بھارت نے جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا الزام مسترد کر دیا


بھارتی زیر انتظام کشمیر

بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کے اس حالیہ بیان پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے کہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں گزشتہ سال مئی میں متعارف کرائے گئے نئے قانون اقامت سے علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لئے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

جمعرات کو جنیوا میں دیے گئے ایک مشترکہ بیان میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں اقلیتوں کے امور کے خصوصی نمائندے فرنانڈو ڈی ورینس اور مذہب یا عقیدے کی آزادی پر ان کے ہم منصب احمد شہید نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو یک طرفہ طور پر اور بغیر کسی صلاح مشورے کے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی خود مختاری ختم کی تھی اور پھر علاقے میں ایسے قوانین نافذ کئے جو مقامی لوگوں کو مختلف معاملات میں حاصل تحفظ کو ختم کرتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں اس کے عوام کی نسلی، لسانی اور مذہبی شناخت کے احترام کے لیے مخصوص خودمختاری کی ضمانتیں دی گئی تھیں، لیکن ریاست کی خودمختاری کے خاتمے اور نئے قوانین کے نفاذ کے فیصلے سے وہاں کی مقامی آبادیوں کی سیاسی شراکت داری کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ روزگار اور زمین کی ملکیت سمیت اہم امور میں ان کے ساتھ امتیاز برتا جاسکتا ہے۔

ماہرین نے مزید کہا تھا کہ اب جموں و کشمیر کے لوگوں کی اپنی حکومت نہیں ہے اور وہ اقلیتوں کی حیثیت سے اپنے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے خطے میں قانون سازی یا ترمیم کرنے کی طاقت سے محروم ہو گئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی قانون سازی میں پچھلے قوانین کی پامالی کی گئی ہے جس میں کشمیری مسلمان، ڈوگری، گوجری، پہاڑی، سکھ، لداخی اور دیگر اقلیتوں کو جائیدادیں اور اراضی خریدنے اور سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کے لئے خصوصی اختیارات اور مراعات حاصل تھیں, لیکن اب قانون سازی کی تبدیلیوں سے سابق ریاست جموں و کشمیر کے باہر سے آنے والے لوگوں کے خطے میں آباد ہونے، آبادی کے تناسب میں رد و بدل کرنے اور اقلیتوں کے انسانی حقوق کو نقصان پہنچانے کے لئے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

انہوں نے بھارتی حکومت پر جموں و کشمیر کے حقیقی باشندوں کے معاشی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات اٹھانے کے لئے زور دیا اور کہا کہ انہیں اپنی سیاسی آرا کا اظہار کرنے کی بھی کھلی اجازت دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا وہ اس معاملے میں حکومتِ بھارت سے مسلسل رابطے میں ہیں۔

نکتہ چینی غلط مفروضات پر مبنی ہے

بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو نے یو این ہیومن رائٹس کونسل کے آزاد ماہرین کی معروضیت اور غیر جانبداری پر سوال اٹھایا ہے اور ترجمان کے بقول غلط ’’ان کا مفروضات پر مبنی بیان قابلِ مذمت ہے۔‘‘

ترجمان نے کہا کہ یہ بیان جان بوجھ کر ایک ایسے وقت دیا گیا جب نئی دہلی میں تعینات غیر ملکی سفارت کاروں کا ایک وفد زمینی حقائق جاننے کے لئے جموں و کشمیر کے دورے پر تھا۔

فرنانڈو ڈی ورینس اور احمد شہید کے بیان میں جموں و کشمیر کی آبادیات میں رد و بدل کرنے کے خدشے کا ذکر کرتے ہوئے انوراگ سری واستو نے کہا کہ اس طرح کے اندیشے بے بنیاد اور بے سروپا ہیں کیونکہ علاقے میں نئے اقامتی قانون کے تحت جاری کی گئی سندوں کی بھاری تعداد ان لوگوں نے حاصل کی ہے جن کے پاس ریاست کے پشتنی یا حقیقی باشندے ہونے کے سرٹیفکیٹ پہلے سے موجود تھے۔

سیکیورٹی اہل کار سری نگر میں ایک شخص کو روک کر اس سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔
سیکیورٹی اہل کار سری نگر میں ایک شخص کو روک کر اس سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔

ترجمان نے کہا، ’’ان ماہرین کا یہ بیان معروضیت اور غیر جانبداری کے ان مسلمہ اصولوں کی نفی کرتا ہے جن کا تعین خود اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے کیا ہے اور جن کی تقلید کرنا ان پر لازمی ہے۔ ترجمان نے مزید بتایا،”ہمیں توقع ہے کہ خصوصی نمائندے اپنے زیر غور امور کی بہتر سوجھ بوجھ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور بقول ان کے نتائج پر پہنچنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کرنے اور بلا غور و فکر کے بیانات جاری کرنے سے اجتناب کریں گے۔‘‘

بھارت الک تھلگ ہو کر نہیں رہ سکتا

کیا اس طرح کے بیانات کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت کی آئندہ فیصلہ سازی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا نے وائس آف امریکہ کو بتایا، “اگرچہ موجودہ بھارتی حکومت اس پر کی جانے والی تنقید کو خاطر میں نہیں لاتی ہے، بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے اپنے دعوے کے پیش نظر الگ تھلگ رہنے کا حامل نہیں ہو سکتا اور نہ اس کے لئے یہ موزوں رہے گا۔ یہ بات بھی واضح اور غور طلب ہے کہ بیرونی دنیا جموں و کشمیر میں رونما ہونے والے واقعات و حالات پر گہری نظر رکھتی ہے اور بھارت کے ارباب اقتدار اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ انہیں یہ پتا ہونا چاہیئے کہ بین الاقوامی برادری یہاں کی صورت حال کا نوٹس لے رہی ہے۔”

سری نگر کے بھرے بازار میں فائرنگ؛ دو پولیس اہلکار ہلاک

اس دوران جمعے کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے گرمائی صدر مقام سری نگر کے برزلہ علاقے کے ایک بھرے بازار میں ایک مسلح شخص نے دو پولیس اہلکاروں کو نزدیک سے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہو گئی ہے۔ ویڈیو میں ایک شخص کو روایتی کشمیری پھرن (پیرہن) کے اندر چھپی اے کے 47 بندوق کو اچانک باہر نکال کر سڑک کے کنارے پر کھڑے پولیس اہلکاروں پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

بھارت کے یوم جمہوریہ پر سری نگر میں مکمل ہڑتال۔
بھارت کے یوم جمہوریہ پر سری نگر میں مکمل ہڑتال۔

ایک اعلی پولیس عہدیدار وجے کمار نے دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں کی شناخت کر لی گئی ہے اور انہیں زندہ یا مردہ پکڑنے کے لئے کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔

اس سے پہلے حکام نے بتایا تھا کہ جنوبی ضلع شوپیاں اور وسطی ضلع بڈگام میں پیش آنے والی دو الگ الگ جھڑپوں میں تین مشتبہ عسکریت پسند اور ایک اسپیشل پولیس آفیسر ہلاک ہوئے ہیں اور ایک پولیس اہلکار شدید زخمی ہوا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments