مادری زبانیں اور ان کا قتل عام


21 فروری کو پوری دنیا میں۔ ”ماں بولی کے دن“ کے طور پر منایا جاتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اقوام عالم نے مادری زبان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے نہ صرف عالمی حیثیت دی ہے بلکہ مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت بھی تسلیم کی ہے ، اس حوالے سے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن میں تقاریر، سیمینار، جلسے اور جلوسوں کے علاوہ علم و ادب کے بڑے بڑے جغادری فلاسفر ’من ترا حاجی بگویم و تو مرا حاجی بگو‘ کے مصداق ایک دوسرے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے کے علاوہ کوئی عملی کام سر انجام نہیں دیتے۔

زبان نہ صرف احساس و جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ اقوام کی شناخت ہے۔ زبان ایک ایسا معاشرتی ورثہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔ انسان یادداشت کھو سکتا ہے لیکن اپنی زبان کو نہیں بھول سکتا ، اسی لئے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے کے مشمولات کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت کی قراردادوں کی صورت میں اس حق کی ضمانت دی گئی ہے۔

یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ بچہ جیسے ہی اس دنیا میں آتا ہے تو زبان سے اس کا پہلا تعارف اس کی ماں کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کے ذریعے ہوتا ہے یہی نہیں بلکہ بچہ اپنا پہلا لفظ بھی ماں کے منہ اور زبان کی حرکت کو سمجھ کر ادا کرتا ہے جیسا کہ ماما، بابا، دادا، ابو جیسے الفاظ وہ اپنی ماں کی گود میں ہی سیکھ جاتا ہے۔ جیسے ہی بچہ تھوڑا سا بڑا ہوتا ہے اور ماں کی آغوش سے نکل کر پاؤں پاؤں چلنا شروع کرتا ہے تو وہ ماں کے دودھ اور اس کی گود سے بے نیاز تو ہو جاتا ہے لیکن ابتدائی ابلاغ اور اپنی ضرورت کے بیان کے لیے اس کا ذریعۂ اظہار ماں سے سیکھے گئے وہی چند الفاظ ہوتے ہیں جن کو ادا کرتے ہی اس کی ضروریات پوری کر دی جاتی تھیں۔

ماں کی گود میں سیکھی گئی زبان چاہے کہانی کی صورت میں ہو یا لوریوں کی صورت میں اس کو نہ صرف آسانی سے سمجھ آتی ہے بلکہ اس کی یادداشت سے کبھی بھی محو نہیں ہوتی۔ اس لیے زبان و ادب میں ماں کی گود میں سیکھی گئی زبان کے لئے ہم ”مادری زبان“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔

دنیا میں اس وقت 7000 کے لگ بھگ زبانیں ایسی ہیں جن کو ہم مادری زبانیں کہہ سکتے ہیں۔ ان مادری زبانوں میں سے کم از کم 40 فیصد معدوم ہو چکی ہیں اور بقیہ بھی انتہائی تیزی سے زوال پذیر ہیں۔ معروف زبان دان پیٹر ملہو سیلر نے آج سے کم و بیش پندرہ سال پہلے ایک انٹرویو میں ایک دعویٰ کیا تھا کہ جتنی تیزی سے زبانیں ناپید ہو رہی ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئیں، آئندہ سو برس کے دوران دنیا بھر سے 90 فیصد زبانیں ختم ہو جائیں گی۔

لسانی تنوع کے لحاظ سے پاکستان ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں اس وقت 74 کے لگ بھگ زبانیں بولی جاتیں جن کا منبع انڈو۔ ایرانین زبان ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی حکومت ایسے کون سے اقدامات کرے جن کی بنا پر ہمارے ملک میں بولی جانے والی تمام مقامی زبانیں نہ صرف ترقی کریں بلکہ معدومیت جیسے اہم بحران سے بھی بچ سکیں؟

زبان کوئی بھی ہو لیکن زندہ صرف اس وقت رہتی ہے جب لوگوں کے مابین نہ صرف ابلاغ کا ذریعہ ہو بلکہ کتابوں میں بھی زندہ رہے۔ کوئی بھی مقامی زبان نہ صرف ابلاغ کا ذریعہ ہوتی ہے بلکہ اس علاقے کی ثقافت کو اجاگر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے ، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تمام مقامی زبانوں کی جغرافیائی حد بندی کرنے کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں ایسی تنظیمیں اور دفاتر قائم کرے جو مقامی سطح پر نہ صرف مادری زبان کو بذریعہ نشر و اشاعت ترویج دیں بلکہ مختلف قسم کی ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے مادری زبانوں کے احیاء کے لئے کو شش کی جائے۔ اگر ممکن ہو تو پاکستانی میں بولی جانے والی تمام مقامی زبانوں کے لئے الگ الگ ٹیلی ویژن چینل قائم کیے جائے اور ایسے چینلز کے لئے نجی کمپنیوں کو پیمرا لائسنس جاری کرے تاکہ مسابقت کی فضاء پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں کو بین الاقوامی پذیرائی بھی حاصل ہو سکے۔

