خوف کی خاموشی


خاموشی بیک وقت ایک خوبصورت اور بد صورت احساس ہے۔ ایک صوفیانہ فہم ہے جو گیان کی گہرائی میں اتارتی ہے۔ ایک بے وقوفانہ بزدلی بھی ہے۔ ایک طاقت ہے اور کمزوری بھی ہے۔ ایک خوف کی بیماری ہے۔

اس مضمون میں اس خاموشی کی بات کی جا رہی ہے جو خوف سے جنم لیتی ہے۔ جو تنقید نہ کرنے اور ظلم سہنے کی ترغیب دیتی ہے۔ جو یہ سکھاتی ہے کہ خود کو فاعل کی حیثیت سے نہیں بلکہ مفعول کی حیثیت سے دیکھو۔ خوفزدہ خموشی کے سائے اندھیرے میں بھی آدمی کو سر اٹھانے نہیں دیتے۔ وہ خاموشی جو دہشت سہتے رہنے چپ سادھے زندگی کا وزن ڈھونے کا غلامانہ سبق دیتی ہے۔ والٹیر نے کہا تم نے اگر جاننا ہو کون تم پر حکومت کرتا ہے تو یہ دیکھو تم کس پر تنقید نہیں کر سکتے۔ ایسا خوف جو سچ کہنے سچ سننے سچ لکھنے سے ڈراتا ہے۔ ایسا خوف جو بس خوشامدی غلاموں کے بے ترتیب ہجوم کو جنم دیتا ہے۔

کبھی سوچا ہے ایسے نظام تعلیم کا کیا فائدہ جو سوال کرنے سے روکے۔ سوچنے والے کو سزا دے۔ ایسا بانجھ تعلیمی نظام کون سے مفکر یا سائنس دان پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟

یہ خوف گھر سے شروع ہوتا ہے جہاں باپ بچے کو سوال پوچھنے سے ٹوکتا ہے۔ اور کہتا ہے ایسے ویسے ویسے سوالوں پر خاموشی اختیار کی جائے۔ اسکول میں ماسٹر سوال پوچھنے پر جماعت سے باہر نکال دیتا ہے۔ کالج اور جامعات میں بھی اسکول والا ماحول جاری رہتا ہے۔ یہ خوفناک خاموشی کا رویہ پیشہ ورانہ۔ معاشرتی اور ازدواجی زندگی پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔ اور پھر اس خطرناک خموشی میں جینے کی عادت ڈال دی جاتی ہے۔

مغرب مریخ پر پہنچ گیا ، وہاں زندگی تلاش ہو رہی ہے۔ کورونا جیسی عالمی وبا سے مقابلے کے لئے ویکسین تیار ہو گئی۔ او بھائی! یہ تو دیکھو تم نے کیا ماحول دیا؟ خوفزدہ غلاموں پر حکمرانی کرنے سے کہلاؤ گے تو تم غلاموں کے بادشاہ۔ پھر خاموشی سے نظریۂ ضرورت میانمار میں، ہانگ کانگ میں اور تھائی لینڈ میں آج بھی بھوکے سلام (Hunger Salute) کو دبانے کے لئے تاریخ کی راکھ سے آگ کا جن بن کر کبھی ایشیا کبھی افریقہ اور کبھی شمالی امریکہ کبھی یورویشیا سے نکل آتا ہے جس کے آگے انصاف کا ترازو سر جھکائے ہر آمرانہ حکم پر خاموشی اختیار کرتا ہے تاکہ کمپنی کی حکومت کے لئے تازہ دم غلام بکثرت دستیاب ہوں۔

ایسے غلام جو ظالموں کے آلہ کار بن کر مظلوموں پر ظلم کی قیامت ڈھاتے رہیں۔ ایسے مظلوم جو ظلم سہہ سہہ کر بے حس ہو جائیں نہ کچھ محسوس کریں نہ کچھ سوچیں ، بس جینے کی سانسیں پوری کریں اور ان سانسوں کو بحال رکھنے کے لئے دال روٹی کی دوڑ میں سرگرداں رہیں۔ لگتا ہے حمورابی کا قانون اکیسویں صدی میں بھی تاریخ کے آتش فشاں سے لاوے کی طرح طاقت ور کی حمایت میں بہہ نکلتا ہے اور مظلوموں کو خوفناک خاموشی کی زندان میں دھکیل دیتا ہے۔

خوف کی ایسی خاموشی کہ زبان پر الفاظ تھوک بن جائیں اور وہ تھوک نگلنے کی عادت جانے کب چپ میں بدل جائے اور پھر بے آنسو آنکھیں پتھر کی طرح خاموش ہو جائیں۔ اگر اس وقت کا اب بھی انتظار ہے تو تم اندھے ہو۔

اور یہی خوفناک خاموشی جب عادت بن جاتی ہے پورے معاشرے کو وائرس زدہ کر دیتی ہے۔ خواتین کو سکھایا جاتا ہے مرد اگر جنسی استحصال کرے ، ہراساں کرے ، گالم گلوچ کرے ، مارے پیٹے ، جبر کرے ، اونچی آواز میں برا کہے ، بس خاموشی اختیار کرو۔ کبھی سوچا ہے کیوں؟ اگر کبھی کیوں کہنے کا حوصلہ دیا ہوتا تو آج جنسی درندوں کا معاشرہ نہ ہوتا۔ عورتوں اور مردوں کا علیحدہ علیحدہ معاشرہ نہ ہوتا بلکہ انسانوں کا معاشرہ ہوتا۔ اس خاموشی کو توڑنا ہو گا دوبارہ انسانوں کا معاشرہ بنانے کے لئے۔

اور یہ بھی یاد رکھو! ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہ خاموشی دہائیوں بعد ’می ٹو‘ کی سدا بن کر وقت کے فرعونوں کو انصاف کے کٹہرے میں گھسیٹی ہے۔ پھر وہ ہاروی وائنسٹن ہو یا ایم جے اکبر جواب دینا پڑتا ہے۔ دہلی ہو لاہور ہو قصور یا امرتسر کب تک زیادتی پر خاموشی۔ مظلوموں کو خود سے سوال کرنا ہو گا وہ مظلوم کیوں ہیں؟

اب سوال یہ ہے اسے بدلا کیسے جائے۔

سب سے پہلے تو تبدیلی شعبہ تعلیم سے شروع ہو گی۔ کالونیئل نظریہ تعلیم و نصاب سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہو گا۔ میکالے کی بنائی گئی گندی دلدل سے نکلنا ہو گا۔ میکالے نے فروری 1835 میں تہذیب اور سوچ میں جس تبدیلی کی بات کی تھی جس نے آگے چل کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے مفادات کے لئے غلاموں کی نسلیں تیار کیں،  وہ سوچ آج بھی زندہ ہے ، وہ خوف آج بھی خاموشی سے سر جھکائے نئی نسل تیار کر رہا ہے۔ تعلیم فروش فیکٹریاں آج بھی کمپنی کے مفادات کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔

مقامی زبان میں تعلیم کی ابتداء ہو۔ اس زبان میں جس میں بچہ خواب دیکھتا ہے۔ سوال کرنے پر سزا نہیں جزا کا رویہ اپنانا ہو گا۔ حال کو بدلنا ہو گا جو مستقبل کی بنیاد ہے۔

خوف سے لڑنے کے لئے خاموشی کو توڑنا ہو گا۔ امن اور اتحاد سے مظلوموں کو ایک دوسرے کو مضبوط کرنا ہو گا۔ سوچنا ہو گا کیسے ایک انسانی معاشرے کی تشکیل نو کی جائے۔ خوف کی سوچ بدلنا ہو گی جو آہستہ آہستہ معاشرتی بدلاؤ لائے گی۔ یہ ہو گی حقیقی تبدیلی۔

ورنہ پہلے بھی جیتے آ رہے ہو ، آگے بھی جیتے رہو گے ، پر یاد رکھو داستانوں میں تمہاری داستاں نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments