سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت: ’سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بھی متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا‘


سپریم کورٹ

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات اوپن رائے شماری سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سینیٹ کے سابق چیئرمین سینیٹر رضا ربانی نے جمعے کے روز دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس صدارتی ریفرنس میں صدر مملکت نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت رائے مانگی ہے، جبکہ حکومت کی طرف سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت سن رہی ہے جو کہ از خود نوٹس یعنی سو موٹو سے متعلق ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے کہا کہ صدر نے تو اپنے ریفرنس میں صرف یہ پوچھا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں خفیہ ووٹنگ کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں اپنے دلائل کا آغاز اس پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس ’اعجاز الحسن‘ کے ان ریمارکس سے کروں گا جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ اگر سیاسی جماعتوں کو ان کی سیٹوں کے حساب سے نمائندگی نہ ملی تو سسٹم رک جائے گا۔‘

تاہم سینیٹر رضا ربانی کی طرف سے غلط نام لینا شاید مذکورہ جج کو ناگوار گزرا اور اُنھوں نے رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘میرا نام اعجاز الحسن نہیں بلکہ اعجاز الااحسن ہے۔‘

اس کے بعد انھوں نے انگریزی کے وہ حروف بھی بتائے جو ان کے نام میں استعمال ہوتے ہیں۔

سینیٹ کے سابق چیئرمین نے اس پر اپنی غلطی کی تصیح کی۔

یہ بھی پڑھیے

اوپن بیلٹنگ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوگی یا نہیں، کچھ نہیں کہہ سکتے: چیف جسٹس گلزار احمد

سپریم کورٹ: ’ایسا لگتا ہے کہ صدارتی آرڈیننس مفروضوں کی بنیاد پر جاری کیا گیا‘

سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹنگ کا معاملہ: ’نوٹوں سے بھرے بیگ اسلام آباد پہنچ چکے ہیں‘

پاکستان

رضا ربانی نے کہا کہ عام طور پر رکن پارلیمان کو سنجیدہ وکیل نہیں سمجھا جاتا جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ سنہ 1994 سے سینیٹ کے رکن چلے آ رہے ہیں وہ ایک سینیٹر اور سنجیدہ وکیل بھی ہیں۔‘

رضا ربانی اپنے دلائل میں کہا کہ سینیٹ کے قیام کا مقصد تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہے۔ اُنھوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ جو خود کو الگ سمجھتے تھے انھیں نمائندگی دینے کے لیے سینیٹ قائم ہوئی اور سینیٹ کو تخلیق کرنے کا بنیادی مقصد وفاقیت ہے جس کا مقصد گھٹن کے ماحول کو ختم کرکے متناسب نمائندگی دینا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی عوام اور سینیٹ کی وفاقی اکائیوں کی نمائندہ ہے۔

رضا ربانی نے پانچ رکنی لارجر بینچ کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ سینیٹ کی تشکیل اور مقصد کو سامنے رکھیں۔ رضا ربانی نے مزید کہا کہ پارلیمانی نظام میں دونوں ایوان کبھی اتفاق رائے سے نہیں چلتے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل کا کہنا تھا کہ لازمی نہیں کہ وفاق میں حکومت بنانے والی جماعت کی صوبے میں بھی اکثریت ہو۔

اُنھوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے بھی سینیٹ میں نشستوں کا تناسب بدل سکتا ہے، جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بھی متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا۔

بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر کسی جماعت نے اتحاد کرنا ہے تو کھلے عام کرے،‘ جس پر رضا ربانی نے کہا کہ ’اتحاد کھلے عام ہی ہوتا ہے لیکن ووٹ دینے کے معاملے کو اوپن نہیں کیا جا سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ضروری نہیں کہ حکمران جماعت کی صوبے میں بھی حکومت ہو۔ جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیے کہ ہر سیاسی جماعت کی عددی تعداد کے مطابق سینیٹ میں نمائندگی ہونی چاہیے۔

اُنھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل سے استفسار کیا کہ ووٹ کو خفیہ رکھنے کے پیچھے کیا منطق تھی، جس پر رضا ربانی نے جواب دیا کہ شاید ووٹ کو خفیہ اس وجہ سے رکھا گیا کہ کسی سیاسی جماعت کا صحیح تناسب نہ آ سکے۔

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں نمائندگی صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے تناسب سے ہوتی ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ ’بنچ کو متناسب نمائندگی سے متعلق بتائیں۔‘ جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیے کہ ’متناسب نمائندگی کا لفظ آرٹیکل 59 اور 51 میں موجود ہے۔‘

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی متناسب نمائندگی قانون سازوں کے ذہن میں تھی۔ انھوں نے کہا کہ متناسب نمائندگی کے نظام کے نیچے بھی تین مختلف نظام موجود ہیں، اور ہر آرٹیکل میں الگ نظام سے متعلق بتایا گیا ہے۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیے کہ نظام جو بھی اپنایا جائے، سینیٹ میں صوبائی اسمبلیوں میں موجود جماعتوں کی نمائندگی ہونی چاہیے۔

رضا ربانی نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر اس اصول پر سختی سے عمل کرنا ہے تو پھر پارٹی لسٹ ہونی چاہیے تھی۔ رضا ربانی نے کہا کہ پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) اتحادی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف اپنے چار یا پانچ سینیٹر میں سے ایک سینیٹر کی نشت ق لیگ کو دے رہی۔

پاکستان کا پارلیمان

رضا ربانی نے سوال اٹھایا کہ کیا تحریک انصاف کے ایک سینیٹر کم ہونے سے متناسب نمائندگی کی عکاسی ہو گی؟ اس پر بینچ میں موجود جسٹس عمر عطا بندیال نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’تحریک انصاف اور ق لیگ کا پنجاب میں ابھرتا ہوا اتحاد ہے تاہم وہ اس پر مزید بات نہیں کر سکتے۔‘

رضا ربانی نے اپنے دلائل میں کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے بھی سینٹ میں نشستوں کا تناسب بدل سکتا ہے جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بھی متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا۔

رضا ربانی نے کہا کہ ’متناسب نمائندگی کی جو تشریح عدالت کر رہی ہے، وہ آئیڈیل حالات والی ہے اور سیاسی معاملات کبھی بھی آئیڈیل نہیں ہوتے۔‘

وقت کی کمی کی وجہ سے رضا ربانی اپنے دلائل مکمل نہ کر سکے اور وہ پیر کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز بھی عدالتی کارروائی کو دیکھنے کے لیے کمرہ عدالت میں موجود تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp