ضمنی انتخابات کے نتائج دراصل مقتدرہ اور پی ڈی ایم کے درمیان اعتماد سازی کی شرط تھی


میاں نواز شریف کو باہر بھیجنا حقیقی فریقین کے درمیان اعتماد سازی کے لئے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی، جس کے بدلے میں آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے لئے حمایت حاصل کی گئی تھی، لیکن وہی ایکسٹنشن، جس سے بنائے گئے اعتماد کو بہتر تعلقات کار میں بدل جانا تھا، ایک ٹی وی ٹاک شو میں رکھے گئے بوٹ اور فریقین کے درمیان رازداری پر مبنی ملاقاتوں کے احوال کو، حکومت کی طرف سے میڈیا کو لیک کی گئی تو کھلم کھلا تصادم کی شکل اختیار کر گئی، جو بظاہر حکومت کی بڑی فتح ثابت ہوئی۔ کیونکہ پہلی بار ایک فریق نے دوسرے کا نام لے کر سر بازار رسوا کیا، اور یوں حکومت سمجھنے لگی کہ وہ اب ”ایک پیج“ پر آ گئی ہے، کچھ وقت تک تو الزامات کی گرما گرمی میں واقعی لگ بھی رہا تھا کہ حکومت اور مقتدرہ اب ایسی شیر و شکر ہو گئی ہے کہ نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔

لیکن مقتدرہ کو جلدی احساس ہوا کہ جس کو وہ استعمال کر رہے تھے اس نے الٹا ان کو استعمال کیا۔ اس لئے اشاروں کنایوں میں اور ٹاک شوز میں بیٹھے بوڑھے جرنیلوں کے ذریعے پہلی بار حکومت کو سرزنش کی گئی کہ ان کے بارے میں حزب اختلاف اور حکومت کے بیانیے میں سر مو فرق نہیں۔ حزب اختلاف جو الزام لگاتی آپ کی ایک پیج کی قوالی اسی کی گردان ہے۔ ساتھ حزب اختلاف کو اندرون خانہ سے ملنے والی اطلاعات سے حوصلہ ملتا رہا کہ اب یک صفحاتی انتظامات میں دراڑ پڑ گئی ہے، یوں انہوں نے ایک طرف سے اپنا پریشر بنائے اور بڑھائے رکھا تو دوسری طرف آزمودہ کار سیاسی شاطر نے اپنی چالیں چلنا شروع کیں۔

سیاست ممکنات کا کھیل ہے، اس میں مخالف کو انگیج کیا جاتا ہے اس کا حقہ پانی بند نہیں کیا جاتا۔ یوں جارحانہ حکمت عملی کے تحت ممبران کے استعفیٰ اکٹھے کیے گئے، لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا گیا اور آخر کار آر یا پار کی دھمکی دے کر کراچی سے چترال تک ایک ہلچل مچا دی گئی۔ زرداری صاحب نے بینظیر کی برسی میں پی ڈی ایم کے مہمان قائدین کو کھل کر کہا کہ میری بھی سنو، میرے تجربے سے فائدہ اٹھاؤ، میں مشرف جیسے ڈکٹیٹر کو رخصت کرچکا ہوں یہ تو کچھ بھی نہیں۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ آپ کی نوکری ہے ختم ہو جائے گی ہم نے یہیں رہنا ہے۔ اسی دوران اعتماد کی کمی کے باوجود پس پردہ مذاکرات جاری رہے۔

پی ڈی ایم کے سامنے سینیٹ چیئرمین کی عدم اعتماد کا تلخ تجربہ تھا تو زرداری کے سامنے مقتدرہ کے کم ہوتے ہوئے چوائسز اور مجبوریاں تھیں۔ پی ڈی ایم کے سامنے گلگت بلتستان کے الیکشن میں حکومتی وزرا کا غیر قانونی الیکشن کمپین اور الیکشن کمیشن کی بے بسی تھی تو زرداری کے پاس اپنے مذاکراتی دانش اور بدترین حالات سے بہترین نتائج حاصل کرنے کا ملکہ تھا۔ پھر ایک دن اچانک معلوم ہوا کہ پی پی پی نے استعفیٰ دینے کی بجائے پی ڈی ایم کے ساتھ ”غداری“ کر کے خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانے کے لئے الیکشن کمیشن کو درخواست دی ہے اور ساتھ ساتھ وہ استعفیٰ اگر دینا چاہتی بھی ہے تو سینیٹ الیکشن کے بعد جو تین مہینے بعد منعقد ہونے تھے۔ مقتدرہ کی طرف سے یہ سی بی ایم یعنی کانفیڈنس بلڈنگ میژرز تھے، جو اعتماد پیدا کرنے کے لیے ثبوت اور ضمانت کے طور پر مانگے گئے تھے کہ کیسے مانے کہ آپ سیاست سے دستبردار ہو گئے ہیں؟

اعتماد کی بحالی کی خاطر آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر کو ٹی وی پر آ کر کہنا پڑا کہ ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے، جس پر حزب اختلاف سمیت پورے سوشل میڈیا نے ان کا مذاق اڑایا۔ شاہد خاقان عباسی نے ایک ٹاک شو میں جنرل افتخار بابر سے جواب مانگا کہ کیا ثبوت ہے کہ آپ سیاست سے الگ ہوئے ہیں اور ایسا کب سے ہوا ہے؟

اس دوران اگر مقتدرہ کی طرف سے پس پردہ اعتماد سازی کی کوششیں جاری رہیں تو پی ڈی ایم نے بھی اپنے لہجے ٹارگٹ اور تقریریں تبدیل کر دیں۔ وہ وزارتیں جن کا تعلق براہ راست مقتدرہ سے تھا وہاں وزرا تبدیل کیے گئے، پی پی پی اور باقی پی ڈی ایم گڈ کاپ بیڈ کاپ کھیلتی ہوئی مذاکرات بھی کرتی رہی اور زبانی کلامی جواب در جواب بھی دیتی رہی۔ سی بی ایم کے طور پر خلوص نیت کے جس ثبوت کا مطالبہ مقتدرہ سے کیا گیا تھا وہ ضمنی انتخابات میں مقتدرہ کی عدم مداخلت سے پورا ہوا۔ جس سے نہ صرف یہ کہ مقتدرہ پر پی ڈی ایم کا یہ دعویٰ آشکار ہوا کہ آپ ایک طرف ہٹ جائے تو پی ٹی آئی چند دنوں کی مار ہے تو دوسری طرف پی ڈی ایم کو مقتدرہ کے سیاست سے دستبرداری کا ثبوت دیا گیا۔

اسے معمولی گڈول جسچر نہ سمجھا جائے کہ پی ٹی آئی پورے ملک میں کیے گئے ضمنی انتخابات میں بری طرح ہار گئی۔ ایسا نہیں کہ مقتدرہ نے اس ہار میں کوئی عملی کردار ادا کیا ہے، بس اتنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو پورے اختیار کے ساتھ الیکشن منعقد کرنے کا اختیار مل گیا ہے، جس کو اس نے احسن طریقے سے ادا کیا، آخر کس کا دماغ خراب ہوگا کہ روزمرہ کی بنیاد پر آٹا چینی گھی بجلی گیس مہنگی کرتی ہوئی حکومت کو ضمنی انتخابات میں کوئی ووٹ دیتا، لیکن الیکشن کمیشن خودمختار نہ ہوتا تو یہ معجزہ بھی ہونا تھا۔

ضمنی انتخابات کے نتائج کے نتیجے میں سینیٹ کے ممبران کی ماہیت قلب کی تبدیلی بھی ہونی ہے آخر کیوں کوئی شکست خوردہ لشکر میں جھنڈا اٹھانے کے لئے آگے بڑھے گا، جبکہ دوسری طرف روشن مستقبل مسکرا رہا ہو۔ اس ڈر کے مارے حکومت نے اپنے آخری مورچے میں الیکشن کمیشن کو قانونی اور آئینی چونکہ چنانچہ والوں کے حوالے کیا ہے، بظاہر تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے لگتے ہیں لیکن امید واثق ہے، الیکشن کمیشن موجودہ صورت میں اپنی خود مختاری سمیت ایک خود مختار ادارہ ہے، جو اپنے فرائض سے واقف اور اپنی پشت بانی سے باخبر ہے۔

اعتماد سازی کا عمل ابھی ادھورا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی منتخب ہو جائے گا، جو آگے جاکر سینیٹ کا چیئرمین بنے گا۔ لیکن سینیٹ کے انتخابات میں حاصل کردہ نتائج سینیٹ تک محدود نہیں رہیں گے۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ حکومتی وزیر جگہ جگہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ یہ ہمارا آخری بجٹ ہو گا، دوسری طرف نون لیگ والوں نے بھی اپنی اقتصادی ٹیم کو آنے والا بجٹ کو بنانے پر غور کرنے کا کہا ہے۔

مریم نواز سندھ میں اپنے شوہر سمیت بلاول کی مہمان تھی تو پی ٹی آئی کے وزرا کے ایما پر اس کے شوہر کو گرفتار کیا گیا تھا اور بلاول کچھ نہیں کر سکا تھا، لیکن آج اسی سندھ میں وہی وزیر الیکشن میں مداخلت کی بنا پر گرفتار ہے۔ فردوس عاشق اعوان ایک حلقے میں اپنا وزن ڈالنے گئی تو الیکشن کمیشن سے نوٹس لے آئی، جبکہ گلگت بلتستان میں پوری کابینہ ہی الیکشن کمپین چلانے گئی تھی لیکن الیکشن کمیشن کو نظر نہیں آیا تھا۔ سچ ہے کبھی کے دن بڑے ہوتے ہیں اور کبھی کی راتیں۔

اب اگر ایک طرف وزیراعظم صاحب کے ساتھ آرمی چیف اور انٹلیجنس چیف کی ہفتہ وار ملاقاتیں جاری ہیں، تو دوسری طرف زرداری اور نواز شریف کے درمیان ٹیلیفونک رابطے قائم ہیں۔ پی ڈی ایم کی استعفوں کی لانگ مارچ اور آر یا پار کی تاریخیں لمبی ہوتی جا رہی ہیں، تو دوسری طرف اعتماد سازی کا ماحول بن رہا ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج سے ایک طرف حزب اختلاف مطمئن ہے تو دوسری طرف حکومت کی طرف سے کوئی خاص ردعمل نہیں آیا۔ ڈسکہ میں ہونے والے واقعات حکومت کی ذاتی کوششیں تھیں، مقتدرہ اس طرح الیکشن پر اثرانداز نہیں ہوتی، اس کے پاس بہت وسائل بہت ذرائع اور آزمودہ تکنیک ہیں۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments