وزیراعظم کے علاوہ حکومت میں کئی چہرے بدل سکتے ہیں


اس بے رحم وبا نے تو دنیا ہی بدل دی ہے۔ آنے والے دنوں کا نقشہ کیا ہو گا اس پر قیاس آرائی تو ہو سکتی ہے۔ مگر ابھی تک اتنی تحقیق نہیں ہو سکی کہ بدلنے کے بعد دنیا کیسی اور کن کی ہو گی۔ اس وبا کا ہمارے زرد پتوں کے بن پر کم اثر ہے۔ مگر دوسرے اثرات اتنے زیادہ ہیں کہ ملک پر کسی آسیب کا سایہ لگتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہمارے وطن کے راکھیل ادارے المعروف آئی ایم ایف نے پاکستان پر اعتماد کا اظہار کیا اور مزید نوازشات سے نوازنے کا وچن بھی دے دیا ہے۔

کیا وقت تھا وزیراعظم عمران خان آئی ایم ایف کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے تھے اور جب ان کو اپنے مہربانوں کی طرف سے پاکستان میں حکومت کرنے کی اجازت ملی تو انہوں نے اسد عمر کو ملک کی معیشت کے حوالہ سے کچھ کرنے کا عندیہ دیا اور اسد عمر نے کمر کس کر بیرون ملک کا قصد کیا اور پاکستان کی بین الاقوامی امداد کرنے والے اداروں سے بات چیت شروع کی اور اپنا موقف واضح کیا۔ اسد عمر نے یہ سارا کام سنجیدگی سے کیا اور منصوبہ بندی کا آغاز کیا۔ ان کی آئی ایم ایف کے ماہرین سے بھی بات چیت ہوئی۔ وہ بظاہر اسد عمر سے متفق تھے۔

اسد عمر نے کپتان عمران خاں کو مکمل اعتماد میں لیا ہوا تھا۔ مگر ابتدائی دنوں میں حالات کچھ ایسے ہو گئے جن سے اسد عمر کو بہت مایوسی ہوئی۔ ان کو اندازہ ہو گیا کہ مقروض پاکستان ترقی اور تبدیلی کے لئے آزاد اور خود مختار نہیں ہے۔ اسد عمر نے بدگمانی سے بچنے کے لئے وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور عملی سیاست سے خود ساختہ کنارہ کشی کر لی۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خاں کو ملکی نوکر شاہی کے پردھانوں اور حساس اداروں نے مشاورت دی کہ اس گمبھیر صورتحال میں بین الاقوامی اداروں سے بات چیت کر کے پاکستان کے لئے آسان شرائط پر خصوصی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں جو ملکی قرضوں کی واپسی کے لئے منصوبہ بندی کر سکیں اور ایسے اقدامات کا سوچا جائے جو بین الاقوامی اداروں کے لئے بھی قابل قبول ہوں اور پھر ایک ماہر خصوصی جو ماضی میں بھی پاکستان کے لئے کام کر چکے تھے جو بیک وقت حزب اختلاف کے لئے بھی قابل قبول تھے ان کی خدمات سے استفادہ کا سوچا گیا اور حساس اداروں کی کلیرنس کے بعد وہ کابینہ کا حصہ بنے۔

پاکستان کے وزیر خزانہ جناب حفیظ شیخ بہت خوش نصیب شخص ہیں۔ ان پر ملکی ادارے بھی اعتماد کرتے ہیں اور بین الاقوامی ادارے بھی ان کے مخلص ہیں۔ جناب حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کے ساتھ کچھ شعبوں میں کام کیا ہوا تھا اور ان کو مکمل اندازہ تھا کہ پاکستان کی معیشت کو دباؤ سے نکالنے کے لئے فوری طور پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ جس سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکے اور غیر ملکی قرضوں کی واپسی کا آسان حل بھی سوچا جا سکے۔

سنہ 2018 ء کے انتخابات کے بعد ہمارے تمام بڑے سیاسی نیتا پاکستان کی جمہوریت سے بدگمان تھے اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ تعاون پر تیار نہ ہوئے ایک طرف وہ پاکستان سے باہر اپنے دوستوں کی امداد کے منتظر تھے اور قومی اسمبلی میں بھی قانون سازی میں تعاون سے گریز کرتے تھے۔ اس وقت امریکہ میں ٹرمپ کا طوطی بول رہا تھا اور ٹرمپ بھی امریکہ کو بچانے اور منوانے کے مشن پر سرگرم عمل تھا اور امریکی دوستوں کی پاکستان پر توجہ کم تھی۔

ان حالات میں بھارت ایک ایسا ملک تھا جو پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کر رہا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کا خیال تھا کہ امریکی دوستوں کی مدد سے بھارت کے ساتھ مفید بات چیت ہو سکے گی۔ مگر بھارتی اس معاملہ میں کچھ اور ہی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ چین ہمارا ہمسایہ اس صورتحال کو بڑی باریک بینی سے دیکھ رہا تھا۔ شروع کے دنوں میں سعودی عرب کے نئے حکمران پاکستان کے ساتھ تعاون پر تیار تھے۔ ان کے کچھ مطالبات تھے جن کے بارے میں ان کو یقین دہانی تو نہیں مگر وعدے ضرور کیے گئے تھے سابقہ امریکی صدر ٹرمپ کو عمران خان اس لئے پسند تھا کہ وہ اس کی بھاشا میں صاف گوئی سے بات کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے امریکی انتظامیہ کو ٹرمپ کو بتانے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ اس وقت کی امریکی افواج بھی بین الاقوامی طور پر بیرون ملک سرگرمیاں محدود کرنے پر توجہ دے رہی تھیں۔ ایسے میں چین سے وبا کا آغاز ہوا اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اس خوفناک وبا نے تمام دنیا کو باندھ کر رکھ دیا امریکہ کے صدر ٹرمپ نے کافی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ اس وقت اسرائیل کے بہت ہی زیر اثر تھے۔ سابق صدر ٹرمپ نے اسرائیل اور بھارت پر خصوصی نظر کرم تھی اور دونوں ملکوں کو بڑی اہمیت دی بھارت کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب چین کے ساتھ جنگی کیفیت ہوئی تو امریکہ نے وہ کردار ادا نہ کیا جس کی بھارتی افواج اور وزیراعظم مودی کو امید تھی۔ مگر اسرائیل نے امریکہ کی مدد سے مشرق وسطیٰ کو ضرور فتح کر لیا۔

پھر امریکی دباؤ کی وجہ سے سعودی عرب پاکستان سے دور ہوتا گیا پاکستان نے کوشش کی کہ اپنے دوستوں کو امتحان میں نہ ڈالا جائے۔ ایسے میں ملک میں جمہوریت کی وجہ سے بدانتظامی کا غلبہ رہا اور وزیراعظم عمران خان شدید مشکلات سے دوچار رہے مگر انہوں نے آئی ایم ایف سے بنا کر رکھی اور ملک کا نظام چلتا رہا۔ جمہوریت کی وجہ سے کرپشن کے معاملات پر مکمل کارروائی بھی نہ ہو سکی اور قانون کا بڑا پرچار ہوا مگر انصاف ہوتا نظر نہ آ سکا۔

حزب اختلاف کے لیڈر حضرات کوشش کرتے رہے کہ ایسے حالات ہو جائیں کہ وزیراعظم کو استعفا دینا پڑے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ وہ واحد کابینہ کے رکن تھے جو حزب اختلاف کے شر سے محفوظ رہے۔ اس وقت ملک میں سینیٹ کے انتخابات کا زور ہے۔ ایسے میں سرکار کی طرف سے حفیظ شیخ اس الیکشن میں امیدوار ہیں۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ ہمارے معاملات سے مایوس نہیں ہے اور نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کے ساتھ کچھ امیدیں اب بھی رکھتی ہے۔ مگر پاک چین تعلقات کے تناظر میں اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔

اب سینیٹ کے انتخابات کے بعد سیاسی صورتحال بدلنے جا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے علاوہ حکومت میں کئی چہرے بدل سکتے ہیں۔ عمران خان سے ملکی اداروں اور بیرون ملک دوستوں نے بہت سے کام لینے ہیں اور وقت کم ہے۔ عمران کے ساتھ کچھ روحانی لوگ بھی ہیں اور وہ عمران خان کو مدد بھی دے رہے ہیں کہ وہ ملک کو کسی محفوظ راہ پر ڈال دیں اس کا آغاز نئی قومی سرکار سے ہو گا۔ تو کون کس کے ساتھ ہے مگر دنیا کسی اور کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments