تحریک انصاف کو ضمنی انتخابات میں اپ سیٹ شکست، صوبائی وزیر کے خلاف کارروائی
پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 75 پر ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج روک لیے گئے ہیں۔ اس حلقے میں انتخابات میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور فائرنگ میں دو افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے خیبر پختونخوا میں اپ سیٹ کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور موجودہ وزیرِ دفاع پرویز خٹک کے آبائی علاقے کی صوبائی نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔
ان انتخابات میں اب تک کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق حکمران جماعت تحریک انصاف صرف ایک نشست این اے-45 کرم ایجنسی میں برتری ہوئی ہے۔
حکومتی وزرا کی جانب سے ضمنی انتخاب کو شفاف قرار دیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ایک بیان میں کہا کہ پہلی بار پاکستان میں ایسے انتخابات ہوئے ہیں جن میں حکومت کی کوئی مداخلت نہیں تھی۔
پہلی بار پاکستان میں ایسے انتخابات ہوئے ہیں جن میں حکومت کی کوئ مداخلت نہیں ورنہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ جیسے ضمنی الیکشن کرواتی تھی لوگ کہتے تھے الیکشن تو رسمی ہی ہیں جیتنا تو حکومت نے ہی ہے، اب بھی نخرے دیکھیں جہاں جیت جائیں وہاں الیکشن شفاف تھے جہاں ہار گئے وہاں دھاندلی کا شور
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) February 20, 2021
پی پی-63 نوشہرہ میں تحریک انصاف کو اپ سیٹ شکست
ملک بھر میں ضمنی انتخابات کے موقع پر سب سے اہم اور دلچسپ مقابلہ سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک کے آبائی ضلع نوشہرہ کے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی کے-63 پر ہوا۔
اس حلقے میں 19 فروری کو ہونے والے الیکشن کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اختیار ولی نے حکمران جماعت تحریک انصاف کے میاں محمد عمر کو شکست دے کر اپ سیٹ کر دیا ہے۔
یہ نشست میاں محمد عمر کے والد اور سابق صوبائی وزیر جمشید الدین کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی۔
منتخب امیدوار اختیار ولی نے 21122 ووٹ حاصل کیے جب کہ محمد عمر 17023 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔
مبصرین کے مطابق نوشہرہ کی اسی نشست پر حکمران جماعت تحریک انصاف کے امیدوار کی شکست کی اصل وجہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو حزبِ اختلاف کے تین اہم جماعتوں پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام (ف) اور قومی وطن پارٹی کی حمایت حاصل ہونا ہے۔
رپورٹس کے مطابق اس کے علاوہ پرویز خٹک سے ناراض ان کے بھائی صوبائی وزیر لیاقت خٹک اور ان کے بیٹے سابق تحصیل ناظم احد خٹک کی حمایت بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو حاصل تھی۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے ضمنی انتخابات کے موقع پر پشاور میں وزیر اعلیٰ محمود خان اور گورنر شاہ فرمان سے ملاقات کی تھی جس میں پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک کو صوبائی وزارت سے علیحدہ کرنے کے سلسلے میں بات چیت کی گئی تھی۔
وزیراعظم عمران خان کی منظوری کے بعد
پارٹی قواعد اور ڈسپلن کی خلاف ورزی پر وزیراعلی کا سخت نوٹس،
پی کے 63 الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کو سپورٹ کرنے پر صوبائی وزیر لیاقت خٹک فارغ، نوٹیفیکیشن جاری.@kamrankbangash #KPKUpdates pic.twitter.com/W3tdt7C4UU
— PTI Khyber Pakhtunkhwa (@PTIKPOfficial) February 20, 2021
صوبائی وزیرِ محنت و ثقافت شوکت یوسف زئی نے ضمنی انتخابات پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ نوشہرہ میں تحریک انصاف کو تحریک انصاف نے ہی شکست دی ہے۔ ان کے بقول نوشہرہ کی سیٹ پر شکست پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کا نتیجہ ہے۔
دوسری جانب اس شکست کے بعد لیاقت خٹک سے وزارت واپس لے لی گئی ہے۔
وزارت واپس لینے کا باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی منظوری کے بعد
پارٹی قواعد اور ڈسپلن کی خلاف ورزی پر وزیراعلی کا سخت نوٹس،
پی کے 63 الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کو سپورٹ کرنے پر صوبائی وزیر لیاقت خٹک فارغ، نوٹیفیکیشن جاری pic.twitter.com/dPBrW7QD9w
— Kamran Bangash 🇵🇰 (@kamrankbangash) February 20, 2021
این اے-75 سیالکوٹ میں نتیجہ روک لیا گیا
قومی اسمبلی کا یہ حلقہ موجودہ ضمنی انتخابات میں اب تک کا سب سے متنازع حلقہ ہے جہاں پر الیکشن کمیشن نے نتیجہ روک لیا ہے۔
ڈسکہ سے قومی اسمبلی کی نشست این اے-75 پر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے علی اسجد خان اور مسلم لیگ (ن) کی امیدوار سیدہ نوشین افتخار کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا۔
اس حلقے میں 19 فروری کو الیکشن کے بعد 20 پولنگ اسیٹشنز کا عملہ نتائج کے ہمراہ ریٹرننگ افسر کے پاس نہیں پہنچ سکا تھا جس کی وجہ سے رات گئے تک مکمل نتائج سامنے نہیں آ سکے تھے۔
غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کو اپنے مد مقابل پر معمولی برتری حاصل تھی جس کی وجہ سے دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے امیدوار کی کامیابی کے دعوے کیے۔
الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ پریذائیڈنگ افسران سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی مگر اس میں ناکامی ہوئی۔
الیکشن کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ کافی تگ و دو کے بعد صبح 6 بجے پریذائیڈنگ افسران، پولنگ بیگز سمیت واپس آئے۔ ڈی آر او اور آر او کو ان پولنگ اسٹیشنز کے نتائج میں رد و بدل کا شبہ ہے۔ اس لیے مکمل تحقیقات کے بغیر این اے-75 کا نتیجہ جاری کرنا ممکن نہیں ہے۔
سامنے آنے والے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق 360 پولنگ اسٹیشنز میں سے 213 پولنگ اسٹیشنز میں مسلم لیگ (ن) کی سیدہ نوشین افتخار 61571 ووٹ لے کر آگے تھیں جب کہ پی ٹی آئی کے علی اسجد خان 55872 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر ہیں۔
اس حلقہ میں ووٹرز کی کل تعداد چار لاکھ چار ہزار ہے۔
اس حلقہ میں فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کے بعد بعض پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ روک دی گئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا کہ پریزائیڈنگ افسر ووٹوں کا تھیلہ لے کر فرار ہو رہا تھا جسے مسلم لیگ (ن) کے حامیوں نے پکڑ لیا اور اس کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کی۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی شہباز گِل نے اس حلقے کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کی جیت کا اعلان کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی این اے-75 کا الیکشن سات ہزار 827 ووٹوں سے جیت چکی ہے۔
Na 75 کا رزلٹ صبح 5:40 منٹ کا آ چکا۔ لیکن RO نارووال کا رہنے والا ہے۔ اور احسن اقبال کے پریشر کی وجہ سے رزلٹ روک کر بیٹھے ہیں۔ جیت جائیں تو نواز کے بیانیے کی جیت۔ ہار جائیں تو نہتی لڑکی۔
— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) February 20, 2021
دوسری طرف اپوزیشن کی طرف سے اس حلقے میں کامیابی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی امیدوار سیدہ نوشین جیت رہی تھیں۔
پوری دنیا نے 2018 میں دیکھا کہ کیسے ووٹ چوری ہوئے ووٹوں کے ڈبے چوری ہوئے لیکن کبھی کسی نے سنا الیکشن کا پور کا پورا عملہ ہی چوری ہوگیا؟330 پولنگ سٹیشنز کے رزلٹ کے بعد رزلٹ آنا بند ہوئے تو پتہ چلا ادھر 20 کے قریب پریزائیڈنگ آفیسر غائب کردیئے گئے ہیں@MaryamNSharif pic.twitter.com/pjlSRWstD0
— PML(N) (@pmln_org) February 20, 2021
پی پی 51 وزیر آباد میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی
پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی-51 وزیر آباد میں 19 فروری کو ضمنی انتخاب میں 162 پولنگ اسٹیشنز کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی بیگم طلعت محمود 53903 ووٹ لے کر کامیاب آگے رہیں۔ جب کہ تحریک انصاف کے چوہدری یوسف 48484 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
حلقہ پی پی 51 کی نشست مسلم لیگ (ن) کے شوکت منظور چیمہ کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی۔ یہاں ووٹرز کی کل تعداد دو لاکھ 53 ہزار 949 ہے۔ جب کہ 162 پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ ہوئی۔
اس نشست پر بھی سخت مقابلہ دیکھنے میں آیا ہے اور مریم نواز بھی یہاں انتخابی مہم میں شریک ہوئی تھیں۔
پی ایس-43 سانگھڑ میں پیپلز پارٹی کی نشست برقرار
رواں ماہ 16 فروری کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس-43 سانگھڑ کے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار جام شبیر علی نے کامیابی حاصل کی ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق 132 پولنگ اسٹیشنز کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے جام شبیر علی 48 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔
غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے مشتاق جونیجو چھ ہزار 925 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ واضح رہےکہ اس حلقے میں ووٹرز کی کل تعداد ایک لاکھ 57 ہزار 210 تھی۔
یہ نشست پیپلز پارٹی کے جام مدد علی کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔
اس نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں مجموعی طور پر سات امیدوار حصہ لے رہے تھے۔ تاہم اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے جام شبیر علی اور پی ٹی آئی کے مشتاق جونیجو کے درمیان قرار دیا جا رہا تھا جس میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب رہے۔
پی ایس-88 کراچی میں پیپلز پارٹی کی کامیابی
کراچی کے سندھ اسمبلی کے حلقے پی ایس-88 میں ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی۔
اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے یوسف مرتضیٰ بلوچ 24 ہزار 251 ووٹ لے کر کامیاب رہے۔
اس حلقے کے تمام 108 پولنگ اسٹیشنز کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتیجے کے مطابق دوسرے نمبر پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سید کاشف علی نے چھ ہزار 90 ووٹ لیے۔
پی ٹی آئی کے جان شیر جونیجو چار ہزار 870 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ جب کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ساجد احمد نے دو ہزار 635 ووٹ لیے۔
یہ نشست پیپلز پارٹی کے غلام مرتضیٰ بلوچ کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔
اس حلقہ میں پولنگ کے دوران بعض پولنگ اسٹیشنز اور کئی علاقوں میں صورت حال کشیدہ رہی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کارکنان آمنے سامنے آئے اور شدید نعرے بازی کی گئی۔
ایس ایس پی ملیر نے الیکشن کمیشن کے حکم پر سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی کے رہنما حلیم عادل شیخ کو پی ایس-88 کے حلقے سے بے دخل کیا تھا۔
پی بی-20 پشین میں جے یو آئی کی جیت
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے لیے رواں ماہ 16 فروری کو ہونے والے ضمنی انتخاب کے دوران یہ نشست جمعیت علماء اسلام (ف) کے سید عزیز اللہ آغا نے 16 ہزار 86 ووٹ لے کر جیتی۔
اس نشست پر دوسرے نمبر پر آزاد امیدوار آغا عصمت اللہ چار ہزار 681 ووٹ لے سکے۔ جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے عصمت اللہ ترین دو ہزار 963 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے ۔
ضمنی انتخابات کے نتائج نا اہل حکومت کے خلاف نوشتہ دیوار ہے ۔
ضمنی انتخابات کی طرح سینیٹ انتخابات میں نااہل حکمرانوں کو بدترین شکست دیں گے۔حکمرانوں کے خلاف اصل معرکہ اسلام آباد لانگ مارچ ہوگا ۔پشین کے عوام کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔
جاری کردہ :مرکزی میڈیا سیل جے یو آئی پاکستان— Jamiat Ulama-e-Islam Pakistan (@juipakofficial) February 17, 2021
سینیٹ انتخابات کے حوالے سے بلوچستان اسمبلی کے اس انتخاب کو بہت اہمیت دی جا رہی تھی۔ لیکن جے یو آئی اے نے اس میں اہم کامیابی حاصل کی۔
این اے-45 کرم میں انتخابی نتائج پر تنازع
خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے قومی اسمبلی کے اس حلقہ میں غیر حتمی و غیر سرکاری نتیجے کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار ملک فخر زمان 16911 ووٹ لے کر باقی امیدواروں سے آگے رہے۔
ضمنی انتخابات کے دوران یہ واحد نشست ہے جس پر پی ٹی آئی کو سبقت حاصل ہوئی۔ جب کہ جے یو آئی کو اپنی نشست سے دستبردار ہونا پڑ رہا ہے۔
حلقے کے تمام 134 پولنگ اسٹیشنوں کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتیجے کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار ملک فخر زمان 16313 ووٹ لے آگے رہے گئے۔ جے یو آئی (ف) کے امیدوار ملک جمیل خان 15760 سے زائد ووٹ لے کر دوسرے اور آزاد امیدوار سید جمال 15145 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔
این اے 45 ضلع کرم کی یہ نشست جے یو آئی کے ایم این اے منیر خان اورکزئی کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔
اس حلقے کے نتائج پر تنازع بھی ہے کیوں کہ جمعیت علماء اسلام (ف) اور آزاد امیدوار جمیل خان چمکنی بھی کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے قبائلی اضلاع کے لیے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی مفتی عبد الشکور نے ایک بیان میں حکومت پر نتائج تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
حکومتی ارکان نے اسے محض الزام تراشی قرار دیا ہے۔
جے یو آئی (ف) کے مفتی عبدالشکور کہتے ہیں کہ این اے-45 میں دھاندلی کسی صورت منظور نہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آخری لمحات میں جے یو آئی کی کامیابی کو شکست میں تبدیل کیا گیا۔
ان کے بقول وہ قانونی کارروائی کے لیے درخواست دے رہے ہیں اور احتجاج کا آپشن بھی موجود ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).