پوری دنیا کے ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صرف ماں بولی میں تعلیم کے ذریعے ہی بچے کی ذہنی نشوونما کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ طالب علم کی تخلیقی صلاحیت کی نمو اور نشوونما ماں بولی سے ہی ہوتی ہے، دوسری کسی بھی زبان میں اگر اسے سمجھایا یا پڑھایا جائے تو طالب علم کو اپنی یادداشت میں اس اصطلاح کو محفوظ کرنے میں مشکل درپیش ہو گی۔

ایک لمحے کے لئے خود کو طالب علم تصور کر لیں اور اپنی یادداشت کے گھوڑے دوڑائیں کہ ہمیں کسی بدیسی زبان کے اسباق کو یاد کرنے، اسے لکھنے اور کسی دوسرے فرد کو سمجھا نے میں کتنی مشکل درپیش ہوتی تھی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میٹرک اور ایف اے میں سب سے زیادہ طلبا انگریزی کے مضمون میں فیل ہوتے تھے، جو اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ معاشرے پر مسلط شدہ زبانیں ہماری نسل کو کند ذہن بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، پوٹھوہاری، ہندکو، کشمیری اور براہوی کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ بچے کو کم از کم ابتدائی تعلیم اس کی اپنی ماں بولی میں پڑھنے کا حق ملنا چاہیے۔

طبقہ اشرافیہ کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ غیرملکی ایجنڈے پر عمل درآمد کرتے ہوئے ملک میں بدیسی زبانوں کو فروغ دیا جائے کیونکہ یہ اس طبقے کی اس بنا پر بھی ضرورت ہوتی ہے کہ کل نہیں تو آج ان لوگوں نے اپنی اقتدار کی مدت پوری کر کے ترقی یافتہ ممالک میں سکونت اختیار کرنی ہوتی ہے۔

دیکھا جائے تو موجودہ ترقی یافتہ دور میں گوگل مترجم نے پوری دنیا کو ایک ایسی سہولت سے متعارف کروا دی ہے جس کا کوئی ثانی نہیں، اس لیے اب ہمیں انگریزی جیسی کسی بھی بدیسی زبان کو سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن انگریزی ابھی تک ہمارے بچوں کو بطور ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جا رہی ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے حکمران ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

جہاں تک حکومتی کاوشوں کی بات ہے، ماسوائے خانہ پری اور اقربا پروری کے کوئی بھی ایسا اہم کارنامہ سر انجام نہیں دیا جا سکا جو قابل تحسین ہو۔ شنید ہے کہ خیبر پختون خواہ میں سرائیکی کی ترویج کے لئے کافی زور و شور سے کام جاری ہے جس کی تعریف نہ کرنا بخل کے زمرے میں شمار ہو گا۔ اس کے علاوہ صوبہ سندھ میں تو میٹرک تک سندھی زبان پڑھائی جا رہی ہے لیکن پنجاب میں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ پنجابی زبان، سرائیکی زبان سے سینئیر ہے یا سرائیکی زبان پنجابی زبان سے پرانی ہے۔

اس ضد، تعصب اور عناد کی وجہ سے طلبا سے اپنی مادری زبان میں تعلیم کا حق تو چھینا ہی جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مقامی شعراء، ادباء اور محققین کی حق تلفی بھی ہو رہی ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق جس ادیب کے حلقہ احباب میں سلسلہ اقتدار کی کچھ کڑیاں ہیں اس کو پلاک ایوارڈ بھی مل جاتا ہے، سرکاری وظیفہ بھی دیا جا رہا ہے اور مراعات سے بھی نوازا جا رہا ہے لیکن مقامی ادب کی کسی بھی شعبہ میں مکمل حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی جس کی بنا پر ادیب حضرات کی اکثریت اپنی جیب سے اپنی کتابیں چھپوانے پر مجبور ہے اور بعض اوقات پبلشر بھی حیلے بہانے سے ان کی جمع پونجی لوٹ کر رفو چکر ہو جاتا ہے۔

یہ ایک بہت بڑا سچ ہے کہ زبانیں مر رہی ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان زبانوں کو بولنے والے معدوم ہوتے جا رہے ہیں اور اس کا ذمہ دار ہر وہ شخص ہے جس پر مغربیت کا رنگ اتنا چڑھا ہے کہ اس نے بچوں کو اس زبان میں لوری نہیں دی جس زبان میں خود سنی تھی۔

میری اپنے تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اپنی ماں بولی کو مرنے نہ دیں بلکہ اپنے گھر میں، اپنے معاشرے میں فخر سے اپنی زبان بولیں تاکہ ہماری یہ آخری سانسیں لیتی یہ زبانیں دفن نہ ہو جائیں ، اس کے علاوہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مقامی زبانوں کے بولنے والے لسانی تعصب کے بغیر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر حکومت وقت کو مجبور کریں کہ وہ ان زبانوں کو مقامی پیمانے پر نصاب میں شامل کرنے کے علاوہ ہر زبان پر مشتمل شعبہ جات قائم کرے۔ لسانیات کے ماہرین پر مشتمل جتنے بھی ایسے فورم اور مجالس ہوں، حکومت ان تمام فورم اور مجالس کی بھر پور مالی معاونت کرے اور وفاق اپنے سالانہ بجٹ میں مقامی زبانوں کے لیے فنڈ مختص کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments