپنے رگ پٹھوں کے زور پر صدیوں سے عورت کو دبا کر رکھنے کے بعد ، اسے موقعے نہ دینے کے بعد ، اس کی تعلیم پر پہرے لگانے کے بعد ، اسے گھر کی دیوار میں بننے کے بعد ، اس کے سودے کرنے کے بعد اب تو کہتا ہے کہ وہ ناقص العقل ہے، اس کا معیشت میں حصہ نہیں ہے، وہ کاروبار زندگی کو سنبھالنے کے لائق نہیں ہے۔ بس لائق ہے تو اس بات کے کہ تیرے زخموں کی پیپ چاٹے۔ ہت تیرے زخموں کی دم میں نمدہ“

کارپٹ بمباری ختم ہوئی تو پروفیسر صاحب نے کرسی سرکائی اور سب پر ایک قہر آلود نگاہ ڈال کر چلتے بنے۔ محفل ایک مرگ آسا خاموشی کے بعد برخواست ہو گئی۔ جاتے ہوئے مفتی صاحب نے کسی سے نظر نہیں ملائی۔

صنفی مساوات کی بحث بہت پرانی ہونے کے باوجود دنیا کے کسی بھی معاشرے میں کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔ مغرب کے اس حوالے سے بہت بہتر ٹریک ریکارڈ رکھنے والے معاشرے میں آج بھی گلاس سیلنگ موجود ہے۔ اور صنفی امتیاز کے خاتمے کا دعوی ابھی ہنوز دلی دور است ہی ہے۔ تاہم یہ مسئلہ پاکستان جیسے معاشروں میں سنگین تر ہو چکا ہے۔ سن 2020 میں شائع ہونے والی عالمی صنفی عدم مساوات رپورٹ میں 153 ممالک کا موازنہ ہے۔ اس میں پاکستان کا نمبر 151 ہے۔ ہمارا سابقہ مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے وہ 50 نمبر پر ہے۔ اس سے آپ ہماری زبوں حالی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اس پر مستزاد یہ کہ ہمارا معاشرتی ڈھانچہ اس حوالے سے گردن ریت میں ڈالے کھڑا ہے اور اس کو قابل غور مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ صنفی عدم مساوات کے حوالے سے ہماری معاشرتی، ثقافتی، معاشی اور مذہبی سوچ اب بھی شاید ساتویں صدی عیسوی سے مراجعت نہیں کر سکی۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس بات پر قائل نظر آتے ہیں کہ مرد بہرحال عورتوں سے برتر ہیں اور معاشرے میں مرد اور عورت کے مقام کا تعین اسی سوچ کے تحت ہو گا۔

صنفی مساوات ایک پیچیدہ موضوع ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ اور عمرانیات کی بہت سی پر پیچ پگڈنڈیوں پر صدیوں کا سفر کرنا پڑے گا۔ اس ضمن میں تین زاویے اہم ہیں۔ ایک وہ جس میں یہ طے کر لیا گیا ہے کہ عورت مرد کی دست نگر ہے اور مرد اس پر حکمران ہے، دوسرا یہ کہ عورت اور مرد کے لیے حیا، شرم، جنسی اختلاط، تعلقات یا رشتوں کے اصول مختلف ہیں اور تیسرا یہ کہ فطری طور پر عورت ایک کمزور اور ناقص العقل مخلوق ہے اس لیے کسی بھی میدان میں اس کا مردوں سے موازنہ ممکن نہیں۔

اکثر ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ پدرشاہی نظام کے تانے بانے زرعی نظام سے پھوٹے ہیں۔ زرعی انقلاب آج سے قریبا 12000 سال پہلے شروع ہوا۔ اس سے پہلے انسان چھوٹے چھوٹے گروہوں میں رہنے کا عادی تھا۔ یہ گروہ شکار کر کے اپنا پیٹ بھرتے تھے۔ چھوٹے گروہوں میں عورت کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ شادی کے ادارے کی گرچہ کوئی مخصوص معاشرتی حیثیت نہیں تھی لیکن جوڑا بننے کی صورت میں مرد عمومی طور پر عورت کے خاندان میں منتقل ہو جاتا تھا۔

اسے آپ آج کی گھر دامادی سمجھ لیجیے۔ اس وجہ سے یہ مرد پر منحصر تھا کہ اسے ایک گروہ سے دوسرے میں منتقل ہونے پر اپنے رشتے اور دوستیاں بنانی ہیں اور اس کے لیے اس کا انحصار عورت اور اس کے خاندان کی خوشنودی پر تھا۔ انگریزی میں اسے میٹری لوکل کہا جاتا ہے تاہم اردو میں اس کے لیے کوئی مناسب ترکیب ڈھونڈنے سے میں معذور ہوں۔

ایک میٹری لوکل معاشرے میں مادرسری نظام تشکیل پاتا تھا جس میں تخلیق سے متصف عورت مرکزی حیثیت اختیار کر لیتی تھی۔ شکار طاقت سے زیادہ مہارت کا کھیل تھا اس لیے مرد اور عورت میں قوت کی بنیاد پر تفریق کا تصور بہت کمزور تھا۔ ایسے تمام معاشروں میں مرد یا تو عورت کا دست نگر تھا یا اس کے برابر رتبہ رکھتا تھا۔

دس ہزار سال قبل مسیح میں زرعی معاشرے فروغ پائے جن میں انسان نے بڑے رقبوں پر کاشت کرنا سیکھ لیا اور زرعی پیداوار نے شکار کی جگہ لے لی۔ چھوٹے گروہوں کی جگہ بڑے قبائل نے لے لی۔ زراعت ایک مشقت طلب کام تھا جس میں مرد کی اضافی قوت عورت کے مقابلے میں زیادہ اہم ہوتی گئی۔ رفتہ رفتہ قبیلے کی مرکزی قیادت اسی بنا پر عورت سے مرد کو منتقل ہو گئی۔ اسی دوران میٹری لوکل معاشرت بھی ناپید ہوتی چلی گئی کیونکہ شکاری معاشرت کے مقابلے میں، جہاں مرد کا ایک گروہ سے دوسرے گروہ میں ہجرت کرنا ایک معمول تھا، زرعی معاشرت میں ایک جگہ پیر جمانا اہم ہو گیا۔ چونکہ زمین کا سینہ چیر کر فصل اگانا مرد پر منحصر تھا اس لیے رشتے کی بنیاد پر ہجرت کا بوجھ مرد کے بجائے عورت کے کاندھوں پر رکھ دیا گیا۔

بڑے قبائل بننے کا ایک اور نتیجہ یہ نکلا کہ ملکیت مستحکم کرنا اہم ہوتا چلا گیا۔ زمین کی اہمیت بڑھتی چلی گئی۔ جوع الارض یا زمین کی بھوک کا لامحالہ نتیجہ قبائل کی کشمکش، جھڑپوں اور جنگ میں بدلتا گیا۔ جنگ میں بھی طاقت اہم ترین تھی اس لیے مرد عورت کے مقابلے میں ایک فیصلہ کن برتری کا حامل ہوتا چلا گیا۔ رفتہ رفتہ ملکیت کا یہ تصور زمین اور اوزاروں سے بڑھ کر عورت تک منتقل ہو گیا اور عورت بھی مردانہ ملکیت سمجھی جانے لگی۔ جنگوں میں دوسرے قبائل کی ملکیت کی لوٹ کھسوٹ میں عورت بھی ایک جنس کی طرح شامل ہو گئی۔ عزت اور غیرت کے پیمانے اسی طرح عورت سے منسلک کر دیے گئے جیسا کہ وہ زمین سے تھے۔ عورتوں کا ریپ بھی اسی انسلاک کی وجہ سے جنگوں کا ایک لازمی جزو بنتا گیا تاکہ مخالف کو ہر طرح سے ہزیمت سے دوچار کیا جاسکے۔

میٹری لوکل معاشرے کے مکمل تغیر کے بعد اب یہ عورت کے لیے اہم تھا کہ اسے ایک نئے خاندان میں اپنی جگہ بنانی ہے جس کے لیے اس خاندان کے مرد کی خوشنودی ضروری تھی۔ گھر اور معاشرت کی سربراہی یوں عورت سے مرد کو منتقل ہو گئی۔ زرعی معاشرت اور معیشت جب چند سو سال پہلے صنعتی انقلاب سے دو چار ہوئی تو معاشرے نے ایک اور کروٹ لی لیکن اب بھی جسمانی طاقت اتنی ہی اہم تھی اس لیے پدر شاہی معاشرہ اپنی جگہ مستحکم رہا۔

انیسویں صدی کے اواخر تک پیدائش دولت کے چار بنیادی عوامل سرمایہ، زمین، محنت اور تنظیم معاشی ترقی کی بنیاد تھے، تاہم بیسیوں صدی میں ایک پانچویں عامل ٹیکنالوجی نے تیزی سے اپنی جگہ بنانی شروع کی اور اکیسویں صدی کے طلوع ہونے تک یہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ معاشی ترقی میں سب سے اہم عامل ٹیکنالوجی ہے۔ ٹیکنالوجی کی روز افزوں ترقی نے صنفی عدم مساوات کی کلاسیکی تعریف کو بھی بدل ڈالا۔ محنت ہمیشہ طاقت سے مشروط تھی اور زمین کے بغیر کاروبار کا تصور ممکن نہیں تھا۔ لیکن ٹیکنالوجی نے محنت کو دماغ اور ذہانت سے جوڑ دیا اور سائبر سپیس نے کاروبار کے لیے زمین یا فزیکل سپیس کا تصور نابود کر دیا۔

جنگ کے میدان میں تلواروں کی جگہ پہلے بندوق نے لے لی جس کا تعلق طاقت سے کم اور مہارت سے زیادہ تھا۔ ایک عورت اسی مہارت سے بندوق چلا سکتی ہے جیسا کہ مرد۔ لڑاکا جہاز اڑانے، آبدوز چلانے یا ٹینک دوڑانے کے لیے بھی مرد ہونا لازم نہیں ہے۔ اور تو اور سینکڑوں مردوں کا ایک لشکر ایک عورت ڈرون آپریٹر کی انگلی کے اشارے سے فنا ہو سکتا ہے۔

اکثر قدیم مذاہب میں جنت کی اکثر بشارتیں مردوں سے مخصوص رہیں۔ جنت کے انعامات میں خاص طور پر خوبصورت عورتوں کا ذکر ہوتا جو کہ مردوں کو عنایت کی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان مردوں کو جنت میں اعلی ترین درجے کی بشارت ملتی جو جنگ کے میدان میں قتل ہو جاتے۔ میری رائے میں اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جنگ طاقت کا کھیل تھا جس میں مردوں کی سرفروشی کی ضرورت تھی اور اس سے بھی بڑھ کر انہیں ایسے جنون میں مبتلا کرنا تھا کہ اپنی جان دینا ان کے لیے ایک نعمت سے کم نہ ہو۔ جنگ کے میدان میں یہی جنون فتح کی ضمانت بن جاتا جب سپاہی کسی حاکم یا کسی نظریے کی حفاظت کے لیے اپنی جان سوچے سمجھے بغیر داؤ پر لگا سکتے۔ حیرت انگیز طور پر جنت کی ان بشارتوں میں عورت کے لیے انعامات یا تو تھے ہی نہیں یا ان کا تعلق بھی مردوں کی اطاعت سے جوڑ دیا گیا تھا۔

ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ میدان جنگ میں صنفی عدم مساوات بہت تیزی سے کم ہو رہی ہے اسی لیے اس نئی دنیا میں جنت کی وہ بشارتیں جو صدیوں صرف مردوں کے لیے مخصوص رہیں، ان کی متجددین کو نئی تعریف وضع کرنی پڑ گئی۔

صنعتی میدان میں آٹو میشن اور روبوٹکس کے بعد اب شاذ ہی کوئی ترقی یافتہ صنعت ایسی باقی رہ گئی ہے جہاں مرد کو صرف اس وجہ سے عورت پر ترجیح دی جا سکے کہ اس کا جسم زیادہ طاقتور ہے۔ بعض صنعتوں میں گو اب بھی طاقت اہم ہے لیکن اس کا کردار اور اثر تیزی سے محدود ہوتا جا رہا ہے اور شاید اس صدی کے نصف تک یہ کردار بالکل ختم ہو جائے گا۔

مرد اور عورت کے کردار کے اسٹیریو ٹائپ صدیوں پرانے ہیں۔ محض ڈیڑھ سو سال پہلے مغربی معاشروں میں بھی عورت کا اعلی تعلیم حاصل کرنا معیوب خیال کیا جاتا تھا۔ صدیوں کے اس جبر کا یہ نتیجہ ہے کہ اگر آج صنفی امتیاز کو اگر بالکل ختم بھی کر دیا جائے تو اکثر میدانوں میں مہارت کے میدان میں بھی مرد عورتوں سے آگے نظر آئیں گے۔ اس کی وجہ عورتوں کی عدم استعداد نہیں بلکہ مواقع کی وہ کمی ہے جو کئی صدیوں سے موجود ہے۔ سینکڑوں سالوں کا یہ جبر ہماری ڈی این کوڈنگ کا حصہ بن گیا ہے اور اسے معدوم ہوتے ہوتے وقت لگے گا لیکن کسی کو اس میں شک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ معدوم ہو جائے گا۔

حالیہ برسوں میں اینگلا مرکل سے لے کر جیسنڈا آرڈن جیسی خواتین نے یہ ثابت کیا ہے کہ ملک و قوم کی رہنمائی وہ مردوں سے کہیں بہتر کر سکتی ہیں۔ امریکا جیسے قدامت پسندانہ معاشرے میں بھی ہلیری کلنٹن صدارتی دوڑ کا آخر تک حصہ رہیں۔ اب کملا ہیرس نائب صدر ہیں۔ کرسٹین لگارڈے آئی ایم ایف کے بعد اب یورپی مرکزی بینک کی سربراہ ہیں اور مالیات کے شعبے میں سب سے طاقتور نام ہیں۔ یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا لئین ایک خاتون ہیں۔

امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی ہیں۔ بھاویا لال ناسا کی چیف آف سٹاف ابھی حال ہی میں بنی ہیں۔ لاک ہیڈ مارٹن اور جنرل موٹرز جیسی کمپنیوں کی سربراہ خواتین ہیں۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جس میں خواتین آج ان عہدوں پر متمکن ہیں اور وہ کردار نبھا رہی ہیں جس کا محض ایک صدی پہلے تصور بھی محال تھا۔

پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں بھی آپ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نتیجے پر نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ اب سے نہیں بلکہ کئی برسوں سے لڑکیاں لڑکوں کو تعلیمی میدان میں پچھاڑ رہی ہیں اس کے باوجود وہ ہماری گھٹی ہوئی سوچ، ثقافتی گھٹن اور مذہبی جبر کی وجہ سے معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ ڈاکٹر بننے والی کتنی ہی خواتین شادی کے بعد ہاؤس وائف بننے پر مجبور ہوتی ہیں کیونکہ ایک مرد ڈاکٹر کے برعکس ان کا پہلا فریضہ گھر کا باورچی خانے سنبھالنا اور سسرال کی خدمت کرنا ہے۔

شہر سے باہر علاقوں میں نہ تحفظ میسر ہے نہ ہی بنیادی سہولیات۔ مرد کو کام کرنے کے لیے اور عورت کو کام نہ کرنے کے لیے تعریف کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ مردوں کی کرکٹ ٹیم کو اس وقت برا بھلا کہا جاتا ہے جب وہ ہارتے ہیں اور عورتوں کی کرکٹ ٹیم کو صرف اس لیے مغلظات بکی جاتی ہیں کہ وہ کھیل کیوں رہی ہیں۔ اس سب کے باوجود آہستہ آہستہ سہی، لیکن سٹیریو ٹائپ بہرحال ٹوٹ رہے ہیں۔ یہ سمجھنا کوئی خاص دشوار نہیں کہ عورت قدرتی طور پر مرد کی ہر گز دست نگر نہیں ہے۔

یہ صرف اس کے لیے مردوں کا تخلیق کیا گیا وہ سانچہ ہے جس میں اسے طاقت کے زور پر یہ بات ماننے پر مجبور کیا گیا ہے۔ آپ خود سوچئے کہ کیا اس بنا پر انسانوں میں تفریق کرنا عقلمندی ہے کہ کون کم وقت میں زیادہ پتھر توڑ سکتا ہے یا اس بنا پر کہ کون زیادہ ذمہ دار، عقلمند اور ذہین ہے۔ جواب زیادہ مشکل نہیں ہے اگر آپ کے کاسہ سر میں دماغ نامی کوئی مادہ موجود ہے۔ اور اگر اس جواب در جواب میں آپ کا یہ خیال ہے کہ مرد زیادہ ذمہ دار، عقل مند اور ذہین ہے تو کچھ صدیاں نہیں، بس کچھ دہائیاں عورتوں اور مردوں کو برابر کے مواقع دیجیے پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments