قلم و قرطاس اور تحفیظ علم و اخلاق


اصل علیم و حکیم ذات اللہ تعالٰی کی ذات ہے۔ اسی ذات نے انسان کو تخلیق کر کے جتنا چاہا اتنا علم عطا فرمایا۔ علم کے ذریعے ہی انسان کو اپنی ذات کے عرفان کے ساتھ ساتھ خدا کی معرفت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ علم نہ ہو تو انسان کو نہ صرف دنیا ورطۂ حیرت میں ڈالے رہتی ہے بلکہ اس کے لئے اپنی ذات بھی اجنبی بنی رہتی ہے۔

خدا کی ذات کا تعارف بھی اسی علم سے ہوتا ہے جو انسان کو خدا کی طرف سے ودیعت ہوا ہے اور جو انسان اپنی سعی و کوشش لیکن خدا کے فضل سے حاصل کرتا ہے۔ اس طرح سے علم ایک ایسی رسی کی مانند ہے جس سے انسان کا تعلق خدا کی ذات کے ساتھ برقرار رہتا ہے اور دنیا بھی اس کے لئے ایک معما نہیں بنی رہتی۔ علم نہ ہو تو انسان کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے جو کسی عربی شاعر نے اس شعر میں بیان کی ہے:

کل ما ہو فی الکون وہم او خیال
او عکوس فی المرایا او ظلال
یعنی جو کچھ بھی اس دنیا میں ہے، یا تو وہم و خیال ہے یا پھر آئینے میں عکس ہیں، یا پھر سائے!

جس طرح خدا نے انسان کو تحصیل علم کی صلاحیتوں سے مالا مال کر کے دنیا میں بھیجا ہے، بالکل اسی طرح خدا نے انسان کو تحفیظ علم کے ذرائع بھی وافر مقدار میں عطا فرمائے ہیں۔ ان ذرائع میں سے انسان کا شعور اور حافظہ وہ بنیادی ذرائع ہیں جن سے نہ صرف علم کی تحصیل اور ترویج ہوتی ہے بلکہ ان ہی سے تحفیظ علم کا بنیادی کام انجام پاتا ہے۔ حواس خمسہ کے استعمال سے انسان اپنے دماغ کو معلومات فراہم کرتا ہے۔ انسان دیکھ کر، سن کر، سونگھ کر، چکھ کر اور مس کر کے مختلف عوامل کے متعلق بنیادی معلومات دماغ میں محفوظ کرتا ہے۔ اسی طرح حس مشترک (Common Sense) سے حاصل شدہ معلومات بھی دماغ میں ذخیرہ ہوتی ہیں۔ شعور بھی مجرد حقائق کا مسلسل استنباط کرتا رہتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

”اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اس نے تمہیں
کان دیے، آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دیے، اس لئے کہ تم شکر گزار بنو۔ ”(النحل: 78 )

تاہم جب انسان اپنی محدود اور مختصر عمر گزار کر ملک عدم کا مسافر بن کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کا حاصل شدہ علم کس طرح آنے والی نسلوں کو منتقل ہوتا ہے؟ اگرچہ علم کی اچھی خاصی مقدار برت کر بھی تجربات کی صورت میں نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے، لیکن اس طریقے پر علم کا صد فی صد محفوظ ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ہنر اور فن کی باریکیوں کی حفاظت کا انتظام بھی ہنر مندوں اور فنکاروں کے لطیف ہاتھوں کے ساتھ ساتھ کسی اور تحفیظی ذریعے سے کرنا اور ہونا ناگزیر ہے۔

اگر ان اضافی حفاظتی ذرائع کا سہارا نہ لیا جائے تو انسان کی ہنر مندی اور کاریگری میں کسی قسم کا نکھار نہیں آسکتا۔ اس صورت میں انسان کی صناعی اور اختراع منجمد ہو کر چرند اور پرند کی سطح پر آ جائے گی جو ابتدائے آفرینش سے ایک ہی قسم کے غاروں اور گھونسلوں میں رہتے آئے ہیں، جن میں کسی قسم کے ارتقاء کا کوئی امکان نہیں ہے۔

علمائے عمرانیات اور بشریات اس بات پر تقریباً متفق ہیں کہ انسان روز اول سے ہی علم کو مختلف چیزوں کا سہارا لے کر محفوظ کرنے کی سعی کرتا آیا ہے۔ انسان کو معاشرت، معیشت، تجارت، غرض مختلف شعبہ ہائے زندگی کو رواں دواں اور قائم و دائم رکھنے اور ترقی سے ہمکنار کرنے کے لئے جن علوم کی ضرورت محسوس ہوئی ان کو اس نے نہ صرف حاصل کیا بلکہ ساتھ ساتھ ان کی حفاظت کا بندوبست بھی کیا۔ جب ریت اور مٹی علم کی ترسیل اور تحفیظ کے لئے ناپائیدار ثابت ہوئی تو انسان نے ہموار پتھروں، جانوروں کی کشادہ ہڈیوں اور مختلف دھاتوں کا سہارا لے کر اپنے حاصل شدہ علم کو ضائع ہونے سے بچا لیا۔

ماہرین کے مطابق بابل میں تحریریں گیلی مٹی کی تختیوں پر لکھی جاتی تھیں، جن کو بعد میں خشک کیا جاتا تھا۔ ہندوستان میں درخت، خاص کر صنوبر کے پتوں اور چھال پر نوکیلے قلموں سے بغیر سیاہی کے گھسیٹ کر لکھا جاتا تھا۔ تاہم مؤخرالذکر طریقہ زیادہ پائیدار نہیں رہتا تھا۔ ماہرین آثار قدیمہ نے دنیا کے مختلف ممالک سے جو شہادتیں جمع کی ہیں، ان کے مطابق انسان نے انہی ذرائع سے اپنے رسم و رواج، قوانین اور مذہبی تصورات کو آنے والی نسلوں کی طرف منتقل کیا۔

اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خدا نے انسان کو بنیادی علم اس کی پیدائش کے ساتھ ہی عطا کر دیا تھا۔ قرآن میں اس ضمن میں بار بار اشارات ملتے ہیں۔ مثلاً: ”اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے۔“ ( البقرہ: 31 ) اس بنیادی علم کے ساتھ ساتھ انسان پر خدا کی طرف سے تسلسل کے ساتھ علم کا فیضان ہوتا رہتا ہے، تاکہ انسان درجۂ کمال کی طرف گامزن رہے۔ اس حقیقت کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: ”۔ اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آ سکتی الا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔“ (البقرہ: 255 )

لیکن ہم اکثر اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جس طرح انسان نے علوم اور فنون کو محفوظ کیا شاید اس قسم کا انتظام اخلاقیات کی تحفیظ کے لئے نہیں ہوا۔ لیکن خدا نے انسان کے اندر اتنا مضبوط اخلاق کا داعیہ رکھا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی اخلاقی حس کا اظہار کرتا رہتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ اس کی حفاظت کا انتظام بھی کرتا رہتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ آدم (ع) نے کس طرح پہلی ہی لغزش پر اپنے اخلاقی وجود کا اظہار کیا۔ اس بارے میں قرآن کہتا ہے : ” آخر کار جب انہوں نے اس درخت کا مزہ چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔“ (الاعراف: 22 )

ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح آدم (ع) کا بیٹا، قابیل اپنے بھائی کو قتل کرنے کے بعد نہ صرف پشیمان ہوتا ہے بلکہ بنیادی اخلاقی داعیہ اس کو مجبور کرتا ہے کہ اپنے مقتول بھائی (ہابیل) کی نعش کو احترام اور اہتمام کے ساتھ سپرد خاک کر دے۔ قرآن نے جس انداز میں اس واقعے کو بیان کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان نے اخلاقیات کی منتقلی، ترسیل اور تحفیظ کا انتظام بڑے ہی اہتمام کے ساتھ کیا ہے۔ از روئے الفاظ قرآنی: ”پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔ یہ دیکھ کر وہ بولا“ افسوس مجھ پر! میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا۔ ”اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتایا۔“ (المائدہ: 31 )

اس طرح یہ بات مترشح ہو جاتی ہے کہ علم و اخلاق کی حفاظت اگرچہ پہلے پہل زبان کے ذریعے ہی ہوئی لیکن بہت جلد انسان نے قلم و قرطاس کی مختلف صورتیں ایجاد کر کے اس کی حفاظت کا باضابطہ اہتمام کیا۔ یہاں پر ہمیں اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ شاید انسان نے برس ہا برس تک اپنے علم کو ضائع کیا ہو گا پھر کہیں جا کر انسان کا ذہن علم و فن کی حفاظت کی طرف منتقل ہوا ہو گا۔ دراصل انسان نے دنیا میں آنکھ کھولتے ہی اپنے سامنے اقلام و قراطیس کا ایک بحر ناپیدا کنار موجود پایا۔

چوں کہ انسان کے اندر ابد الآباد زندگی کی تمنا بدرجہ اتم موجود تھی، اس لئے انسان نے زندگی کے دوام کو ناممکن سمجھتے ہوئے اپنے تجربات کو قلم بند کرنا شروع کیا۔ اس طرح انسان کو حیاتیاتی دوام نہ سہی لیکن علم و افکار کو منتقل کر کے ایک قسم کا نظریاتی دوام ضرور حاصل ہوا۔ قرآن نے انسان کی تخلیق کے ساتھ علم اور قلم کا ذکر کر کے اس بات کو واضح کیا ہے کہ انسان کی پیدائش کسی بھی طور پر تاریکی اور جہالت میں نہیں ہوئی ہے۔

اس کے برعکس انسان کو نہ صرف علم کے ساتھ بلکہ علم کی حفاظت کے ذرائع کے ساتھ دنیا میں بھیجا گیا۔ قرآن نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ”پڑھو (اے نبی ﷺ) ، اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے ؛ جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔“ (العلق: 1۔ 5 )

اس طرح قلم کی روشنائی سے اس روشنی (نور) کی حفاظت کا اہتمام کیا گیا جس سے انسان کی راہیں روشن ہونے والی تھیں۔ اگرچہ انسان نے آگے چل کر بڑے ہی ناشکرے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے قلم و قرطاس سے ذخیرہ شدہ خزانے سے علم و فن کو تو لیا لیکن اخلاق کے حصے سے بے اعتنائی برت کر فطرت سے نبرد آزمائی کی سعیٔ لا حاصل کی، لیکن قرآن نے علم و اخلاق کو ایک اکائی کے طور پر پیش کر کے پیغمبران کرام (ع) کو اصل معلمین کی صورت میں متعارف کرایا۔ علم و اخلاق کی جامعیت اور تحفیظ کو قرآن نے ان آیات میں بیان کیا ہے : ”ن۔ قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔ تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہو۔ اور یقیناً تمہارے لئے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو۔“ ( قلم: 1۔ 4 )

جب علم و اخلاق کی حفاظت روز اول سے ہو رہی تھی تو بے شک سید الانبیاء (ص) کو نہ صرف معلم بناکر بھیجا گیا (بعثت معلما ”) بلکہ انہیں اخلاق کی عمارت کی تکمیل کے لئے بھی بھیجا گیا۔ اپنی اس حیثیت کو نبی (ص) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :“ بعثت لأتم مکارم الاخلاق ”یعنی“ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔ ”

البتہ ارتقائی طور پر یہ بات صحیح ہے کہ قلم اور قرطاس نے مختلف شکلیں بدلی ہیں۔ اگر کسی زمانے میں پرندوں کے پر اور درختوں کی ٹہنیاں قلم کا کام دیتی تھیں تو آگے چل کر ان کی جگہ فاؤنٹین پن اور بال پوائنٹ پن نے لے لی۔ اسی طرح مٹی کی تختیاں، چمڑے، جانوروں کی ہڈیوں اور دھات کی تختیوں نے اپنے وقت میں قرطاس کا کام دیا۔ آج کل کمپیوٹر کا تختہ کلید (key board) اور مختلف سجیلیں (memory discs) قلم و قرطاس کا کام کر کے علم و اخلاق کی تحفیظ کا ذریعہ بن رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments