افسانے ہی رہ گئے ہیں کہنے کو


اس کی بیوی سامنے ہی فرش پر بچھے گدے پر لیٹی لحاف کے اندر کسمسا رہی تھی اور وہ کچھ دور دور پلنگ پر ٹیک لگائے، ٹیبل لیمپ کی روشنی میں ادق سی کتاب پڑھتے، باوجود اس کی قربت پانے کی اپنی خواہش پر، اس کی کل کی تلملاہٹ کو یاد کر کے، جب اس نے اسے اپنے قریب ہونے کا حد درجہ برا مناتے ہوئے چلانا شروع کر دیا تھا، سوچ رہا تھا کہ ممکن ہے اس کے من میں بھی اس کے قریب آنے کی خواہش کلبلا رہی ہو، تبھی کسمسا رہی ہے لیکن وہ چند منٹ بعد ساکت ہو گئی تھی اور اس کی لمبی سانسیں بتا رہی تھیں کہ وہ تو واقعی سو گئی۔

اگر اس کی زندگی گزارنے کا عام سا سچ بھی کسی کو بتا دیا جاتا اور اسے پتا چل جاتا جو وہ اپنی عادت کے تحت اسے عام سی بات سمجھ کے خود ہی بتا دیا کرتا تو وہ اسے دروغ گو کہتی اور اسے اپنی توہین خیال کرتی، چیخ چیخ کے کہتی، ”میں آپ سے نفرت کرتی ہوں۔ کس قدر نفرت کرتی ہوں، اس کا آپ کو اندازہ ہی نہیں“ ۔

جب وہ کہتا کہ بھئی یہ کوئی ایسی بات ہی نہیں ‌جس پر سیخ پا ہوا جائے، پرسکون ہو جاؤ تو وہ اسی لہجے اور اسی اونچی آواز میں کہتی کہ جب تک آپ یہاں ہیں کوئی سکون ہو ہی نہیں سکتا۔ بچے بھی یہی کہتے ہیں کہ جب پاپا نہیں ہوتے آپ کا ہم سے سلوک اچھا ہوتا ہے۔ پاپا آتے ہیں تو آپ ہمیں ڈانٹنے اور پیٹنے لگتی ہیں۔ اس لیے کہ آپ اپنے رویوں سے میرا دماغ خراب کر دیتے ہیں۔ وہ حیران ہوتا کہ کیا اس کا ہی دماغ خراب ہوتا ہے؟ کیا دوسروں پر اس کے یک دم بدل جانے والے رویے کا اثر نہیں ہوتا؟ وہ اپنی کہے جاتی دوسرے کی سنتی تک نہ۔

اس کی نفسیات کا کوئی معاملہ تھا جس کے سبب اسے حاکمیت کی نہ صرف عادت تھی بلکہ ایسا کرنے کا چسکا تھا۔ ایسا نہیں کہ وہ بچوں سے پیار نہیں کرتی تھی مگر وہ چاہتی تھی کہ بچے فوجیوں کی طرح چاق و چوبند رہیں اور سب کام اسی طرح کریں جیسا وہ چاہتی ہے۔ مگر آخر کار بچوں میں باپ کی عادات کا بھی تو کوئی پرتو منتقل ہونا تھا۔ وہ تینوں اپنی مرضی کے مالک تھے، اگرچہ ماں سے ڈرتے بھی بہت تھے، جو بچے ڈرا کرتے ہیں وہ لامحالہ جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ وہ بچوں کا کہا جھوٹ پہچان لیتی یا پکڑ لیتی جیسے کہ بچی نے کہہ دیا کہ اس نے اپنے سارے کپڑے تہہ کر کے ترتیب سے الماری کے اپنے حصے میں رکھ دیے ہیں، جب کہ ایسا نہیں ہوتا تھا۔ بچوں کے جھوٹ پر اسے بے تحاشا غصہ آتا اور وہ ان کو زبانی اور عملی طور پر رگید کے رکھ دیتی۔

باپ نے بچوں کے نام ان کی عادات کے مطابق رکھ دیے تھے۔ بڑے بچے کا نام تھا، ”میں بھول گیا“ اور بچی کا نام تھا، ”ابھی۔ میں جانتی ہوں“ یہ وہ الفاظ تھے جو وہ کثرت سے استعمال کرتے۔ بچہ جو نہ کرنا چاہتا تو ’وہ بھول گیا تھا‘ کہہ دیتا۔ ظاہر ہے جب نگاہیں موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرنے میں مصروف ہوں گی تو کیا یاد رہے گا۔ بچی کا کہا ”ابھی“ جھوٹ ہوتا اور ’مجھے معلوم ہے‘ غلط اگر اسے معلوم ہوتا تو جو کام کہا تھا یا جو ذمے لگایا گیا تھا اسے ہر روز دس بار یاد نہ کرانا پڑتا۔ چھوٹا تو تھا ہی چھوٹا، اس کا نام تھا، ”مجھے دو۔ میں چاہتا ہوں۔“ ٹی وی چینل اس کی مرضی کا لگا رہے گا۔ بڑے بہن بھائی کچھ اور نہ دیکھیں۔

ایک جانب وہ شوہر کو بچوں کی تربیت نہ کرنے کا الزام دیتی تو دوسری جانب جب وہ بچوں کو کچھ سمجھانا چاہتا تو اسے اعتراض ہوتا کہ آپ اونچا بولتے ہیں۔ اس کے اونچے بولنے کی سزا بھی بیٹے کو ملتی۔ اسے سمجھ نہیں پاتا تھا کہ وہ کرے تو کیا کرے؟ لوٹ جانے کو اس کا جی نہیں چاہتا اور ایسے حالات میں رہنا بھی کیا رہنا جہاں میاں بیوی اجنبی بن جائیں۔ اس نے اس کے کینے کو کم کرنے کی خاطر، اس سے کئی بار بات کرنے کی کوشش کی مگر اس کی رٹ یہی ہوتی کہ مجھے کچھ نہیں سننا۔ میرا کام کھانا پکا دینا ہے بس، اس کے علاوہ مجھ سے کوئی امید مت رکھیں۔ کھانا ہو تو نکالیں، گرم کریں اور کھا لیں۔

امید نہ رکھنے کی بات تب کہی جب اس نے کہا کہ میرا ایک بٹن تو شاید مضبوط کر دیا مگر یہ ایک بٹن جھول رہا ہے۔ امید نہ رکھنے کا کہہ کر ساتھ ہی کہا یہ پڑے ہیں سوئیاں دھاگے۔ اس نے کہا ”کمینگی کی بھی حد ہوتی ہے،“ کون ہے کمینہ، گریبان میں جھانک لیں، جب اس نے یہ سنا تو فوراً نماز کی نیت باندھ لی۔ نماز پڑھتے سوچا کیا کہ اب افسانے ہی رہ گئے سنانے کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments