ہم جہالت کی ذلت سے کب نکلیں گے؟


بھلے ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور سائنسی ایجادات کی بنیاد پر اس کو ترقی یافتہ دور کہہ سکتے ہیں لیکن ہمارے طرز زندگی، مذہبی عقائد، سوچ، رہن سہن اور اخلاقی گراوٹ کو مدنظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ دور جہالت سے مشابہہ ہے۔ دور جہالت میں لوگ جن گناہوں میں مبتلا تھے ، ہم بھی ان گناہوں میں ملوث ہیں۔ ہم ویسی ہی زندگی گزار رہے ہیں جیسی زندگی کی عکاسی ظہور اسلام سے قبل راویان نے تواریخ میں کی ہے۔

ہمارے طور طریقے، رسم و رواج، کھانا پینا، ، گفتگو، لین دین، کاروبار، رویہ اور چال چلن سب مل کر گواہی دے رہے ہیں کہ ہم ایام جاہلیت کے طرز پر ہی گزر بسر کر رہے ہیں۔ دور جہالت میں بت پرستی علانیہ ہوتی تھی۔ خانہ کعبہ کی چھت پر ہبل نامی بت رکھا گیا تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی۔ ہم خفیہ بتوں کو پوج رہے ہیں۔ ہم نے دلوں میں ایمان و یقین کے بجائے مطلب پرستی، خود غرضی اور نفع یابی کے بت بنائے ہوئے ہیں جن کو ہم پوجتے ہیں۔

ہم نے ہر اس شخص کو آقا اور مشکل کشا مان لیا ہے جس سے ہمیں فائدہ پہنچ رہا ہے اور ہماری غرض پوری ہو رہی ہے۔ دور جہالت میں لوگ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے اور ہر قبیلے کا اپنا الگ بت تھا جس کی وہ پرستش کرتا تھا۔ کوئی یغوث کی پوجا کرتا تھا تو کوئی یعوق، نائلہ اور نسر جیسے بتوں کی پرستش کرتا تھا ۔ غرض ہر قبیلے کا ایک مخصوص بت تھا۔ ان بتوں کو پوجنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ بت بارگاہِ الٰہی میں ان کی سفارش کریں گے۔

ہم قبیلوں کے بجائے فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر فرقے سے وابستہ لوگ خود کو ہی جنت کا حق دار مانتے ہیں۔ اپنے فائدے اور مطلب کے لیے ہم نے سفارش، رشوت، توسل اور مال و زر کے بت بنا رکھے ہیں اور ان کی اطاعت کر رہے ہیں۔

دور جہالت کی طرح ہمارے معاشرے میں الگ الگ خداؤں کا تصور، جھوٹ کی بہتات، گفتار اور کردار میں تفاوت، دھوکہ دہی اور فریب کاری، بچیوں کو مادر شکم میں مارنا جیسی برائیاں نظر آتی ہیں۔ ہم زنا میں مبتلا ہیں اور ستم یہ ہے کہ اس کو گناہ تصور نہیں کرتے۔ ہم نامحرم کے سامنے ہرہنہ اور محرم سے پردہ کرتے ہیں۔ مے نوشی میں ہم شوقیہ مبتلا ہیں اور شوق سے اس کا کاروبار بھی کر رہے ہیں، پی بھی رہے ہیں اور پلا بھی رہے ہیں۔

ہمیں سادہ طرز زندگی اختیار کرنے کا حکم ہوا تھا، ہم فیشن پرستی اور نمود و نمائش کے شکار ہیں۔ ہم رو گرداں ہو کر ان تمام احکامات الہی کے منکر ہو گئے ہیں جن کی پیروی کر کے ہم دنیا میں کامیاب اور آخرت میں کامران ہوتے۔ ہم نے دنیا کو چن لیا ہے اور آخرت کو بھول بیٹھے ہیں۔ ہم دنیا کو سنوارنے میں لگے ہیں، آخرت کی فکر اور مرنے کے بعد کی دنیا ہمیں یاد ہی نہیں ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم نے بھی اپنی طرف بھیجے ہوئے پیغمبر کی باتوں کو نہ مانا، جن چیزوں سے باز رہنے کا حکم ہوا ان سے باز نہ رہے، جن کاموں کے کرنے کا حکم ہوا وہ نہ کیے ، مرسل کے خلاف ہوئے اور احکامات کی پاسداری نہ کی، کہی ہوئی باتوں پر عمل نہ کیا بلکہ انہیں جھٹلایا ، اس قوم پر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے اور وہ قوم ہلاک ہو کر نیست و نابود ہو جاتی ہے۔

ہم نے ہر سنت کو معمولی سمجھا، ہر حکم کو رسمی جانا، ہمیں جن چیزوں سے منع کیا گیا تھا ہم ان میں مبتلا و ملوث ہیں۔ سود کو حرام قرار دیا گیا اور ہمیں یہ تلقین کی گئی تھی کہ حتی الامکان اس سے بچنا ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ جو سود کھائے گا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے گا۔ ہمیں مردہ گوشت کھانے کا چسکا لگ چکا ہے اور اس میں لذت آ رہی ہے۔

کون سا عیب ہے جو ہم میں نہیں۔ جھوٹ، دغا بازی، چغل خوری، وعدہ خلافی، بدزبانی، گالی گلوچ، دوسروں کے لیے سبب سہولت بننے کے بجائے باعث اذیت بننا، حق تلفی کرنا، خود پر اور دوسروں پر ظلم کرنا ، غرض ہم ہر اس برائی میں مبتلا ہیں جس میں وہ لوگ تھے جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔ اگر ہم اب بھی ہوش میں نہ آئے تو وہ دن دور نہیں جب ہم مضبوط گرفت میں ہوں گے۔

اللہ ہم سب کو توفیق دے اور نیک راستے کا مسافر بنائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments