پاکستان کی ترقی کے لئے سچ بولنے کی ضرورت


قرنوں سے ریاستی، سیاسی اور علمی تجربات تمام انسانوں کی میراث ہیں، اپنا موقف رکھنے سے پہلے میں ایک مثال سے ابتدا کرتا ہوں۔ دودھ سے دہی بنتا ہے، دہی سے مکھن اور مکھن سے گھی بنتا ہے یعنی گھی دودھ کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ آپ گھی کو ٹھوس کر لیں یا مائع اس کے معیار پہ کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ جب دودھ ہی خالص نہ ہو تواس کی کوئی بھی شکل خالص کہاں ہو سکتی ہے؟ خالص گھی کے حصول کے لئے آپ کو خاص دودھ کی طرف جانا ہو گا۔ ریاست معاشرے کا عکس ہوتی ہے، جیسا معاشرہ ویسے ہی ریاستی ادارے اور معاشرے کو اس نہج پہ پہنچانا یک دم نہیں ہوتا، باقاعدہ منصوبہ بندی سے بتدریج ہوتا ہے۔

دو مذہبی نظریے کے نام پہ جس طرح برصغیر کو ذبح کیا گیا، نہ کبھی اس کا لہو رکے گا اور نہ کبھی یہ زخم بھرے گا۔

برصغیر پاک وہند کے مسائل ان کے فرقہ وارانہ تشخص اور بنیادوں میں پنہاں ہے۔ گاندھی کی اشک شوئی اور جناح کی گیارہ اگست والی تقریر، سرحدوں کے دونوں اطراف قتل عام پہ مٹی ڈالنے کے مترادف تھی مگر وقت ان کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔

مسلم لیگ سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ ان کا مدعا واضح تھا،  گانگریس نے تقسیم قبول کر کے اپنے تشخص پہ ہندتوا کی مہر لگا دی۔ حالانکہ موجودہ پاکستان کی ایک اکائی خیبر پختونخوا (شمال مغربی سرحدی صوبہ) نے انتخابات میں دوبارہ کانگرس پر بھرپور اعتماد کیا تھا۔ تقسیم کے وقت بھی اس اکائی میں کانگرس کی حکومت تھی۔

بھارت کی خوش نصیبی کہ اس کے پاس نہرو جیسی زیرک قیادت موجود تھی جس نے نہایت عقل مندی سے ریاست کی سمت کا تعین کیا، ہمارے پاس لیاقت علی خان جیسی فرقہ پرست قیادت تھی جس نے قرارداد مقاصد کو دستور کی بنیاد قراردے کر حسرت موہانی کو بھی چیخنے پہ مجبور کر دیا۔ اس نے کہا کہ ”اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حاکمیت خدا کی ہے مگر آپ کن لوگوں کو سپرد کر رہے ہیں جو اپنی گواہی ایک وقت کے کھانے پہ بیچ دیتے ہیں۔“

بعد میں اس ’کار خیر‘ میں بھٹو نے اپنا حصہ ڈالا۔

سب سے زیادہ تقصان ریاستی اداروں اور سماج کو جنرل ضیاء نے دیا۔ کیوں کہ انھوں نے مذہب کے ایک مخصوص تصور کو اداروں اور معاشرے میں انجیکٹ کیا۔ اس برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے بھی صدیاں چاہئیں۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کا دانشور بھی کنفیوزڈ ہے یعنی انٹلیکچول کلیرٹی نہیں ہے۔ ہر معاشرے میں ویلیوز بھی ہوتی ہیں اور evils بھی، دانشوروں نے evils کی نشان دہی کر کے ریاستی تعاون سے اس کا قلع قمع کرنا ہوتا ہے اور ویلیوز کو پروموٹ کرنا ہوتا ہے۔ خون بہنا اور بہانا ہر معاشرے میں نہایت برا سمجھا جاتا ہے، مگر پاکستان میں لسانی اور مذہبی اقلیتوں اور پڑوس میں کوئی خونریز کارروائی ہوتی تو سب پھولے نہیں سماتے۔

پچھلے دنوں وفاقی وزیر شفقت محمود نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے نوید سنائی کہ مدارس والے انگریزی کا نصاب مان گئے ہیں۔ جناب والا! بات انگریزی کی نہیں ہے ، بات اس فرقہ وارانہ مواد اور نصاب کی ہے جو بچوں کو مذہب کے نام پہ پڑھایا جاتا ہے۔

میرا موقف ہے کہ پاکستان میں جتنی مساجد ہیں وہ سب مدارس ہیں۔ ریاست نے اہل حدیث اور دیوبند کو وفاق المدارس اور اہل تشیع اور بریلوی کو تنظیم المدارس کے نام سے با اختیار بورڈ دیے ہیں، جن میں وہ اپنی مرضی کے نصاب پڑھاتے ہیں، ان مدارس سے فارغ ہونے والے بچے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور یہ سب کچھ ریاستی سرپرستی میں ہو رہا ہے آپ ان کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تحت کر دیں۔ ان کا ایک ہی نصاب مرتب کر دیں، آپ کالجوں اور یونیورسٹیز میں جدید تھیولوجی کے شعبے قائم کریں۔ بڑے مدارس کو یونیورسٹی کا درجہ اور چھوٹے مدارس کو کالجوں اور سکولز کا درجہ دیں مگر ان میں نصاب سرکاری ہو جس طرح باقی پرائیویٹ یونیورسٹیز اور کالجوں میں ہوتا ہے۔

حکومت نے عربی زبان لازمی کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مذہب اور عربی سے کسی کو کوئی مخاصمت نہیں مگر پاکستان میں مذہبی شعور اور عصری شعور میں بہت فاصلہ ہے جب تک آپ مذہبی شعور کو عصری شعور کی سطح پہ لے کر نہیں آئیں گے اس وقت تک یہ فکری بحران حل نہیں ہو سکتا۔

انقلاب فرانس کے بعد یورپ جس عمرانی تصور سے فیض یاب ہوا، ہمیں سنجیدگی سے اس پہ غور کرنا چاہیے کیوں کہ جدید ریاست کے تین بڑے کارنامے: جدید ثقافت، جدید فلسفہ، جدید سائنسز، جن کے پیچھے ان کا پورا معاشی ڈھانچہ کھڑا ہے، فرد کی سطح پہ اگر کوئی غیر فرقہ وارانہ تشخص رکھتا ہے تو وہ لبرل کہلاتا ہے اور سیکولر کا ترجمہ میں ’ہمہ دینیت‘ کرتا ہوں۔ ان سب کی بنیاد  ایتھیزم ہے جس نے بتدریج مذاہب عالم کو مدافعانہ پوزیشن پر کھڑا کیا ہے۔ آپ ان کے ساتھ اعلان جنگ کر کے ہرگز ہرگز مادی کامیابیاں حاصل نہیں کر سکتے ، ہمیں ٹھنڈے دل سے اور پوری سنجیدگی سے اچھے مستقبل کی داغ بیل ڈالنے کے لئے مثبت اقدام اٹھانے ہوں گے ۔

بریخت کے ڈرامہ ”گیلیلیو“ میں جب ساتھی سائنس دان گیلیلیو کو سمجھاتا ہے کہ ”سچ تو وہی ہے جو ہے، آپ خاموش رہیں“ تو گیلیلیو جواب دیتا ہے کہ ”سچائی کے پاؤں نہیں ہوتے، سچائی کو جتنا دھکیلیں گے سچائی اتنی ہی آگے جائے گی۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments