علی سد پارہ! تیرے بن ویران ہیں یہ راستے


محبت بھی ایک عجیب و غریب احساس ہے۔ کب کہاں کس سے ہو جائے پتہ ہی نہیں چلتا۔ محمد علی سدپارہ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھا۔ جسے پہاڑوں سے بھر پور عشق تھا۔ یوں تو محمد علی سدپارہ نے دنیا کی آٹھ بلند ترین چوٹیاں سر کر رکھی تھیں۔ سب پاکستانیوں کو اس پر فخر تھا۔ لیکن اس دفعہ اس کو دیکھے بغیر محبت بھی ہو گئی تھی۔ عجب بے چین آتما تھی فطرت کے بالکل ہمرکاب ایک جفاکش سر پھری روح۔ پہاڑوں کی خاموشیوں سے ہمکلام ہونے کو انتہائی بلند چوٹیوں کے آخری مقام تک جا پہنچتا تھا۔

پربتوں سے اس کی لافانی محبت کی داد بھلا کس طرح دی جا سکتی ہے۔ وہ تو پیدا ہی زمین سے تین ہزار فٹ کی بلند و بالا چوٹیوں کے دامن میں ہوا تھا۔ مجھے ذاتی طور پر کوہ پیمائی کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔ میں تو ان ڈرپوک لوگوں میں سے ہوں جن کو اسلام آباد کے دامن کوہ پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے سے گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔ مری کے کشمیر پوائنٹ پر کسی اونچے ٹیرس کے سے نیچے جھانکتے ہوئے خوف کی جھرجھریاں میرے بدن میں دوڑنے لگتی ہیں۔

میرے جیسے بزدل کو بھلا کیسے معلوم ہو گا کہ دریائے بولان، سوات اور کالام کے شور مچاتے ہوئے دریا کے ٹھنڈے پانیوں سے پیاس کیسے بجھائی جاتی ہے۔ ویسے میں کالام کے شوریدہ دریا کے یخ پانیوں میں پاؤں ڈال کر بیٹھی ضرور ہوں۔ چیڑ اور دیودار کے جنگلوں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ مرغ کڑاہیاں بھی پکا کر کھائی ہیں۔ مری چونکہ سب کی پہنچ میں ہے اور قدرت نے اپنی رحمت سے مری کے دامن میں ایک کٹیا بھی دے رکھی ہے۔ اکثر وہاں چلتے ہوئے صنوبر اور چیڑ کے درختوں کی بہتات اور شادابی کی خوشبو بھی اپنے اندر اتاری ہے۔

وہیں کہیں بڑے سے پتھر پر بیٹھ کر قدرتی نظاروں کو اپنے رنگوں سے کینوس پر اتارنے کے فن کی لذت بھی اٹھائی ہے۔ خزاں میں گرتے، اڑتے، چر چراتے پتوں کی آوازوں سے پیدا ہوتی تال دار موسیقی کا لطف بھی لیا ہے۔ پہاڑوں میں ویسے کچھ عجیب چیز ہے ضرور جو ایک دفعہ پہاڑوں پر گیا ، پہاڑ اس کو دوبارہ بلاتے ضرور ہیں۔ علی سدپارہ تو تھا ہی پہاڑوں کا مضبوط بیٹا۔ وقت سے پہلے ہی چہرے پر پڑی گہری لکیریں بالکل پربتوں کے پتھروں جیسی پرعزم لگتی تھیں۔

شاید یہ اس کے ان خوابوں کی لکیریں تھیں جنھیں وہ جاگتے میں بھی دیکھا کرتا تھا۔ پاکستان کی محبت خون کی طرح علی سدپارہ کی رگوں میں دوڑتی تھی۔ جب وہ یہ کہا کرتا تھا کہ دنیا کی بلند اور خوب صورت ترین پانچ بڑی چوٹیاں میرے پاکستان میں واقع ہیں۔ تب اس کے پرجوش لہجے کی مضبوطی اور اس کی آنکھوں میں چمکتے ہوئے جگنوؤں کی لاٹیں دیکھی جا سکتی تھیں۔

علی سدپارہ بلتستان کی وادی کے نواحی گاؤں سدپارہ کا رہنے والا تھا۔ اس کی وادی چاندی میں بسی ہوئی سحر طراز وادی ہے۔ اس کی وادی کے دائیں بائیں سر بہ فلک شاداب پہاڑ ہیں جن کی چوٹیاں اکثر برف سے ڈھکی رہتی ہیں۔ میں چشم تصور سے دیکھتی ہوں کہ محمد علی سدپارہ کی وادی کی برفانی ہوائیں ضرور اس کی روح سے سرگوشیاں کرتی ہوں گی۔ وادی میں جھیلوں میں سفید اور کہیں کہیں سبز برف کے بڑے بڑے تودے تیرتے ہیں۔ کہیں کسی کٹاؤ سے جھیل کا پانی آبشاروں کی شکل میں گرتا ہے۔ محمد علی سدپارہ کی پربتوں سے بے پایاں محبت اور وطن سے لافانی عشق نے اسے آخر کار امر کر دیا۔

بلندیوں پر چوٹیوں کو سر کرتے ہوئے کئی مرتبہ محمد علی سدپارہ کو برف کے سیلابی ریلوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 2012 میں جب اس نے نانگا پربت کو سردیوں میں سر کرنے کی ٹھانی تو تب اسے بیچ راہ سے ہی واپس آنا پڑا۔ وہ نانگا پربت سر کرنے جا رہا تھا ، اس کے ساتھ کچھ بدیسی کوہ پیما تھے۔ محمد علی سدپارہ ایسا جنونی تھا کہ وہ سب لوگ راستہ بھول گئے تو علی سدپارہ نے ان بدیسیوں سے کہا کہ آپ لوگ ادھر ہی بیس کیمپ میں انتظار کریں میں رستہ تلاش کر کے آتا ہوں۔

اس کا کہنا تھا کہ وہ رات کو تین بجے نکلا اور برف کی وجہ سے اس کا سر بھی سن ہو چکا تھا، پاؤں کی انگلیاں ماؤف ہو چکی تھیں۔ میں راستہ بھول چکا تھا لیکن میں نے ایک اور نیا راستہ کھوج نکالا جس پر کم وقت میں ہم چوٹی کی بلندی پر پہنچ سکتے تھے۔ سردیوں میں پہاڑ پر سورج تقریباً صبح دس بجے تک نکلتا ہے۔ اس روز بھی جب علی سد پارہ پر دن کے دس بجے سورج کی پہلی کرنیں پڑیں تو وہ چوٹی پر پہنچ چکا تھا۔ اس کو یاد آیا کہ وہ رات تین بجے سے راستے کی کھوج میں نکلا تھا تو شاید کہیں پربتوں کے گیت گاتے پتھروں میں کھو گیا ہو گا۔

چٹانوں میں بھی ردھم یعنی ایک روانی ہوتی ہے جس میں وہ بہتا چلا گیا۔ خیر اس کو اچانک جب اپنے ساتھیوں کا خیال آیا تو وہ واپس اپنے کیمپ میں پہنچا تو ان کو لے کر دوبارہ بلندی کی طرف چل پڑا کہ وہ اپنے مہمانوں کی دل سے قدر کرتا تھا۔ اسے ان بدیسیوں کو فخریہ طور پر جتانا تھا کہ دیکھو میرا وطن دنیا میں سب سے حسین ہے۔ میں یہاں کا بے تاج بادشاہ ہوں۔ محمد علی سدپارہ اپنی ماں کا وہ گیارہواں اور سب سے چھوٹا بچہ تھا جس کے آٹھ بہن بھائی بچپن کی وادی کو پھلانگنے سے پہلے ہی اس دنیا سے چلے گئے۔

علی سدپارہ ابتدا میں دوسرے دیسوں سے آئے ہوئے کوہ پیماؤں کے ساتھ پوٹر کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس کے والدین اور گھر والے اس کے اسی کام سے خوش تھے۔ لیکن اس کی بے قرار روح کو کہاں چین تھا۔ اسے تو دنیا بھر میں ایک کوہ پیما کے طور پر خود کو منوانا تھا۔ اسے دولت کوٹھیوں اور گاڑیوں کی ہرگز تمنا نہیں تھی۔ اسے تو بس پہاڑوں سے عشق تھا۔ اس کا تعلق مفلسی سے تھا لیکن تنگ دستی اسے روک نہیں سکی۔ اس کی خواب دیکھتی آنکھوں نے دنیا کی 14 بڑی چوٹیوں میں سے 8 بلند ترین چوٹیوں کو سر کر لیا۔

رواں سال کے پانچ فروری کو وہ اپنے دو ساتھیوں آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کا جان پیبلو موہر کے ساتھ جان لیوا چوٹی کے ٹو کو سردیوں میں سر کرنے کے دوران کہیں گم ہو گیا۔ علی سدپارہ جیسے جنونی ہی دنیا میں نام بناتے ہیں۔ وہ ایک ایسا افسانوی کردار ہے جو خود وہیں کہیں چوٹی کی بلندی پر ہی رہ گیا۔ علی سدپارہ کہتا تھا کہ اگر سردیوں میں ہمیں پہاڑوں پر کوئی جگہ ملے تو یوں لگتا ہے کہ ہمیں اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیکس میں جگہ مل گئی۔

علی سد پارہ کی موت نے یقیناً ہر پاکستانی کے دل کو اداس کر دیا۔ علی سد پارہ کے بیٹے مظاہر حسین کا کہنا ہے کہ ہمارے والد ہر وقت مسکراتے رہتے تھے۔ لیکن وہ ہمیں زیادہ کوہ پیمائی کی طرف راغب نہیں کرتے تھے بلکہ تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کیا کرتے۔ لیکن بڑا بھائی ساجد علی سد پارہ بالکل بابا جیسا ہے۔ اسے بھی پہاڑوں سے ویسا ہی عشق ہے جو بابا کو تھا۔ علی سد پارہ کی پہلی تقرری سیاچن گلیشئر پر فوج کے ساتھ قلی کی حیثیت سے جانا تھا۔

علی سد پارہ کوہ پیمائی کے وسائل کی کمی سے ہمیشہ دل گرفتہ رہتا تھا۔ محمد علی سد پارہ کوئی عام کوہ پیمانہ تھا۔ دوسروں کی مدد کرنے والا مثالی انسان تھا۔ علی سد پارہ تم پہاڑوں سے سچی محبت کرتے تھے۔ جانتے تھے کہ سنگلاخ مسافت جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ تم جانتے تھے کہ پہاڑوں پر جمی برف شاید موت کی وادی قرار پائے۔

وہ جانتا تھا کہ کوہ پیما کا ایک غلط قدم اسے موت کی وادی میں لے جاسکتا ہے۔ علی سدپارہ چاہتا تھا پاکستان میں بہترین ریسکیو ٹیمیں اور کوہ پیمائی کے لیے تربیتی سکول ہونے چاہئیں۔ وہ پاکستان کا پہلا پہاڑوں کا بے تاج بادشاہ تھا جس نے پانچ دفعہ سردیوں میں بلند چوٹیاں سر کیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments