وقف املاک ترمیمی قوانین پر وفاق المدارس کا اعتراض، حکومت کی تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی


فائل فوٹو
اسلام آباد — پاکستان میں وفاقی سطح پر مدارس کے معاملات کو دیکھنے والی تنظیم وفاق المدارس کی مجلس شوریٰ نے اعلان کیا ہے کہ وقف املاک سے متعلق ترمیمی قوانین مدارس کی آزادی کے خلاف ہیں۔

وفاق المدارس سے تعلق رکھنے والے علما کا کہنا ہے کہ عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے کہنے پر قانون سازی کی جا رہی ہے۔ جس کے بعد مدارس کو فنڈز دینے والوں پر سختی ہو جائے گی۔ جو مدارس کو چلانے کی راہ میں مشکلات کا باعث بنے گا۔

دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ ملکی مفاد میں یہ قانون سازی ضروری ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو یہ قدم ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر نہیں بلکہ خود سے کرنے چاہیے تھے۔ کیوں کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔

پاکستان میں وفاق المدارس نے حکومت سے ‘وقف املاک ایکٹ’ میں ترمیم کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقف املاک ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم مساجد اور مدارس کی آزادی کو پامال کر رہی ہیں۔

وفاق المدارس کا کہنا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور دیگر طاقتوں کے کہنے پر مدارس اور مساجد کی آزادی پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ اگر حکومت نے ایکٹ میں نئی ترامیم کو واپس نہیں لیا تو وہ تحریک کا دوسرا مرحلہ شروع کر دیں گے۔

ذرائع آمدن اور چندہ دینے والوں کی شناخت

پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے نئے قوانین کے مطابق مدارس اور مساجد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ذرائع آمدن اور چندہ دینے والوں کی شناخت ظاہر کریں۔

وفاق المدارس کی طرف سے کہا گیا کہ مدارس کے عطیہ دہندگان سے پوچھ گچھ نہیں کی جانی چاہیے۔ کیوں کہ یہ ان کو ہراساں کرنے کے مترادف ہے۔

وفاق المدارس کا مزید کہنا ہے کہ مدارس کی اخراجات کی تفصیلات دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن بینکوں میں اکاؤنٹس نہیں کھولے جا سکتے۔

اس بارے میں وفاق المدارس کے مولانا عبد المجید ہزاروی کہتے ہیں کہ اس قانون سازی کا مقصد ہے کہ لوگوں کو مدارس کی امداد سے روکا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جب مدارس کی امداد کے لیے لوگوں کو رجسٹریشن اور دیگر لوازمات کا کہا جائے گا تو اس کا مقصد صرف انہیں ہراساں کرنا ہے۔

ان کے بقول اس کے بعد آہستہ آہستہ مدارس کی امداد بند ہو گی اور انہیں بند کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ مدارس کا اپنا کوئی آمدن کا ذریعہ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ اس قانون سازی کے بعد حکومت کی طرف سے تعینات کردہ ایڈمنسٹریٹر کے پاس پہلے تمام امدادی رقوم کے لیے فنڈ دینے والے کو رجسٹریشن کرانا ہو گی اور اس کے بعد فنڈز جمع کرائے جا سکتے ہیں۔

قانون کے مطابق حکومتی اہلکار کسی بھی وقت مدارس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کر سکتے ہیں۔ فی الحال یہ قانون اسلام آباد کے لیے ہے تاہم اس کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلایا جائے گا۔

مذہبی اسکالر مفتی گلزار نعیمی کہتے ہیں کہ حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اس بارے میں بات کرنی چاہیے۔

مفتی گلزار نعیمی کا کہنا تھا کہ مدارس، خانقاہیں اور مساجد ایک عرصے سے مشکلات کا شکار ہیں۔ مختلف مقامات پر ان پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ ایسے میں ان کے بقول ایسی قانون سازی سے مدارس کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر ان معاملات پر بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی مشکلات کا احساس ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بل میں واضح طور لکھا ہے کہ یہ بل ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر بنایا جا رہا ہے۔

‘قانون سازی مدارس کے لیے بہت اچھا قدم ہے’

اس معاملے پر تجزیہ کار اور ‘پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز’ کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر عبد اللہ قانون سازی پر کہتے ہیں کہ یہ بہت اہم اقدام ہے۔ لیکن ہمارے اندرونی معاملات کو ہمیں خود حل کرنا چاہیے تھا۔ نہ کہ ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر ہم ایسی قانون سازی کریں۔

ڈاکٹر عبد اللہ نے کہا کہ پاکستان میں ایک عرصہ سے ایسے مسائل موجود تھے کہ مدارس اور مساجد کی فنڈنگ کا کوئی ذریعہ معلوم نہیں تھا جس کی وجہ سے بیرون ممالک سے فنڈنگ بھی پاکستان آتی رہی۔ لیکن یہ مسائل ہمارے اپنے ہیں اور ان کے حل کے لیے ہمیں خود اقدام کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ان کے بقول اب ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر ہم ایسا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت وزارتِ تعلیم ملک بھر میں یکساں نصاب کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔ مدارس کو بھی ان میں شامل کرنا چاہیے۔ تا کہ مدارس کے طلبہ بھی جدید تعلیم حاصل کر سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے یہ قدم ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر کیا لیکن یہ ملک میں مدارس کے لیے بہت اچھا قدم ہے۔ اس وقت جو احتجاج ہو رہا ہے وہ لوگ کر رہے ہیں جو تمام مدارس پر مکمل کنٹرول رکھ کر خود فائدے اٹھا رہے تھے۔ لیکن اب حکومتی اقدامات کے باعث انہیں اپنے اکاؤنٹس اور تفصیلات بتانی پڑ رہی ہیں۔

‘قانون کا مقصد مساجد اور مدارس پر قبضہ کرنا نہیں ہے’

دوسری طرف وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ اس قانون کا مقصد مسجد اور مدرسے پر قبضہ کرنا نہیں ہے۔ اس قانون کی مدد سے ان پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ قانون میں کچھ چیزوں پر تحفظات سامنے آئے تھے اور اسپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جو تمام اعتراضات کا جائزہ لے رہی ہے۔

ان کے بقول ان کا مقصد مساجد اور مدارس کو محکوم بنانا نہیں ہے۔ اس قانون میں اگر کچھ خلاف آئین ہوا تو اس کو اسلامی نظریاتی کونسل دیکھے گی۔ لیکن وہ کسی صورت مساجد اور مدارس کو کنٹرول نہیں کرنا چاہتے۔

اس سوال پر کہ یہ قانون سازی ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر کی جارہی ہے؟ حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ انہوں نے اپنا مفاد دیکھنا ہے۔ جو پاکستان کے لیے بہتر ہو گا وہی ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی اور کے مفاد کے مطابق کام نہیں کر رہے۔ یہ قانون سازی ایف اے ٹی ایف کے لیے نہیں بلکہ ملک کی بہتری کے لیے ہے۔ اس کے دوران اگر مدارس کی طرف سے اعتراض ہوا تو وہ اس کا جائزہ لیں گے۔

اس قانون سازی کے حوالے سے جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ‘وقف املاک ایکٹ 2020’ کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اور اس قانون کی منسوخی کا باقاعدہ نوٹس سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیا ہے۔

اس نوٹس میں سینیٹر سراج الحق کا کہنا ہے کہ یہ قانون مساجد، دینی مدارس اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے قائم دیگر اداروں پر غیر ضروری قواعد و ضوابط لاگو کرے گا۔

دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے اہداف کے مطابق مساجد و مدارس کو دیے گئے فنڈز کی جانچ پڑتال کے لیے یہ قانون سازی ضروری ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments