احمد شاہ مسعود کے بھائی کو پاکستان بدلا ہوا کیوں لگا؟


افغانستان کے کٹر پاکستان مخالف شمالی اتحاد کے مرحوم کمانڈر احمد شاہ مسعود کے گھر کا کوئی فرد کسی دن اسلام آباد بھی آئے گا اور یہاں رہ کر افغانستان کے مستقبل کے نقشے میں اپنے لئے دستیاب رنگوں کا جائزہ بھی لے گا شاید کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا؟

آج سے بیس سال پہلے کسی کے گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ یورپی پارلیمنٹ کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرنے والے احمد شاہ مسعود کا اپنا بھائی احمد ولی مسعود کسی دن اسی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد آئے گا اور جن طالبان اور پاکستان کے خلاف اس کا مرحوم بھائی یورپی پارلیمنٹ پہنچا تھا آج وہ انہی طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن کی کسی کوشش کا حصہ بننے پر بات چیت بھی کرے گا۔

یہ دورہ کیوں عجیب محسوس ہوا ہے؟

یوں تو یہ اسی شمالی اتحاد کے سینئر رہنما اور افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور چند دیگر رہنماؤں کے بعد کا دورہ ہونے کی بدولت کوئی انہونی بات نہیں رہی لیکن اس دورے کا وقت اور افغانستان کے لئے امریکہ کے بدلتے ارادوں کے دوران ایسا ہونا یقیناً بہت اہم ہے۔

کل کے دشمن آج دوست بھی ہوسکتے ہیں ایسا ہونا ناممکن نہیں لیکن جو لوگ پاکستان کے بارے میں شمالی اتحاد کے موقف سے واقف ہیں انہوں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں ہوگا۔ یہ افغانستان میں بنتے بگڑتے حالات کا اعجاز بھی ہے کہ اب طالبان اور افغانستان کے اندر موجود مختلف نسلی، سیاسی اور علاقائی تنظیموں اور شخصیات کو احساس ہو گیا ہے کہ ان کا مفاد اس خطے کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا حصہ بننے میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف امریکہ اور اس کا ہمہ وقت اتحادی اسرائیل اگر اس خطے کے لئے الگ سے منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو دوسری جانب اس خطے بلکہ نیٹو کے کچھ ممالک بھی اپنے لئے ”کوئی اور“ مناسب راستہ چن رہے ہیں جن میں اب تک نیوزی لینڈ کا تو اعلان بھی سامنے آ چکا کہ اب وہ مزید افغانستان میں رہنے کو تیار نہیں اور اپنے بقایا چھ فوجیوں کو واپس بلا رہا ہے۔

نیوزی لینڈ امریکہ کے ان نیٹو اتحادیوں میں پہلا ملک ہے جس نے امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدے کی بنیاد پر افغانستان سے اپنے بقایا فوجیوں کو رواں سال کے مئی کے مہینے تک نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے چھ فوجی اس وقت افغانستان میں تعینات ہیں۔

انٹرا افغان ڈائیلاگ:

یہی حال افغانستان کے اندر ان شخصیات اور نسلی و سیاسی تنظیموں کا بھی لگ رہا ہے جو اس سے قبل اس سوچ کے حامل نہیں تھے اور ہر معاملے میں طالبان اور پاکستان مخالفت کو اپنی سیاست اور کردار کا محور بنا کر رکھتے تھے تاہم اب وہ مستقبل کے متوقع نقشے اور خطے کی طاقتوں کے بدلتے تیور دیکھ کر اپنے لئے نئے راستوں کا تعین کر رہے ہیں یہ سب امریکہ کی جانب سے افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر نظرثانی کی خبریں پڑ چکے ہیں ان میں وہ بھی ہیں جو امریکہ اور افغان طالبان کے مابین معاہدہ ہونے کے عمل کے دوران ہی امریکی اتحاد سے بدظن ہوچکے تھے۔

شمالی اتحاد:

نائن الیون کے بعد افغانستان پر چڑھائی کے لئے امریکہ کو سب سے پہلے جس اندرونی اتحاد کی مدد حاصل ہوئی وہ شمالی اتحاد تھا جس کے ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے کمانڈر شیر پنج شیر احمد شاہ مسعود کی القاعدہ کے ہاتھوں مبینہ موت کے بعد یہ امریکہ کے مزید قریب آ گئے تھے امریکہ اور شمالی اتحاد کے دشمن مشترکہ تھے اور وہ دشمن وہ عرب تھے جو افغانستان میں روس کے خلاف لڑے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے تھے اور یہیں پر انہیں احمد شاہ مسعود اور نائن الیون کے حملوں دونوں کے لئے مجرم ٹھہرایا گیا۔

کابل پر طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے شمالی اتحاد کا یہ الائنس جب وجود میں آیا تو اس کو جن ممالک کی حمایت حاصل تھی وہ ایران، ترکی، روس، تاجکستان اور ہندوستان تھے جبکہ امریکہ میں حملوں کے بعد سے ایران بھی اس کا ہمنوا ہو گیا اور اس نے امریکہ کے ساتھ مل کر طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا۔

نائن الیون اور احمد شاہ مسعود کا قتل:

امریکہ میں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل صحافیوں کے روپ میں انٹرویو کرنے آنے والے القاعدہ کے مبینہ اراکین کے ہاتھوں مارے جانے والے عسکری کمانڈر احمد شاہ مسعود کے پنج شیر کو نہ روسی جارحیت کے دس سالوں کے دوران زیرنگیں لایا جا سکا تھا اور نہ ہی طالبان کے دور میں یہ علاقہ ان کے ہاتھ لگ سکا۔ شیر پنج شیر کے نام سے اپنے جنگجووں میں مشہور احمد شاہ مسعود کو اپنے سیاسی مربی اور افغانستان کے سابق صدر برہان الدین ربانی نے روس کی واپسی کے بعد کابل میں بننے والی مجاہدین کی حکومت کے دوران اقتدار کے فارمولے کے تحت وزیردفاع بنایا تاہم کابل پر افغان طالبان کے کنٹرول کے بعد احمد شاہ مسعود واپس اپنے علاقے تک محدود ہو گئے جہاں پر کئی اہم شخصیات نے ان کے تحت طالبان سے مقابلہ کیا جن میں سب سے زیادہ نمایاں افغانستان کے موجود چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی شامل ہیں۔

پاکستان کا امن معاہدہ بحال رکھنے پرزور!

ایک طرف اگر امریکہ مخصوص علاقائی حالات کی بدولت امن معاہدے کو ختم کرنے کے درپے لگ رہا ہے تو اس کے ساتھ ہی پاکستان اس معاہدے کو برقرار رکھنے پر پورا زور صرف کر رہا ہے افغانستان میں انٹرا افغان مذاکرات کے لئے نامزد تنظیموں اور شخصیات کے پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطے اور ان رابطوں کے ذریعے اپنے لئے مستقبل کے نقشے میں زیادہ سے زیادہ کے حصول کی کوششیں اس بات کی آئینہ دار ہیں کہ اب یہ سب امریکہ کے مقابلے میں افغانستان کے اندر طالبان ہی کو بالادست قوت تسلیم کرچکے ہیں اور وہ ہر اس پلیٹ فارم پر بیٹھنے کو تیار ہو گئے ہیں جہاں پر انہیں طالبان کے ساتھ بات چیت کا امکان نظر آئے گا۔

خود طالبان نے بھی نیٹو کے پہلے ملک نیوزی لینڈ کی جانب سے افغانستان سے فوجیں نکالنے کے فیصلے کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ان کے معاہدے کے نتیجے میں واپسی کا یہ اعلان سمجھداری کا مظہر ہے۔

پاکستان کی جانب سے افغانستان میں انٹرا افغان مذاکرات کی کامیابی کی یہ کوششیں اس بات کا اظہار ہیں کہ وہ افغانستان کے اندر امن لا کر خود بھی سکون سے رہنا چاہتا ہے کیونکہ اگر افغانستان میں ایک بار پھر تشدد کا راستہ کھلتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوگا۔

دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کو سبق سکھانے اور افغانستان سے واپسی کے فیصلے کو ختم کرنے سے ایسا تاثر جنم لے رہا ہے کہ امریکہ چین کی سرکوبی کے لئے اس خطے میں رہنا چاہ رہا ہے تاہم اب کی بار اس کا یہ قیام پہلے سے بہت مختلف ہوگا اگر ایسی صورت میں مختلف مسلح اور سیاسی گروپ امریکہ کی بجائے طالبان سے بات چیت کر کے اپنے مقاصد اور مفاد کا دفاع کر جاتے ہیں تو امریکہ کے لئے اپنے مقاصد کا حصول انتہائی مشکل ہوگا۔

ایسے میں ناں صرف امریکہ بلکہ افغان حکومت بھی مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے جسے امریکہ کی مدد تو حاصل ہو سکتی ہے تاہم انٹرا افغان مذاکرات کے نام پر اکٹھے ہونے والی تنظیموں کا ساتھ حاصل نہ ہونے پر خود افغان حکومت کے لئے بھی بہت سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے مابین حالیہ بات چیت کے بعد یہ بات بھی سامنے آ چکی ہے کہ دونوں رہنماؤں نے جائزہ لیا ہے کہ کیا میدان جنگ چین کے ارد گرد کہیں ہو یا اس کے لئے مشرق وسطی کو چنا جائے۔ ایسے میں اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو پھر بھی اب کی بار سب کو اپنے پروں کے نیچے رکھ کر ان کے ذریعے مقاصد کا حصول آسان نہیں ہوگا۔

احمد شاہ مسعود کے بھائی کون ہیں؟

احمد ولی مسعود، مسعود فاونڈیشن نامی غیرسرکاری تنظیم کے بانی اور صدر ہیں۔ یوکے میں افغانستان کے پرانے سفیر رہے ہیں۔ ایک کتاب
National Agende, A roadmap to durable peace
کے مصنف بھی ہیں۔

جاتے جاتے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر وزیراعظم عمران خان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ انہیں یہ احساس ہو چکا ہے کہ پاکستان افغانستان کے امن کے لئے انتہائی سنجیدہ ہے کی کوششیں مخلصانہ ہیں البتہ وہ ان کوششوں پر مسلسل نظر رکھیں گے۔

پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان بھی اہمیت کے حامل ہیں جن کے مطابق پاکستان افغانستان میں جارحیت کی مزاحمت کرنے والے احمد شاہ مسعود کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور جو قوتیں امریکہ اور طالبان کے مابین معاہدے کو خراب کرنا چاہتی ہیں ان کو بھی بے قدری کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پاکستان کسی بھی گروپ کو دوسرے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ پاکستان افغانستان میں بڑھتے تشدد پر پریشان ہے اور ایک مستقل امن کے لئے کوشاں ہے۔

احمد ولی مسعود کا کہنا تھا کہ انہیں افغانستان کے حوالے سے پاکستان میں تبدیلی نظر آئی ہے جو انتہائی خوش آئند ہے اور اسی لئے انہوں نے پاکستان کی دعوت کو قبول کیا اور یہاں چلے آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments