ضمنی انتخاب کے نتائج حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی


گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی کی 2، ایک ایک پنجاب، پختونخوا اور بلوچستان اسمبلی اور 2 قومی اسمبلی کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہوئے۔ سندھ کی دونوں نشستوں پر پیپلز پارٹی، بلوچستان اسمبلی کی نشست پر جے یو آئی، پنجاب اور پختونخوا اسمبلی کے لئے نون لیگ، قومی اسمبلی کی نشست این اے 45 کرم پر پی ٹی آئی کامیاب قرار پائی ہے۔ جبکہ این اے 75 ڈسکہ کے انتخابات میں دھاندلی اور اشتعال انگیزی کے باعث نتائج روک دیے گئے ہیں۔ تادم تحریر دونوں ہی جماعتیں نون لیگ اور پی ٹی آئی اپنے اپنے امیدواروں کی جیت کا اعلان کر رہی ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت ہی کامیاب ہوتی ہے مگر اس بار تاریخ تبدیل ہو چکی ہے۔ تمام ضمنی نشستوں پر سندھ میں پیپلز پارٹی کے علاوہ تینوں صوبوں میں حکمراں جماعت ہار گئی ہے۔

اس کی اصل وجہ پاکستان تحریک انصاف کی وہ حکمت عملی اور منصوبہ بندیاں ہیں، جن کا فائدہ ابھی تک عوام کو نہیں پہنچا۔ اگر کچھ عوام تک آیا ہے تو وہ صرف اور صرف مہنگائی ہے۔ میں ہمیشہ ایک بات کہا کرتا ہوں کہ بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کی عدت گزرنے کے بعد سابقہ شوہر پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی مگر یہاں حکومت اڑھائی سال گزرنے کے باوجود سابقہ حکومت کو ہی قصور وار ٹھہرا رہی ہے۔

ممکن ہے وہ جو کہہ رہی ہے درست ہو، سابقہ حکومت نے کچھ ایسی پالیسیاں نافذ کی ہوں جن کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہوں مگر اڑھائی سال کا عرصہ بھی کم نہیں ہوتا۔ کسی پالیسی کو ریورس کرنا، اس کو جدید خطوط پر استوار کرنا، غلط ہے تو اس کو ٹھیک کرنے کے لئے اڑھائی سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔ صرف باتیں کرنے سے، تقریریں کرنے سے، سبز باغ دکھانے سے، سابقہ حکمرانوں پر لعن طعن کرنے سے، ان کو کوسنے سے ملک ترقی نہیں کرتے۔ عوام اور ملک کی خوشحالی اور ترقی کا دار و مدار مثبت پالیسیوں اور ان پر عمل درآمد سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو بلاتفریق احتساب اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے وعدوں پر اقتدار ملا تھا۔ مگر ابھی تک دونوں بڑے وعدے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے۔ احتساب کے نام پر عزتیں اچھالی جا رہی ہے۔ اگر کسی کو ثبوت کی بنا پر گرفتار کیا گیا ہے تو عدالت میں شواہد، ثبوت اور جرائم ثابت کیوں نہیں کیے جا رہے۔ کئی ماہ ہو چکے میاں شہباز شریف، خورشید شاہ، شرجیل انعام میمن اور کئی سیاست دانوں کو گرفتار کیے ہوئے، مگر کسی پر بھی کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا۔

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پر بھی کئی سنگین الزامات لگا کر گرفتار کیا گیا مگر سزا ہوئی تو کس پر، اقامہ پر۔ ایون فیلڈ، حدیبیہ پیپرز ملز اور دیگر کیسز کا کیا ہوا؟ رہا دوسرا وعدہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا تو، وہ بھی پورا نہیں ہو سکا اور امید ہے کہ پورا بھی نہیں ہو گا۔

ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت عوام کے پاس گئی، مگر ان کے پاس کارکردگی دکھانے کے لئے خیالی پلاؤ کے سوا کچھ موجود نہیں تھا۔ عوام مایوس ہو چکے ہیں۔ روز روز کی مہنگائی سے تنگ آ گئے ہیں۔ کاروبار آج بھی سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ معاشی بدحالی نے جینا محال کر دیا ہے۔ اس پر مزید مہنگائی۔ پیٹرول، اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہر پندرہ دن بعد اضافہ۔ عوام کب تک اپنے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے سے بچا پائیں گے، اب کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ اگر اپوزیشن نے عوام کے جذبات کو بھڑکا دیا تو حکومت کے لئے شدید مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔

اگلے ماہ سینیٹ انتخابات ہیں ، اس کے بعد بلدیاتی انتخابات کی تاریخ دی جا چکی ہیں۔ سینیٹ انتخابات میں تو کوئی ڈینٹ پڑنے کا امکان نہیں۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو صاف صاف ہدایات جاری کر دی ہیں۔ مگر بلدیاتی انتخابات کے نتائج 2023ء کے عام انتخابات کا تعین کر دیں گے۔

دو سال بعد ہونے والے عام انتخابات میں یہ بات تو واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اگر حکومت کی کارکردگی پر اسی طرح خاموشی رہی تو عوام حکمران جماعت کو یکسر مسترد کر دیں گے اور نئے چہرے سامنے آئیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے بلاول بھٹو زرداری اور نون لیگ سے مریم نواز شریف کا پلڑا بھاری ہے۔ اور اسی منظرنامے میں خادم حسین رضوی کے صاحبزادے سعد رضوی کو بھولنا ناممکن ہو گا۔ جس طرح ضمنی انتخابات کی تمام نشستوں پر دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت تحریک لبیک پاکستان رہی ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہے کہ وہ بلدیاتی اور عام انتخابات میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتی ہے۔

حکمران جماعت اور خاص طور پر وزیراعظم پاکستان عمران خان جنہیں پاکستانی عوام نے بدعنوان حکمرانوں کا نعم البدل سمجھ کر اقتدار کا ہما ان کے سر پر سجایا تھا، نے اگر اب بھی جاگنے اور جنگی بنیادوں پر عوام کے مسائل کے حل پر توجہ نہ دی، بند کمرہ اجلاسوں سے نکل کر عوام میں نہ گئے، مافیاز سے عوام کی نجات نہ دلائی گئی، مہنگائی کو کم نہ کیا گیا تو ضمنی انتخابات میں ایک ٹریلر کی صورت میں تحریک انصاف کے ساتھ جو ہوا ہے وہ عام انتخابات میں پوری فلم کے طور پر سامنے آ جائے گا۔

یہ ضمنی انتخابات صرف حکمران جماعت کے لئے نہیں بلکہ اتحادی جماعتوں کے لیے بھی ویک اپ کال ہیں۔ اب جاگنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً کراچی میں پی ٹی آئی کو جو جگہ ملی تھی، اس میں دوبارہ خلاء پیدا ہو گیا۔ کراچی کے عوام حکمران جماعت سے شدید مایوس ہو چکے ہیں۔

کراچی جیسے بڑے شہر کو نظرانداز کرنے کی جو غلطی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے کی تھی، وہ پی ٹی آئی نے بھی کر دی ہے۔ جس طرح پنجاب میں نون لیگ دوبارہ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے، اسی طرح اب کراچی کے خلاء کو بھی پر کرنے کی کسی جماعت کو ضرورت ہے۔ جس نے اس خلا کو پر کر دیا وہ پاکستان کی شہ رگ کا حاکم بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments