پاکستان میں آن لائن ہراساں کرنے کی شکایات میں 70 فی صد اضافہ، کیسے محفوظ رہا جائے؟


فائل فوٹو
 

کراچی — سندھ کے شہر کراچی کی رہائشی خاتون سائرہ (فرضی نام) کو گزشتہ برس جون میں فیس بک پر ایک پیغام موصول ہوا جس میں ان کی تصویر کو ایڈٹ کر کے نازیبا بنایا گیا تھا۔

یہ تصویر بھیجنے والا کوئی اور نہیں، بلکہ ان کے دفتر ہی میں کام کرنے والا ایک سابق ساتھی تھا جس نے تصویر بھیجنے کے ساتھ خاتون سے 30 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ مطالبہ پورا نہ کرنے کی صورت میں اس نے تصویر وائرل کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

سائرہ نے تصویر سے متعلق پہلے کسی سے ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ مگر مطالبہ زور پکڑنے پر اس نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سیل کو تحریری طور پر آگاہ کیا جس کے بعد ملزم کو میرپور خاص سے گرفتار کیا گی اور مقدمہ درج کر کے قانونی کارروائی شروع کر دی گئی۔

پاکستان میں سائبر کرائمز میں سب سے بڑی تعداد ان شکایات سے متعلق ہے جن کا تعلق ہراساں کیے جانے یا بلیک میلنگ سے ہوتا ہے۔

ملک میں صارفین کے ڈیجیٹل حقوق پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن’ (ڈی آر ایف) کی جاری کردہ تازہ رپورٹ کے مطابق فاؤنڈیشن کی سائبر اسپیس میں ہراساں کرنے کے خلاف قائم کردہ ہیلپ لائن کو گزشتہ سال کے مقابلے میں 70 فی صد سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔

فاؤنڈیشن کے جاری اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کیسز بلیک میلنگ اور بھتہ خوری سے متعلق تھے جو کُل واقعات کا 33 فی صد بنتے ہیں۔ ان میں اکثر کیسز میں فرد کی ذاتی معلومات، تصاویر یا نفسیاتی جوڑ توڑ کا استعمال کرکے ڈرانے دھمکانے یا کوئی مطالبہ پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس کے بعد 23 فی صد شکایات کا تعلق ہیکنگ سے بتایا جاتا ہے جس میں لوگوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے فرد کی معلومات جیسا کہ تصاویر وغیرہ کا استعمال کیا گیا۔

اگر صوبائی سطح پر بات کی جائے تو ایسی شکایات میں سے 57 فی صد شکایات ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے سامنے آئیں جس کے بعد سندھ میں 11 فی صد، خیبرپختونخوا اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 4.4 فی صد رہی۔ شکایت درج کرانے والوں میں سے اکثریت خواتین کی تھی جو کل واقعات کی 66 فی صد بنتی ہے۔ زیادہ تر کو فیس بُک اور واٹس ایپ سے ہراساں کیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مندرجات کے مطابق ان کیسز میں ملک میں اگرچہ پسماندہ سمجھے جانے والی طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد انتہائی کم رہی تاہم اس کی وجہ اس بارے میں پائی جانے والی معاشرتی رکاوٹوں کو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ان کے خلاف آن لائن یا آف لائن پائے جانے والا امتیازی رویہ بدستور موجود ہے۔ جو رپورٹ میں ظاہر نہیں ہو سکا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے جرائم کا نشانہ بننے والوں میں سے اکثر کو جرم رپورٹ کرانے کے لیے ایف آئی اے کے دفاتر تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ یہ دفاتر اب بھی آبادی کے بڑے حصے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ناکافی سمجھے جاتے ہیں۔ جب کہ اس کے ساتھ سائبر کرائم ونگ کو شکایت درج کرانے کے لیے شکایت کنندہ کو ذاتی طور پر پیش ہونا پڑتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایسے میں 17 فی صد آن لائن ہراساں کرنے کی شکایات ان علاقوں سے بھی رپورٹ ہوئی ہیں جہاں ایف آئی اے کے دفاتر واقع نہیں۔ تاہم یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ظاہر ہے۔ اس کی وجہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے دفاتر کو کئی شہروں میں کھولا جانا بھی ہے۔

رپورٹ تیار کرنے والے مصنفین نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس رپورٹ سے اگرچہ ملک میں آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات کی کُل شکایات کا پتا نہیں لگایا جاسکتا۔ لیکن اس کے باوجود ہیلپ لائن کے تحت رجسٹرڈ کی جانے والی شکایات کی بڑھتی ہوئی تعداد اس اہم مسئلے کی جانب نشان دہی کے لیے کافی ہے۔

‘مردوں کو بھی آن لائن ہراساں کیا جاتا ہے’

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن میں ڈائریکٹر پالیسی اینڈ ریسرچ شمائلہ خان کا کہنا ہے کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آن لائن ہراساں کرنے کی شکایات کرنے والی خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے تاہم اس بار 34 فی صد شکایات مردوں نے بھی درج کرائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے واقعات عورتوں کے ساتھ زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں مگر مرد بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

شمائلہ خان کے مطابق عام طور پر مرد معاشی اور مالی دھوکے بازی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ بھی آن لائن بلیک میلنگ کا شکار اور ہراساں ہو رہے ہیں۔

ان کے بقول مرد ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے میں ہچکچکاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ جب کہ کئی معاملات میں خواتین اور مردوں کی شکایات کی وجوہات قدرے ایک جیسی بھی دیکھی گئی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آن لائن ہرساں ہونے سے بچنے کے لیے اگرچہ اب تو کئی چیزیں نصاب میں بھی پڑھائی جا رہی ہیں۔ لیکن ملک میں ڈیجیٹل خواندگی اور شعور کی شرح انتہائی کم ہونے کی وجہ سے اب بھی لوگ اس کا بہت شکار ہو جاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہےکہ سوشل میڈیا ویب سائٹس پر اپنے اکاؤنٹس کا بہترین پاس ورڈ رکھنا، اسے کسی کے ساتھ شئیر نہ کرنا اور ‘ٹو فیکٹر تصدیق’ سے ان مسائل سے کسی حد تک نمٹا جا سکتا ہے۔

رپورٹ میں حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک میں ہتک عزت کے قوانین کو تبدیل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ تاکہ یہ قوانین کسی کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال نہ ہوں۔

شمائلہ خان کے مطابق یہ سفارش اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے بھی پیش کی ہے۔

ڈیٹا پروٹیکشن بل ابھی قانون کی شکل نہیں بنا

کئی ممالک میں اس حوالے سے ‘ڈیٹا پروٹیکشن بل’ پاس ہو چکے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں فی الوقت اسے قانون کی شکل نہیں دی گئی۔

مئی 2020 میں پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل کا ڈرافٹ وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے جاری کیا گیا تھا جس پر ماہرین اور عام لوگوں سے تجاویز بھی طلب کی گئی تھیں۔

وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری تصدیق کر چکے ہیں کہ ان کی وزارت پاکستان میں شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے نئے قوانین لانے پر غور کر رہی ہے۔

فواد چوہدری نے کہا تھا کہ حکومت شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کے لیے مؤثر قانون زیرِ غور ہے۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان کے ڈیجیٹل میڈیا کے لیے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد نے کہا ہے کہ ڈیٹا پروٹیکشن کے لیے حکومت کوئی ایسا قانون نہیں لائے گی جس میں عالمی کمپنیوں کی ڈیٹا رسائی پر قدغن لگائی جائے۔

ڈیجیٹل رائٹس کے ایک اور فورم ‘بولو بھی’ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کے مطابق بل میں جہاں کچھ اچھے نکات شامل کیے گئے وہیں اس میں کچھ نکات قابلِ اعتراض بھی ہیں۔

انگریزی اخبار ‘ڈان’ میں لکھے گئے کالم میں اسامہ خلجی کا کہنا تھا کہ مجوزہ بل میں نجی کمپنیز کو اپنے صارفین کا ڈیٹا محفوظ بنانے کا پابند بنانے کی بات کی گئی ہے۔

بل میں ذاتی معلومات جیسے فون نمبرز، کال ریکارڈز، شناخت کی معلومات، صحت کے ریکارڈ اور شہریوں کے پتے بیچنے، ہیک کیے جانے، لیک ہونے یا دیگر طریقوں کے غلط استعمال کے نتائج کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ تاہم بل کے تحت ڈیٹا پروٹیکشن کے لیے ایک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جانا ہے۔

انہوں نے بل میں ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی کو آزاد اور خود مختار ہونے کے بجائے وفاقی حکومت کے ماتحت کام کرنے پر اعتراض کیا ہے۔

اس کے علاوہ حکومت اور عوامی اداروں پر ڈیٹا کے تحفظ کی ذمہ داری بھی واضح نہیں کی گئی جو اس طرح کے کسی بھی قانون کا ایک اہم جز ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments