عورت مرد کے آئینے میں


عرصہ دراز سے شور برپا ہے کہ انسان حیوان ناطق ہے۔ میں جب اس کلیے سے متعارف ہوئی پہلی مرتبہ تو ”انسان، حیوان، اور ناطق“ کے الفاظ نے مجھے متعجب کر دیا کہ اگر انسان ہے تو حیوان، اور حیوان ہے تو نطق۔  یاللعجب! ۔ گو کہ زیادہ دشواری اس میں انسان کا ہونا تھا، جسے اپنے چاروں اطراف میں نظر دوڑانے پر، گھر سے معاشرے اور معاشرے سے دنیا میں مروجہ معاشرے میں کہیں نہیں پایا۔

گھر میں بھی مرد اور عورت کی تخصیص تھی اور معاشرہ تو استوار ہی مرد کی ٹھہرائی ہوئی ترجیحات کی تشریحات پر مبنی تھا، جس میں مرد حاکم اعلیٰ اور عورت ناقص العقل تھی۔ جس سے سمجھ و فہم کی کوئی امید حماقت کا اعلیٰ درجے کا مظاہرہ اور ٹیڑھی پسلی کو سیدھا کرنا تھا لہٰذا سمجھدار مرد کو عورت کو کم عقلی کا فائدہ دیتے ہوئے گزارا کرنا چاہیے یا اسے اپنے تابع رکھنے کے لیے جو وہ صحیح سمجھے کر گزرنا چاہیے۔ اب وہ خواہ جسمانی یا نفسیاتی یا معاشی تشدد ہو یا ان سب کا مجموعہ، بہرطور یہی ایک حل ہے اس مخلوق سے کچھ فائدہ حاصل کرنے کا ، بصورت دیگر ”پیاز“ کی تہوں کے یکے بعد دیگرے اترنے سے پانی اپنی ہی آنکھوں میں آتا ہے۔

عورت کی کوئی بھی ’تعریف‘ جو میرے سامنے آئی وہ مرد کے آئینے کا عکس تھی۔ مجھے اس کی ’انفرادی تعریف‘ بحیثیت انسان کے متعین کردہ کہیں نظر نہ آئی۔ لہٰذا انسان تو پھر مرد ٹھہرا ، حیوان تو وہ خود کو متعین کر ہی رہا ہے ، نطق کو وہ صرف بطور امتیاز رکھتا ہے کہ بہرطور احساس کمتری اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو حیوان کا حاکم تسلیم کرے۔

زندگی کے اس کائنات کے پردے پر ظاہر ہونے کے طویل عرصے کے بعد اس پر انسان نمودار ہوتا ہے۔ اس کی اولین سطح تو وہی جانور ہی کی رہتی ہے جہاں برابری کی بنیاد پر مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ، کیونکہ اسے ہنوز اپنے اور گرد و پیش کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ المیہ قانون فطرت کے اس حسین پہلو کا ہے جو مختلف صلاحیتوں اور ان کی حصول کی تقسیم کو متعین کرتا ہے تاکہ اختلاف و یکسانیت کے امتزاج سے تصویر کائنات کا حسن و رعنائی تناسب سے قائم رہے۔

یہ قانون تفاوت چند انسانوں کی علم حاصل کرنے کی صلاحیت اور ان افراد کو اس علم کی معلومات کو اپنے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کے ماتحت دیگر افراد کو حاصل کرنے کی جو اہلیت دیتا ہے ، اس کے نتیجے میں انسان کا وجود ہی برقرار نہیں رہتا، محض حیوان ناطق ہی رہ جاتا ہے۔ جہاں نطق ایک منجمند صلاحیت کے طور پر ہی رہ جاتا ہے، وہ ابھرنے ہی نہیں پاتا۔

غرض یہ کہ حیوان ناطق بھانپ لیتا ہے کہ نہ صرف اس کی صنف بلکہ صنف مخالف کو اگر دام فریب میں الجھایا جائے ، اس طرح کہ اس کا تشخص ہی متعین نہ ہو تو وہ گو نا گوں وسائل کا ”مالک“ بن جائے گا۔ یہ امر اسے داؤ پیچ سکھاتا ہے اس دام فریب کے جہاں وہ اپنی صنف کو ”کچھ خاص“ قرار دیتا ہے اور ”صنف مخالف“ کو کمتر ۔

اس بنیاد پر وہ  اپنی تہذیب کا پہلا تمدن تعمیر کرتا ہے ، جس میں وہ قانون بناتا ہے اور درجات مقرر کرتا ہے جس کی اساس وہ انسان کے ”محسوسات کا خوگر“ ہونے کی پابندی کو رکھتے ہوئے مختلف مظاہر فطرت اور قوتوں کو معبود ٹھہرا کر خود ان کا مجاور بن جاتا ہے اور دیگر افراد اس کی تعظیم کے پابند کہ اب وہ محافظ ہے ان خداؤں کا جن کی قدرت انسان کو ڈراتی ہے۔ خواہ وہ طوفان ہو یا قحط ، دونوں صورتوں میں انسان بے چارہ مجبور اور بے بس ہے کہ ان قوتوں کو راضی رکھنے کے لئے ان کے نمائندہ افراد کو خود سے بلند گردانے اور ان کے ٹھہرائے ہوئے خود ساختہ پیمانوں کا پابند رہے۔

اس پابند سلاسل حیات کے روح رواں کا دوسرا شکار اس کی صنف مخالف بنتی ہے اور وہ عورت کی تعریف اور اس کا کردار متعین کرتا ہے۔ جہاں وہ اس کے لائے ہوئے سامان کو محفوظ رکھے یا اس کے ساتھ وہ سامان جمع کرنے میں محض ایک مزدور کی حیثیت سے ساتھ رہے۔

یہ عورت کی پہلی پہچان ٹھہری  اُس پہلے تمدن میں ، جہاں انسان ابھی زراعت سے نابلد تھا۔

اظہار فاطمہ عباسی
Latest posts by اظہار فاطمہ عباسی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments