’رافعہ کا مافیا‘: ’پیار کا لفظ بولو تو لوگ ناراض ہو جاتے ہیں اس لیے میں محبت کا لفظ استعمال کرتی ہوں‘


رافیا

رافعہ کہتی ہیں کہ کشمیری سماج میں اب بھی پدرشاہی رویے موجود ہیں اور لڑکیاں مختلف شعبوں میں کام کرنے کے لیے آزاد تو ہیں لیکن جب وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں تو لوگ اُن پر تنقید کرتے ہیں

’کشمیر میں کُھلے عام پیار کا لفظ بولو تو لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔ مُجھے جب ریڈیو پر رِشتوں کے حوالے سے پیار کا ذکر کرنا پڑے تو میں پیار نہیں بلکہ محبت کا لفظ استعمال کرتی ہوں۔ مُجھے لگتا ہے کہ یہ پیار سے زیادہ مناسب ہے۔‘

یہ کہنا ہے کشمیر کی معروف ریڈیو جوکی (آر جے) رافعہ کا۔ 25 برس کی رافعہ نے صحافت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک نجی نشریاتی ادارے میں بطور آر جے کام کرنا شروع کیا۔

ریڈیو شوز کے دوران اپنی شوخ اور چُلبُلی باتوں کے لیے رافعہ کشمیری سامعین میں کافی مقبول ہیں تاہم سوشل میڈیا پر بعض حلقے اُن پر تنقید کرتے ہیں یہاں تک کہ اُنھیں کئی مرتبہ شدید ٹرولِنگ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

’ریڈیو پر تو کوئی شکل نہیں دیکھتا لیکن ہمیں سوشل میڈیا پر اپنے شوز کی ترویج کرنا پڑتی ہے۔ وہاں اکثر لوگ ہمیں سراہتے ہیں لیکن کچھ لوگ خواہ مخواہ کی تنقید کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے ضلع بڈگام سے میرے تعلق کو بھی مذاق بنا دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ گاوٴں والی اب باتیں کرنے لگی ہے لیکن میں اس سب پر دھیان نہیں دیتی۔‘

یہ بھی پڑھیے

عرفانہ زرگر جنھیں ’دا پیڈ وومن آف کشمیر‘ کہا جاتا ہے

کشمیری خاتون صحافی: ’پردہ کرتی ہوں مگر اس کا پرچار نہیں کرتی‘

’فیلڈ ورک میں عورتوں کو مردوں سے زیادہ منوانا پڑتا ہے‘

رافعہ کہتی ہیں کہ ریڈیو پر جو مرد آر جیز ہوتے ہیں وہ نہایت اعتماد کے ساتھ ہر طرح کے مشاہدات شیئر کرتے ہیں، سماجی رویوں پر طنز بھی کرتے ہیں اور رِشتوں میں پیار محبت کے بارے میں بھی اپنی رائے رکھتے ہیں۔

’افسوس ہے کہ یہی باتیں جب ایک لڑکی کرتی ہے تو اُسے کہا جاتا ہے کہ وہ بے حیائی پھیلاتی ہے، حد سے نکل گئی ہے، نوجوانوں کو بگاڑ رہی ہے وغیرہ۔‘

رافیا

رافعہ موسیقی کے ایک پروگرام کی میزبان ہیں، جس کا نام اُنھوں نے ’رافعہ کا مافیا‘ رکھا ہے

رافعہ کہتی ہیں کہ کشمیری سماج میں اب بھی پدرشاہی رویے موجود ہیں اور لڑکیاں مختلف شعبوں میں کام کرنے کے لیے آزاد تو ہیں لیکن جب وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں تو لوگ اُنھیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں ’براڈکاسٹنگ ایک تخلیقی کام ہے، اس میں فنکار کا ہر طرح کے خوف سے آزاد رہنا ضروری ہے لیکن جب میں مائیک پر ہوتی ہوں تو میرا دھیان بٹ جاتا ہے۔ مُجھے پھونک پھونک کر بولنا پڑتا ہے اور جب بھی رشتوں کی بات ہو اور میں کچھ کہہ دوں تو لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔‘

’ایسا بھی نہیں کہ پیار نہیں ہوتا، لوگ پیار بھی کرتے ہیں، بریک اپ بھی ہوتے ہیں، شادیاں بھی ہوتی ہیں، جوڑے ایک دوسرے کو ویلنٹائن ڈے پر تحفے بھی دیتے ہیں لیکن اگر میں مائیک پر اس سب کے بارے میں بات کروں تو میں ڈر جاتی ہوں۔ پیار کا لفظ بولتے ہی میں فوراً کہتی ہوں کہ ماں باپ کا پیار، بھائی بہن کا پیار، دوست کا پیار وغیرہ لیکن پھر بھی اکثر مُجھے ٹرول کیا جاتا ہے۔‘

لیکن رافعہ کہتی ہیں کہ وہ منفی ردعمل کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں۔ ’مُجھے معلوم ہے کہ میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نہایت دیانت داری اور خلوص کے ساتھ نبھا رہی ہوں، اسی لیے لوگوں کی بڑی تعداد میرے کام کو پسند بھی کرتی ہے۔‘

رافیا

ریڈیو شوز کے دوران اپنی شوخ اور چُلبُلی باتوں کے لیے رافیا کافی مقبول ہیں تاہم سوشل میڈیا پر انھیں کئی مرتبہ شدید ٹرولِنگ کا بھی سامنا کرنا پڑا

رافعہ موسیقی کے ایک پروگرام کی میزبان ہیں، جس کا نام اُنھوں نے ’رافیا کا مافیا‘ رکھا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’مُجھے سمجھ نہیں آتی کہ جو بات لڑکے نہایت آسانی سے کرتے ہیں اور اُن کی واہ واہ کی جاتی ہے، وہی بات اگر ہم کرتے ہیں تو ہمیں ناشائستہ کہا جاتا ہے۔ دراصل آج بھی ہمارے سماج پر مردوں کی ہی سوچ کا غلبہ ہے۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خواتین سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ فن و ثقافت کے شعبوں میں بھی نمایاں ہیں تاہم میڈیا اور تفریح کی صنعت سے وابستہ خواتین کا کہنا ہے کہ کشمیر آج بھی مردوں کے غلبے والا معاشرہ ہے جہاں خواتین دل کھول کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے سے ڈرتی ہیں۔

چند سال قبل کشمیر میں ایف ایم ریڈیو چینلز متعارف ہوئے تو رافعہ کی ہی طرح کئی لڑکیاں ریڈیو جوکیز کے طور پر سرگرم ہو گئیں۔ اِن میں سرینگر کی رہائشی یُسریٰ حُسین عرف صوفی بھی کافی مقبول ہیں۔

صوفی کہتی ہیں ’میں جب ریڈیو پر آئی تو لوگوں نے بہت پیار دیا، بہت سراہا لیکن سوشل میڈیا کے آتے ہی مُجھے لگا میں روز ایک نئے امتحان سے گزر رہی ہوں۔ کچھ لوگ تو سر پر دوپٹا رکھنے کو کہتے ہیں اور کچھ لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے کہ ہم موسیقی بجاتے ہیں اور معاشرے کو بگاڑتے ہیں۔‘

یُسریٰ حُسین عرف صوفی

صوفی کہتی ہیں کہ ریڈیو نے بہت پیار دیا اور سراہا لیکن سوشل میڈیا کے آتے ہی روزانہ ایک نئے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے

رافعہ اور صوفی جیسی اور بھی کئی خواتین ہیں جو ٹی وی یا ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے اُنھیں کام کرتے وقت سخت ذہنی دباوٴ کا سامنا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ نہیں کر پاتی ہیں۔

قابل ذکر بات ہے کہ کشمیر کی ثقافتی روایت میں خواتین کا کردار بھی مرد ہی ادا کرتے تھے۔ شادی بیاہ کے موقع پر آج بھی لڑکے ہی زنانہ رخت میں رقص کرتے ہیں۔ حالانکہ گذشتہ تین دہائیوں کے دوران خواتین کی تعلیم میں ترقی ہوئی ہے تاہم جموں کشمیر میں عورتوں کی خواندگی کی شرح ابھی بھی مردوں سے بہت کم ہے۔

رافعہ کا کہنا ہے کہ گلیمر کی دُنیا میں قدم رکھتے ہی کشمیری لڑکی جیسے اچھوت بن جاتی ہے۔ ’میری شادی نہیں ہوئی ہے لیکن جب ایسی بات ہوتی ہے تو یہ سوال ضرور کیا جاتا ہے کہ ریڈیو جوکی تو ٹھیک ہے لیکن کام کیا کرتی ہو۔‘

اِن رُکاوٹوں کے باوجود رافعہ کا شو بے حد مقبول ہے۔ کئی مرتبہ وہ شو سے اجازت لینے سے قبل یہ جملہ کہتی ہیں ’اجازت لینے سے پہلے میں یہ یاد دِلانا چاہتی ہوں کہ اپنا دِل اور چارجر کسی کو نہ دیجیے گا کیونکہ لوگ جلا کر واپس کر دیتے ہیں۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp