محمد علی سدپارہ، پہاڑوں کا مسافر


پاکستان کے شمالی علاقے میں کئی انتہائی بلند پہاڑی چوٹیاں واقع ہیں۔ ان میں کے ٹو کے علاوہ نانگا پربت، گیشن بروم اور براڈ پیک نمایاں ہیں۔ ان تمام چوٹیاں کو سر کرنا دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے دنیا پھر سے کوہ پیما خطرناک مہم جوئی کے لئے پاکستان آتے ہیں اور مہم جوئی کرتے ہیں۔

کوہ پیمائی کرنے والے افراد اس کھیل میں لاکھوں ڈالر خرچ کرتے ہیں ، ان کوہ پیماؤں کے لئے پہاڑوں کے اردگرد بسنے والے افراد زیادہ مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جو چوٹیاں سر کرتے وقت کوہ پیماؤں کے لئے مدد گار ہوں ، ان کو ”پورٹرز“ کہتے ہیں۔ پورٹرز کا کام یہ ہوتا کہ وہ کوہ پیماؤں کے لئے پہاڑوں پر رسیوں کے ساتھ راستہ بناتے اور ان کا سامان اٹھا کر ایک خاص بلندی تک ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے جس کی ان کو اجرت دی جاتی ہے۔

گلگت بلتستان کے علاقے سکردو کے چھوٹے سے گاؤں ”سدپارہ“  کو پاکستان میں بہترین پورٹرز کے لئے جانا جاتا ہے۔ اس گاؤں کے زیادہ تر افراد کا روزگار بھی یہی ہے۔ انہی پورٹرز میں سے ہی ایک محمد علی تھے جن کو علی سدپارہ کے نام سے پہچانا جاتا تھا ، محمد علی کے ساتھ ”سدپارہ“ اس لیے مشہور ہو گیا تھا کیونکہ وہ سکردو میں سدپارہ جھیل کے قریبی گاؤں میں رہتے تھے۔ وہ اپنے نام ساتھ سدپارہ لکھنا اعزاز سمجھتے تھے۔

2 فروری 1976 کو پہاڑوں کے دامن میں پیدا ہونے والے محمد علی نے جوان ہوتے ہی پہاڑوں سے ہی اپنا روزگار تلاش کرنا شروع کر دیا۔ روزگار کی تلاش نے محمد علی کو علی سدپارہ مشہور کر دیا اور یوں شوق روزگار میں علی سدپارہ پورٹر سے کوہ پیما بن گیا۔

علی سدپارہ نے کوہ پیمائی کو کریئر بناتے ہوئے 2004 میں پہلی مرتبہ کے ٹو سر کرنے کی مہم جوئی میں بطور کوہ پیما حصہ لیا۔ علی سدپارہ وہ واحد کوہ پیما ہیں جنہیں 8 ہزار میٹر سے زائد 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 8 چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ 2016 میں سردیوں کے دنوں میں دوسری بلند ترین چوٹی نانگا پربت سر کرنے کا اعزاز بھی اسی کوہ پیما کو حاصل ہے۔

علی سدپارہ پہاڑوں کے مسافر تھے اسی لئے ان کا کہنا تھا کہ ”کسی بھی مہم جوئی کے دوران پہاڑوں میں اگر کبھی میں کھو بھی گیا تو برف کو اپنا گھر بنا کر زندگی کو اس کا مہمان بنا لوں گا۔“

جنوری 2021 میں قومی پرچم کو بلند کرنے کے لئے خطرناک بلند ترین پہاڑی چوٹی کے ٹو کو دوسری مرتبہ اپنے بیٹے ساجد سدپارہ کے ساتھ سر کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس میں ان کے ساتھ دو غیر ملکی کوہ پیما بھی شامل تھے۔ چاروں کوہ پیماؤں نے کے ٹو پر 16 جنوری سے اپنا سفر شروع کیا اور 8 ہزار 6 سو 11 میٹر بلند پہاڑی سلسلے پر آگے بڑھتے چلے گے۔ 5 فروری کو اچانک خبر آئی کہ علی سدپارہ اور باقی کوہ پیماؤں سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ ساجد سدپارہ آکسیجن ٹینک میں خرابی کی وجہ سے بیس کیمپ واپس آ گے لیکن علی سدپارہ اور غیر ملکی کوہ پیماؤں نے اپنا سفر جاری رکھا۔

ساجد سدپارہ نے واپس آ کر حالات سے آگاہ کیا تو تشویش ہونے پر ان کو سرچ اینڈ ریسکیو کرنے کے لیے پاک فوج نے آپریشن شروع کیا جو کہ 12 دنوں تک جاری رہا لیکن تاحال ان کی خبر نہ مل سکی ساجد سدپارہ نے کئی دن کے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کے بعد پریس کانفرنس کر کے ان کی اور باقی کوہ پیماؤں کی موت کی خبر سے آگاہ کر دیا۔ یوں پاکستان اپنے ایک اہم کوہ پیما سے محروم ہو گیا۔ پہاڑوں کا بیٹا پہاڑوں میں ہی گم ہو گیا اور اپنے چاہنے والوں مایوس کر گیا۔

کے ٹو کو سر کرنے میں اب تک درجنوں کے قریب کوہ پیما جان سے جا چکے ہیں، منفی درجہ حرارت ہونے کی وجہ سے بہت سوں کی لاشیں بھی نہیں مل پائیں ۔ کے ٹو کو موت کا پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں 60 فیصد کوہ پیما ناکام اور صرف 40 فیصد کامیاب ہوتے ہیں۔

کے ٹو پہاڑی چوٹی کا پورا نام ماؤنٹ گوڈوں آسٹن ہے۔ اردو میں اسے چھو گوری (چھو غوری) کہتے ہیں۔ بلتی زبان بولنے والے مقامی لوگ کے ٹو کو اس نام سے پکارتے ہیں ، اب تک اس چوٹی کو سر کرنے کی کوشش میں 75 سے زائد کوہ پیما جان کھو چکے ہیں۔ روایت کے مطابق ہر چار برس بعد اس چوٹی کی جانب بڑھنے والوں میں سے ایک ہلاک ہو جاتا ہے۔

یوں پہاڑوں کا یہ مسافر پہاڑوں پر سفر کرتا ہوا امر ہو گیا،  علی سدپارہ کو دنیا یاد رکھے گی اور اس کی واپسی کے لئے اپنی امیدیں پہاڑوں سے باندھے رکھے گی کیونکہ وہ خود کہا کرتے تھے کہ میں اگر پہاڑوں میں کھو جاؤں تو پہاڑوں پر برف میں اپنا گھر بنا لوں گا اور کئی دنوں تک زندہ رہ لوں گا۔

ہم تمہاری راہ دیکھیں گے صنم
تم چلے آؤ پہاڑوں کی قسم

سید اظہار باقر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید اظہار باقر

سید اظہار باقر ترمذی نے انگیزی ادب کی تعلیم پائی ہے۔ سماجی مسائل پر بلاگ لکھتے ہیں ۔ ان سے سماجی رابطے کی ویپ سائٹ ٹوٹر پر @Izhaar_Tirmizi نیز https://www.facebook.com/stirmize پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

syed-izhar-baqir has 11 posts and counting.See all posts by syed-izhar-baqir

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments