ہرنوں کی بے اعتمادی اور مگرمچھ


پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ایک ہرن تالاب کے کنارے دوسرے ہرن کو بتا رہا ہوتا ہے کہ مگرمچھ ہمارے بہت قریب پانی میں چھپا ہوا ہے۔ دوسرا ہرن مگرمچھ کی پیٹھ کو پتھر گمان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ مگرمچھ نہیں بلکہ پتھر ہے۔ پہلا ہرن پھر کوشش کرتا ہے مگر دوسرا ہرن بات نہیں مانتا۔ یہاں تک کہ پہلا ہرن مگرمچھ کے اوپر چھلانگ لگا کر اس کی پیٹھ پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ مگرمچھ فوراً سے اس کو جھپٹ لیتا ہے۔

اس طرح پہلے ہرن کو جان سے جانا پڑا تو دوسرے کو یقین آیا۔ اتنی دیر میں تیسرا ہرن وہاں آ جاتا ہے۔ دوسرا ہرن اس کو بتاتا ہے کہ سامنے مگرمچھ ہے۔ مگر وہ بھی یہ نہیں مانتا، اس طرح اب دوسرا ہرن بھی تیسرے کو یقین دلانے کے لئے مگرمچھ پر چھلانگ لگا دیتا ہے اور جان سے جاتا ہے۔ اسی طرح ایک ایک کر کے ہرن آتے رہے اور ایک ایک کر کے جان گنواتے رہے۔

آئیں اس کہانی سے کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ ہر مرتبہ ایک ہی واقعہ دہرایا جاتا رہا۔ دوسرے ہرن نے یہ غلطی کی کہ جب اس نے دیکھ لیا تھا کہ پہلے ہرن نے کیسے اپنی جان گنوائی تو اس نے وہی کام کیوں کیا؟ یہ غلطی قابل قبول اس لیے نہیں کہ اس غلطی نے ہرنوں کا مکمل گروہ تباہ کر دیا۔ جو ایک بچ گیا وہ چلا گیا ہو گا کسی شیر کے پیٹ میں۔تو معلوم یہ ہوا کہ وہ واقعات جو ہو چکے ہوں ان سے سبق سیکھنا چاہیے اور ان سے آگے قدم اٹھانا چاہیے۔

ہم قوم کے طور پر اس لیے پیچھے رہ گئے کیونکہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم 1947 سے لے کر آج تک ایک دائرے میں بند ہیں اور وہی دھوکے کھاتے آ رہے ہیں جو ہمارے بزرگوں نے کھائے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ آنے والی نسل بھی یہی سب دھوکے کھائے گی۔

سیاست لے لیں، پچھلے ستر سال سے ساری غلطیاں پچھلی حکومتیں کر رہی ہیں۔ کبھی موجودہ حکومت کچھ نہیں کرتی۔ مطلب کچھ غلط نہیں کرتی۔ آمریت فخریہ آ کر چلی جاتی ہے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اشرافیہ کا پیٹ بھرتا جا رہا ہے۔ عوام مگر مچھوں سے دوسروں کو بچانے کے لئے جان دے رہے ہیں اور ہرنوں کی طرح قربان ہو رہے ہیں۔

ہماری تاریخ میں اس بات کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے کہ کہیں کسی کو اصل تاریخ کا پتہ نہ چل جائے۔  درست تاریخ سے آگہی غداری کے زمرے میں آتی ہے۔ چنانچہ ہم ایسے اشخاص کو تاریخی طور پر گالی گلوچ بھی دے سکتے ہیں جو تاریخ کے ساتھ انصاف کریں۔ ہر ملک میں کچھ ادارے یا لوگ ناکامی کا شکار ہوتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی کچھ ناکامیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ناکامیوں کے باوجود بہت سی قومیں ترقی کر رہی ہیں، مگر ہم کیوں نہیں؟ کیونکہ ہمارے ہاں تاریخ ناکام ہے۔ جن قوموں کی تاریخ ناکام ہو ان کو مگرمچھ با آسانی کھا جاتے ہیں۔ بلکہ یوں سمجھیے کہ وہ اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کے لیے مگرمچھ کے اوپر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

ڈر اور خوف کا ایک بڑا حل یہ ہوتا ہے کہ اس کا تجربہ کر لیا جائے۔ مثلاً پانی سے اس وقت تک خوف آتا ہے جب تک تیراکی نہ آتی ہو۔ تیراکی آتی ہو تو خوف کیسا؟ لیکن تیراکی آنے کے لیے ایک بار پانی میں اترنے کے خوف سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو ایک مرتبہ درست تاریخ سے آگہی کے خوف سے گزرنا ہو گا۔ اس سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ درست تاریخ خود ہی یہ سبق سکھا دے گی کہ ماضی کی غلطیاں صرف سیکھنے کے لیے ہیں، الزام تراشی کے لیے نہیں،  ان سے سیکھو اور آگے بڑھو۔ اگر ہماری تاریخ ناکام رہ گئی اور سامنے نہ آ سکی تو ہم الزام تراشی، صوبائی نفرتوں، دوریوں اور منفی سوچوں میں ترقی دیکھیں گے جو کسی بھی قوم کی پستی کی علامت ہیں۔

رہی بات مگر مچھوں کی تو انہیں ایک بات جان لینی چاہیے اگر سارے ہرن کھا جاؤ گے تو ایک دن تم بھی بھوک سے مر جاؤ گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments