فنی تعلیم اور ہمارا نظام تعلیم


یوں تو میں پچھلے چند برسوں سے درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوں۔ لیکن گزشتہ ہفتے پہلی دفعہ جماعت نہم اور دہم کے طلبا کو پڑھانے کا اتفاق ہوا اور اپنے نظام تعلیم کے پسماندہ ہونے کا احساس شدت سے ہوا۔ ساڑھے پانچ پانچ فٹ سے نکلتے قد، توانائیوں سے بھرپور نوجوان۔ اور ہم ان کو کتابیں رٹنے پہ لگا دیتے ہیں۔ باالفاظ دیگر انہیں سوچنے سمجھنے، مشاہدہ کرنے سے محروم کر دیتے ہیں۔ پھر وہ رٹا شدہ سبق کو پرچوں پر اتارتے ہیں۔

وہی رٹا ان کی ذہانت، قابلیت جانچنے کا معیار ٹھہرتا ہے۔ (کس قدر مضحکہ خیز ہے یہ بات) بچے اپنی ساری توانائیاں اے پلس، اے گریڈ لینے میں صرف کرتے ہیں۔ (اسی چکر میں ان کی قابلیت دب کر رہ جاتی ہے) ہم انہی لیبلز کے ساتھ انہیں ڈگریاں عنایت کر دیتے ہیں۔ وہ انہیں ہاتھوں میں لئے نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اور ناکامی کی صورت میں لعن طعن کا ایک طویل سلسلہ۔

ہم نے تعلیم حاصل کرنے کو صرف اور صرف پیسے کمانے کا، نوکری کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھ لیا ہے جب کہ تعلیم حاصل کرنا اور پیسہ کمانا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ تعلیم کا مقصد شخصیت کی تعمیر ہے اور پیسہ ضروریات زندگی پورا کرنے کا ایک ذریعہ۔

پیسے کمانے کے لئے کسی ہنر کا، فن کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن ہم ماسٹرز تک اپنے بچوں کو کوئی ہنر نہیں سکھاتے۔ انہیں صرف کتابیں یاد کروائی جاتی ہیں۔ یوں وہ زمانہ جو ان کے سیکھنے کا سب سے بہترین زمانہ ہوتا ہے، بے کار گزر جاتا ہے ۔

اب سے کچھ عرصہ قبل ہمارے سکولوں میں ایک بہت اچھا نظام تھا۔ جس میں ششم جماعت سے ہشتم تک طالبات کے لئے ہوم اکنامکس کا مضمون تھا، جس میں کھانا پکانا اورسلائی کڑھائی سکھائی جاتی تھی۔ طلبا کے لئے زرعی تعلیم کا مضمون تھا جس میں بیج بونا، پودے لگانا، کھیتی باڑی کرنا سکھایا جاتا تھا۔ چوں کہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے، جس کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے۔ یہ بہت اچھی تعلیم تھی جو مستقبل میں بچوں کے کام آ سکتی تھی۔ اب مدت ہوئی ان دونوں مضامین کو نصاب سے نکال دیا گیا ہے۔ ان کے نعم البدل کے طور پر کوئی مضمون نصاب میں شامل نہیں کیا گیا۔

اب وقت اور اس کے تقاضے بدل چکے ہیں۔ لیکن ہم ابھی تک اسی بوسیدہ نظام کو گلے سے لگائے بیٹھے ہیں۔

ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی بھی معاشرے میں صرف ڈاکٹرز، انجینئرز، بینکرز، لائرز، جج درکار نہیں ہوتے۔ بلکہ الیکٹریشن، پلمبرز، ٹیکنیشن بھی اتنے ہی ضروری ہیں جتنے مندرجہ بالا شعبہ جات۔ یا شاید ان سے زیادہ ضروری۔ لیکن ہم فنی تعلیم کو تعلیم ہی نہیں سمجھتے بلکہ اس کو کسی قدر کم درجے پہ رکھتے ہیں۔

دنیا کے تعلیمی نظاموں میں پہلے نمبر پر فن لینڈ، دوسرے نمبر پر جاپان اور تیسرے نمبر پر جنوبی کوریا ہے۔ اب اگر ہم ان ممالک کے نظام تعلیم کا جائزہ لیں تو ہمیں احساس ہو گا کہ ہم کس قدر پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی نسل کو ”ڈگریوں“ کے پیچھے بھگانے کے بجائے ”ٹیکنیکل“ کرنا شروع کر دیا ہے۔

فن لینڈ میں بچوں کو لیکچر دینے یا روایتی طریقے سے پڑھانے کے بجائے ایکٹویٹی بیسڈ یا Experiential learning پہ زور دیا جاتا ہے۔ یعنی پڑھنے اور یاد کرنے کے بجائے بچے کو زیادہ سے زیادہ اور دلچسپ ترین سرگرمیاں کرنے کو دی جاتی ہیں۔

چند سال قبل میٹرک لیول پر مضامین کا تصور ختم کر دیا گیا ہے۔ یعنی مضامین کے بجائے موضوع اور عنوانات منتخب کیے جاتے ہیں ، اس طرح پروجیکٹ بیسڈ سٹڈی کا تصور دیا گیا ہے۔ مثال کے طور اگر کوئی طالب علم بزنس مین بننا چاہتا ہے تو اسے بزنس ایڈمنسٹریشن، فنانس، مارکیٹنگ اور کمیونیکشن اسکلز کے پروجیکٹ دیے جاتے ہیں۔ اس طرح وہ عملی طور پر چیزیں سیکھتا ہے۔ اس سارے عمل میں رٹا لگانے کی نوبت آتی ہے نہ ہی گنجائش نکلتی ہے۔ یوں اضافی اور غیر ضروری مضامین پڑھنے کا بوجھ بھی طلبا  کے سر سے اتر جاتا ہے۔

جاپانی سکولوں میں تین سال تک روایتی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ ان برسوں میں بچوں کی کردار سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور ان کو اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں۔ چوتھی کلاس تک کوئی امتحان نہیں ہے بچوں پر دباؤ کم ہوتا ہے اور وہ گھٹن سے آزاد ہوتے ہیں۔ اس عمر میں انہیں جاپانی کیلیگرافی اور پینٹنگ سکھائی جاتی ہے۔

جنوبی کوریا کے تعلیمی ادارے تین حصوں میں تقسیم ہیں۔ کنڈرگارٹن، مڈل و ہائی، یونیورسٹی۔ کنڈرگارٹن میں دو سال کا بچہ داخل کرتے ہیں، جو کہ سات سال تک کنڈرگارٹن میں رہتا ہے۔ کنڈرگارٹن پیپر، بورڈ اور پلاسٹک سے بچوں میں نئی چیزیں بنانے کا رجحان پیدا کرتے ہیں۔ کنڈرگارٹن کے لیول سے ہی بچوں کو ڈانس، گانا، کھانا بنانا، پہاڑوں پہ چڑھنا، قانون کی پابندی، ٹریفک قوانین کی پابندی اور مذہب سے روشناس کروا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کراٹے، تیراکی، کمپیوٹر گیمز اور جسمانی کھیل اور صحت کے نظام سے بھی متعارف کروا دیا جاتا ہے ، اس طرح سات سال کی عمر تک بچہ اپنے اردگرد اور جدید دنیا کے ماحول سے واقف ہو چکا ہوتا ہے۔

ہم ابتدائی تعلیم میں بچوں کو ا، ب۔ A، B، C اور 1,2,3 میں ہی الجھائے رکھتے ہیں۔ اس سے آگے بڑھنے ہی نہیں دیتے۔ اور میٹرک تک بھی اپنے بچوں کو ایسی تعلیم نہیں دے پاتے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالیں۔ فنی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنائیں تاکہ جب طلبا تعلیم سے فارغ ہوں تو نوکریوں کے لیے دھکے نہ کھائیں بلکہ اپنے ہنر کو استعمال میں لا کے ضروریات زندگی کو پورا کریں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب قول ہے کہ ”میں کڑیل جوان کو دیکھتا ہوں تو مجھے اچھا لگتا ہے اور جب مجھے کہا جائے کہ اس کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے تو وہ میری نظروں سے گر جاتا ہے۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments