مرشد! وہ یاروں کا یار تھا


فون کی گھنٹی کے ساتھ ہی شہزاد ہاشمی کا نام اسکرین پہ جگمگانے لگا۔ سلام و تسلیمات کے تکلفات کو بالکل بالائے طاق رکھتا ہوا اپنے مخصوص انداز تخاطب میں مخاطب ہوا۔ مرشد! حمید خان ہمیں چھوڑ گیا۔

سنتے ہی دل اچھل کے حلق میں دھڑکنے لگا۔ بے یقینیوں کے سمندر میں چھلانگ لگانے کی کوشش کو یقین نے ایسے پکڑ لیا جیسے گرتے بچے کو لپک کے ماں تھام لیتی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا۔ مرشد! حمید خان کے سارے یار ایک دوسرے کے گلے لگ لگ کے دھاڑیں مار رہے تھے۔ اور جب جنازہ اٹھا تو منہ چھپا چھپا کے روتی کراہتی سسکاریاں بھی چیخ اٹھیں۔ مرشد! کل ہی تو اس سے مل کے آیا تھا۔ اس نے تو کچھ ایسا نہیں کہا تھا کہ لمبی تان کے سونے والا ہے۔

ان کے بیٹوں کو اور بالخصوص چھوٹے کو تو شاید یتیمی کا مطلب بھی نہ پتہ ہو۔ آہوں کی بھٹی سے دہکتے الفاظ احساس کے دامن پہ انگاروں کی طرح گر رہے تھے۔ کبھی وفور غم سے اس کی آواز رندھ جاتی تو کبھی فرط جذبات میں یادوں کی وادیوں میں حمید خان کو آوازیں دینے لگتا۔ وہ کہتا جا رہا تھا۔ مرشد! وہ یاروں کا یار تھا۔ آپ کو پتہ ہے اس نے ایک بالشت تک جائیداد نہیں بنائی۔ یار کیا بے چین روح تھی اس کے اندر۔ جو کبھی سکون بھی پاتی تھی تو کسی تہی دست دوست کی آبرو مندانہ مدد کر کے۔

یار! میں کسی کو اس طرح کام نہیں کہہ سکتا جیسے اسے کہہ دیتا تھا۔ وہ یاروں کا مان تھا۔ اس نے کبھی کسی کا مان نہیں توڑا۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب بے روزگاری کے دنوں میں جاب کی دعا مانگنے کے لیے بری سرکار کی چلہ گاہ تک پہنچنے کے لیے پہاڑ پر چڑھا تو نوکیلے پتھروں نے مجھ گنہگار کی جسارت کی پاداش میں میرے جوتوں کے تلوے چیر ڈالے تھے۔ اور جیسے ہی میں ننگے پاؤں حمید خان کے گھر پہنچا تو تحفے میں اسی دن آئے نئے جوتے مجھے پہنا کر ایسے خوش ہو رہا تھا جیسے بچے حسرت پوری ہونے پہ اظہار مسرت کرتے ہیں۔

شدت دکھ سے کبھی اس کی آواز دب جاتی تو کبھی ٹوٹ کے فرش پہ گرتی بکھرتی چوڑی کی طرح کھنکنے لگتی دلاسا دینے والے سارے الفاظ حافظے کے خانوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کے کہہ ڈالے۔ تجھے یاد ہے ناں!  پہلی ملاقات میں وہ تیرا بھی تو یار بن گیا تھا ناں۔ کال بند ہو گئی اور مجھے ایسے لگا جیسے وہ سارے درد، وہ سارے کرب، میری سماعتوں کے راستے میری رگ و جان میں پیوست ہو چکے ہوں۔ پہلو بدل بدل کے نیندوں کے دیس جانے کی ساری کوششوں کا مقدر کروٹیں ہی ٹھہریں۔

کبھی ہاشمی کے الفاظ کانوں کے بیچ گنبد میں گونجنے لگتے تو کبھی آنکھوں پہ گری پلکوں کی چلمن پہ حمید خان کی بولتی تصویر دانش کے موتی بکھیرنے لگتی۔ تاریخ کے واقعات ایسے ایسے سناتا تھا جیسے سننے والے کے حافظے کی سبیلوں پہ سانب سانب کے رکھ رہا ہو۔ کبھی دور حاضر کی گتھیوں کو استعاروں و مثالوں سے سلجھانے لگتا تھا۔ انہیں یادوں کی بارات میں صبح کے چار بج گئے۔ ابھی تک یقین و بے یقینی اس خبر پہ گتھم گتھا تھے۔ تو حقیر راقم خالق حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گیا اور اپنے دوست کے بخشش و مغفرت کے لیے دعا کرتا بالآخر زبان سے مرحوم حمید خان ادا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

پشتون قبیلے کی شاخ محسود صدیوں سے روایات کی پاسداری کرتی چلی آ رہی ہے۔ جدا پہچان کو سنبھال سنبھال رکھتے قبیلے کے مرد بال لمبے رکھتے ہیں۔ معروف مؤرخ فرے لکھتا ہے کہ زمانہ قدیم میں لمبے بال رکھنا بادشاہوں کی علامات میں سے تھا۔ بادشاہ اپنے بدن سے جڑی کوئی چیز جدا نہ کرتا تھا کیونکہ یہ عقیدہ عام تھا کہ جسم سے الگ ہونے والی چیزوں پر جادو کرنا آسان تھا۔ چنانچہ فرنیک بادشاہ حجامت نہیں بنواتے تھے۔ یہ رسم منگولوں میں بھی رائج تھی۔

کہتے ہیں کہ سرزمین ہندوستان پر قابض انگریز کے خلاف اس کی آمد سے لے کر پاکستان کے وجود تک مزاحمت کاری محسود قبیلے نے جاری رکھی۔ اٹھارہ سو پچاس عیسوی میں مذکورہ قبیلے کے محض تین سو جوانوں نے انگریزی فوج کے تین ہزار سپاہیوں کو وادی وزیرستان میں شکست فاش دی۔ جنگ عظیم چھڑ جانے پر انگریز کی طرف سے بڑھایا گیا دوستی کا ہاتھ پچھاڑتے محسودوں کے لیے ہی برصغیر میں انگریز کو ایئر فورس قائم کرنا پڑی۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے بھی اپنے شعری مجموعے ضرب کلیم میں ایک نظم میں محسودوں کی بہادری کو منظوم کیا ہے۔

سنگلاخ چٹانوں سے رشتے نبھاتے اسی قبیلے میں آنکھ کھولنے والے حمید خان نے تعلیمی سفر کا آغاز ٹانک سے کیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے گریجویشن کے بعد سیاسیات میں ماسٹر کرنے گورنمنٹ کالج لاہور جیسی عظیم درسگاہ کا انتخاب کیا۔ سی ایس ایس کامن پچیس ان لینڈ ریونیو سروسز میں کامیابی سے ہمکنار ہونے پر سندھ میں انکم ٹیکس کے شعبے میں بطور اسسٹنٹ کمشنر عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ادبی ذوق کے جذبے کی جب ملازمت کے شعبے کے مزاج سے مڈبھیڑ ہونے لگی تو طویل رخصت لے کر ادبی دوستوں کو اکٹھا کرنے کی غرض انہیں پشاور لے گئی۔جہاں دوستوں کے تعاون سے ٹرائبز یونین آف جرنلسٹس کے قیام میں اہم کردار ادا کیا اور ’کاروان قبائل‘ اخبار کے نائب مدیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔

معاشی و معاشرتی ضروریات پھر انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ لے آئیں ، فرائض منصبی کی ادائیگی میں ایسے جٹ گئے کہ ارتقائی منزلیں سمٹتی چلی گئیں۔ ابھی بطور کمشنر ایف بی آر اسلام آباد میں دفتری ذمہ داریوں سے نبرد آزما تھے۔ تین فروری بروز بدھ صبح ناشتے کی میز پر بچوں کے ساتھ بچوں کی طرح چہلیں کرتا اللہ جانے کس قدر خوش نظر آ رہا تھا۔ ادھر دن چڑھا اور دفتر جانے کا ارادہ فون کی گھنٹی پر ٹھٹک گیا۔ سر! عمران بات کر رہا ہوں آج آپ آفس نہیں آئیں گے کیا؟ عمران کل رات سے تھوڑی سی طبیعت میں ناخوشگواری محسوس کر رہا ہوں۔ سر! میں آ جاؤں۔ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں، نہیں نہیں ، اتنی بات بھی نہیں۔

شریک حیات کی جانب مسکراہٹ اچھالتا سٹڈی روم کی طرف چل دیا۔ آدھے گھنٹے بعد بیوی چائے لیے داخل ہوئی تو کیا دیکھتی ہے کہ ٹیبل پہ کہنیاں ٹکائے ہاتھوں کے صحنک پر سر رکھے چپکے سے شراکتوں کے مضبوط بندھنوں سے آزاد ہو چکا تھا۔

بس ذرا سا مسکرائے اور اٹھ کے چل دیے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments