اب فصلیں آپ کے کنٹرول میں ہوں گی


ضرورت ایجاد کی ماں ہے، ایسا محاورہ ہے جسے ان دنوں میں رٹا لگایا تھا جب ایجاد کے معنی بھی معلوم نہیں تھے اور کئی دنوں تک یہ سوچتے رہے کہ یہ لفط ماں ہی ہے یا مان ہے۔ خیر یہ تو ایک ضمنی بات ہے البتہ ضمنی الیکشن کی بات بالکل نہیں ہے۔

ارتقاء ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے حیوانات و نباتات نے اپنے آپ کو موجودہ ماحول میں زندہ رکھنے کے لیے اپنے طریقہ ہائے کار میں تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں، یہ تبدیلیاں وقتی بھی ہوتی ہیں اور مستقل بھی۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ پودے اور دوسرے جانور تو اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالنے میں ہلکان رہے لیکن انسان ایک ایسا حیوان ہے جس نے نہ صرف اپنے آپ میں خاص تبدیلیاں پیدا کیں بلکہ دوسری مخلوقات کو بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کے طریقے سیکھے اور ان کو اپلائی کر کے ارتقاء کے ایسے مدارج طے کیے کہ کوئی مخلوق اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ رہی۔ مثلاً گندم کو دیکھ لو، پوری دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اس کی پیداوار نہ ہو رہی ہو، حالانکہ ابتدائی طور پر یہ ایشیا کے ایک محدود علاقے میں ہوتی تھی، تھوڑی سی پیداوار دیتی تھی۔

انسان نے کیا کیا؟ ایسے جینز دریافت کیے جو اس کے قد کو چھوٹا رکھتے تھے، اس نے یہ جینز گندم میں منتقل کر کے اس کی ایسی ویرائیٹیز بنا لیں جن میں گندم کا قد محدود رہتا ہے اور وہ اپنے زیادہ سے زیادہ ریسورسز اناج پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے اور چھوٹا قد ہونے کی وجہ سے اپنے وزن سے گرتی بھی نہیں اور پیداوار میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔

اب کچھ ایسے لوگ ہیں جو یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اصل میں انسان نے گندم کو نہیں بلکہ گندم نے انسان کو استعمال کیا ہے لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں، اگر دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے اپنے فائدے کے لیے استعمال کر لیا ہے تو بھی کوئی بات نہیں لیکن بات کوشش کی ہے کہ کس نے زیادہ کی ہے حالانکہ فائدہ دونوں کا ہوا ہے، جب فائدہ دونوں کا ہے تو کیا برائی ہے۔ کس نے کس کو استعمال کیا ، بات ہی بے معنی ہو جاتی ہے۔ جون ایلیا یاد آتے ہیں۔

اک طرف میں ہوں، اک طرف تم ہو
جانے کس نے کسے خراب کیا

پودوں کو اپنے فائدے کے لیے ان میں اپنی مرضی کے جینز منتقل کرنے کا طریقہ ہے تو بہت کارآمد لیکن اس کے مسائل بھی بہت زیادہ ہیں، یعنی پودوں میں یہ جینز منتقل کر کے نئی انواع بنانے کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے جو سالوں پر محیط ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے ، جب آپ ایسی ویرائیٹیز تیار کریں تو ان کی ضرورت ہی نہ رہے۔ مثال کے طور پر آپ نے ایک ایسی ویرائیٹی بنائی جو خشک سالی کو زیادہ برداشت کر لیتی ہے اور پانی کی کمی کے دوران دوسری ویرائیٹی کی نسبت زیادہ پیداوار دیتی ہے لیکن ماحول میں تبدیلی کی وجہ سے بارشیں زیادہ ہو جائیں اور خشک سالی آئے ہی نہ تو دوسری ویرائیٹی جو زیادہ پانی استعمال کرتی ہے اس کی پیداوار بڑھ جائے گی، کیونکہ اگر پودا زیادہ پانی استعمال کرے گا تو زیادہ سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سورج کی روشنی کو استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ اناج پیدا کرے گا ، لیکن جس پودے کے جینز میں ہی کم پانی کا استعمال رچا بسا ہو وہ تو اس وافر پانی کو استعمال نہیں کر سکے گا اور کم پیداوار دے گا۔

ان سارے حالات کو دیکھتے ہوئے سائنس دانوں نے پودوں کو استعمال کرنے کے نئے طریقے ایجاد کیے ہیں، کون اتنے سال لگا کر جینز منتقل کر کے نئی ویرائیٹی بنائے۔ جرمنی اور انگلستان کے سائنس دانوں نے اب وائرس کے آر این اے کو استعمال کرتے ہوئے ایسے سپرے بنانے میں کامیابی کا اعلان کیا ہے جس سے آپ پودوں میں جس وقت چاہیں اپنے فائدے کی تبدیلیاں اجاگر کر سکتے ہیں، اور اس طرح آپ کو پودے کے ڈی این اے سے چھیڑ چھاڑ {جی ایم او} بھی نہیں کرنی پڑتی اور یہ خصوصیت وقتی ضرورت کے تحت اجاگر ہو گی اور جیسے ہی اس کی ضرورت ختم ہوئی ،  یہ خصوصیت بھی اپنی نیند سو جائے گی۔

مثال کے طور پر گندم کے پودے جب دنوں کی لمبائی اور روشنی کی مقدار میں ایک خاص حد تک اضافہ محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنے پتوں کو ایک خاص قسم کے ہارمونز سے سگنل دیتے ہیں کہ اب سٹے نکالنے کا وقت ہوا جاتا ہے اور پودے اپنے برگ کو بر میں تبدیل کرنے کے عمل کا آغاز کر دیتے ہیں۔ سائنس دانوں نے آر این اے ٹرانسفیکشن ٹیکنالوجی سے ایسا محلول تیار کیا ہے جس کو پودوں پر سپرے کرنے سے پودے میں اس مخصوص ہارمون کی پیداوار بڑھ جاتی ہے اور آپ جب چاہیں پودوں کو پھول پیدا کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ ادھر آپ نے سپرے کیا ادھر پودوں پر پھول آنا شروع ہو جائیں گے اور نخل دار پر سر منصور کے بار کے لیے موسم کی محتاجی بھی نہیں رہے گی۔

بہت ساری فصلیں ایسی ہوتی ہیں جن سے پھل لینے کے لیے ان کو کچھ عرصے کے لیے ٹھنڈے ماحول میں رکھنا پڑتا ہے جسے ورنیلائیزیشن کہتے ہیں، اب آپ کو اس کی بھی ضرورت نہیں رہے گی ، بس آپ نے سپرے کیا اور پودا ایسا محسوس کرے گا جیسے ٹھندے علاقوں کی سیر کر آیا ہو۔ کتنی شاندار ٹیکنالوجی ہے، آپ کو یقین نہیں آ رہا تو درج ذیل لنک کو کھول کر دیکھیں اور اپنے دماغ کو خیرہ کریں۔

https://www.nature.com/articles/s41477-021-00851-y


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments