انڈیا میں سیلاب: کیا گلیشیئر پر دہائیوں قبل گم ہو جانے والے جاسوسی کے ایٹمی آلات رینی گاؤں میں سیلاب کی وجہ بنے؟


Nanda Devi

انڈیا کی دوسری بلند ترین چوٹی نندا دیوی، چین کے ساتھ شمال مشرقی سرحد کے قریب ہے

انڈیا میں ہمالیہ کے ایک گاؤں میں رہنے والے باشندوں کا ماننا ہے کہ ان کے گاؤں کے اردگرد والے پہاڑوں پر برف کی دبیز تہوں کے تلے جاسوسی کے ایٹمی آلات دفن ہیں۔

چنانچہ جب فروری کے شروع میں رینی نامی گاؤں میں سیلاب آیا تو وہاں کے لوگ خوفزدہ ہو گئے اور افواہیں پھیل گئیں کہ ’ایٹمی آلات پھٹ گئے ہیں‘ اور ان کے پھٹنے کی وجہ سے سیلاب آیا ہے۔ تاہم سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہمالیائی ریاست اتراکھنڈ میں سیلاب آنے کا سبب بڑے گلیشیئر کا ایک ٹوٹ جانے والا ٹکڑا تھا۔

یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں آنے والے اس سیلاب کے نتیجے میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

لیکن یہی بات اگر رینی گاؤں میں بسنے والوں کو بتانے کی کوشش کی جائے تو بہت سے لوگ آپ کی بات پر بالکل یقین نہیں کریں گے۔ رینی گاؤں کے لوگ کاشتکاری سے منسلک ہیں اور اس چھوٹے سے پہاڑی گاؤں میں 250 گھرانے آباد ہیں۔

رینی گاؤں کے سرپنج سنگرم سنگھ راوت نے مجھے بتایا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ اس سیلاب میں ایٹمی آلات کا کردار ہو سکتا ہے۔ موسم سرما میں گلیشیئر کیسے ٹوٹ سکتا ہے؟ ہمارے خیال میں حکومت کو ان آلات کی تحقیقات کرنی چاہییں اور انھیں تلاش کرنا چاہیے۔‘

مگر گاؤں کے لوگوں کے دلوں میں موجود خدشات کے پیچھے دنیا کے سب سے اونچے مقامات میں سے ایک پر ہونے والی جاسوسی کی ایک داستان ہے۔ جس میں اعلیٰ پائے کے کوہ پیما اور جاسوسی کا الیکٹرانک سسٹم چلانے کے لیے تابکار مادہ اور ان دیکھے کا خوف شامل ہیں۔

یہ کہانی بتاتی ہے کہ کس طرح امریکہ نے 1960 کی دہائی میں انڈیا کے ساتھ مل کر ہمالیہ کے اوپر جوہری توانائی سے چلنے والی مانیٹرنگ ڈیوائسز نصب کیں تاکہ چین کے ایٹمی تجربات اور میزائل فائر کرنے والے نظام کی نگرانی کی جا سکے۔ یاد رہے چین نے اپنی پہلی جوہری ڈیوائس سنہ 1964 میں لانچ کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

کیا انڈیا اور چین کی جنگ میں جوہری ہتھیار استعمال ہو سکتے ہیں؟

چین کے ساتھ 1962 کی جنگ میں اگر امریکہ انڈیا کا ساتھ نہ دیتا تو۔۔۔

انڈیا اور چین کی سرحدی علاقوں میں تعمیرات کی دوڑ، برتری کسے حاصل ہے؟

امریکہ کے راک اور آئس میگزین کے معاون ایڈیٹر پیٹ ٹیکیڈا کے مطابق ’سرد جنگ کا خوف اپنے عروج پر تھا۔ کوئی منصوبہ بعید از قیاس مناسب نہیں تھا، کوئی سرمایہ کاری بہت بڑی اور کوئی حربہ بلا جواز نہیں تھا۔‘

اکتوبر 1965 میں انڈین اور امریکی کوہ پیماؤں کے ایک گروپ نے نگرانی کے سامان کے ساتھ، سات پلٹونیم کیپسول اوپر پہنچائے، جن کا وزن تقریباً 57 کلو گرام (125 پاؤنڈ) تھا اور انھیں نندا دیوی نامی پہاڑی کے اوپر 7،816 میٹر (25،643 فٹ) کی بلندی پر رکھا جانا تھا۔ یہ انڈیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جو چین کے ساتھ شمال مشرقی سرحد کے قریب واقع ہے۔

ایک برفانی طوفان نے کوہ پیماؤں کو چوٹی سے تھوڑی ہی دوری سے واپس مڑنے اور خراب حالات کے باعث ان آلات کو وہیں چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ انھوں نے چھ فٹ لمبا اینٹینا، مواصلات کے لیے دو ریڈیو سیٹ، ایک پاور پیک اور پلوٹونیم کیپسولز جیسے آلات کو وہیں چھوڑ دیا۔

ایک میگزین کے مطابق یہ آلات ایک پہاڑ کے کنارے پر ’پناہ گاہ‘ میں چھوڑے گئے تھے جو ہوا سے بچاؤ کے لیے بنائی گئی تھی۔

معروف کوہ پیما من موہن سنگھ کوہلی، جو سرحد پر گشت کرنے والی ایک تنظیم کے لیے کام کرتے تھے اور انڈین ٹیم کی قیادت کر رہے تھے، ان کا کہنا تھا ’ہمیں نیچے آنا پڑا۔ ورنہ بہت سے کوہ پیما ہلاک ہو جاتے۔‘

جب اگلے موسم بہار میں ان آلات کو تلاش کرنے کے لیے کوہ پیما اس پہاڑ کی جانب لوٹے اور چوٹی تک پہنچے تو انھیں معلوم ہوا کہ یہ آلات غائب ہو چکے تھے۔

MS Kohli

معروف کوہ پیما من موہن سنگھ کوہلی، جنھوں نے انڈین ٹیم کی قیادت کی تھی

نصف صدی سے زیادہ گزر جانے اور نندا دیوی جانے والی متعدد مہمات کے باوجود، کسی کو معلوم نہیں ہے کہ کیپسولزکا کیا ہوا۔

ٹیکیڈا نے لکھا ’امکان یہی ہے کہ گمشدہ پلوٹونیم گلیشئیر میں دفن ہے، شاید وہ دھول کی طرف دھندلا ہو گیا ہے اور گنگا کی ندیوں کی طرف جا رہا ہے۔‘

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ مبالغہ آرائی ہو سکتی ہے۔ پلوٹونیم جوہری بم کا بنیادی جزو ہے۔ لیکن پلوٹونیم بیٹریاں پلٹونیم-238 نامی ایک مختلف آئسوٹوپ (ایک کیمیائی عنصر کی ایک شکل) کا استعمال کرتی ہیں جس میں 88 سالوں کا نصف عرصہ (کسی تابکار آئسوٹوپ کے نصف حصے کے سڑ کر تباہ ہونے میں لگنے والا وقت) لگتا ہے۔

ہاں البتہ اس دلچسپ مہم کی کہانیاں اب بھی زبان زدِ عام ہیں۔

اپنی کتاب ’نندا دیوی: اے جرنی ٹو لاسٹ سینکچوری‘ کے برطانوی مصنف ہیو تھامسن لکھتے ہیں کہ کیسے امریکی کوہ پیماؤں کو اپنی جلد کا رنگ سیاہ کرنے کے لیے انڈین لوشن کا استعمال کرنے کے لیے کہا گیا تھا تاکہ وہ مقامی لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا باعث نہ بنیں۔

اور کیسے کوہ پیماؤں کو یہ ڈرامہ کرنے کو کہا گیا کہ وہ اپنے جسم پر آکسیجن کے اثرات سے متعلق تحقیق کرنے کے لیے اس ’ہائی ایلٹیٹیوٹ پروگرام‘ پر ہیں۔

جوہری سامان اٹھانے والے پورٹرز کو بتایا گیا کہ یہ ’کسی طرح کا خزانہ، ممکنہ طور پر سونا‘ ہے۔

ایک امریکی رسالے کے مطابق اس سے پہلے کوہ پیماؤں کو نیوکلئیر جاسوسی میں کریش کورس کے لیے شمالی کیرولائنا میں واقع سی آئی اے کے اڈے، ہاروی پوائنٹ، لے جایا گیا تھا۔ وہیں پر ایک کوہ پیما نے میگزین کو بتایا ’کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہم اپنا زیادہ تر وقت والی بال کھیلنے اور شدید شراب نوشی میں صرف کرتے۔‘

Nanda Kot

آخر میں نندا کوٹ کی چوٹی پر آلات کا ایک سیٹ رکھا گیا

اس مہم کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا لیکن سنہ 1978 میں واشنگٹن پوسٹ نے اس خبر کو شائع کیا اور یہ لکھا کہ سی آئی اے نے چین کی جاسوسی کرنے کی غرض سے ہمالیہ کی دو چوٹیوں پر جاسوسی کے آلات رکھنے کے لیے امریکی کوہ پیماؤں سمیت حال ہی میں ماؤنٹ ایورسٹ کا سمٹ کرنے والے کوہ پیماؤں کی خدمات حاصل کی ہیں۔

اخبار نے تصدیق کی کہ اس سلسلے کی پہلی مہم 1965 میں آلات کے گمشدہ ہونے پر ختم ہوئی تھی اور دوسرا مشن دو سال بعد بھیجا گیا جسے سی آئی اے کے ایک سابق عہدیدار نے ’جزوی کامیابی‘ قرار دیا۔

سنہ 1967 میں جدید آلات رکھنے کے لیے ایک تیسری کوشش کی گئی۔ اس مرتبہ نندا دیوی سے ملحقہ 6861 میٹر (22،510 فٹ) کی بلندی پر واقع نندا کوٹ نامی چوٹی پر نئے آلات لگانے کی تیسری مہم کامیاب ہو گئی۔

تین سالوں کے دورانیے میں ہمالیہ میں جاسوسی کے آلات نصب کرنے کے لیے 14 امرکی کوہ پیماؤں کو ان کی خدمات کے عوض ایک ہزار ڈالر فی مہینے کا معاوضہ ادا کیا گیا۔

اپریل 1978 میں انڈیا کے اس وقت کے وزیر اعظم مورارجی دیسائی نے پارلیمنٹ میں انکشاف کیا کہ انڈیا اور امریکہ نے نندا دیوی پر ایٹمی طاقت سے چلنے والے ان آلات کو نصب کرنے کے لیے ’اعلی سطح‘ پر تعاون کیا ہے۔ لیکن ایک رپورٹ کے مطابق دیسائی نے یہ نہیں بتایا کہ یہ مشن کس حد تک کامیاب رہا۔

اسی مہینے کی امریکی محکمہ خارجہ کی کیبلز کے مطابق، دہلی میں سفارتخانے کے باہر ’انڈیا میں سی آئی اے کی مبینہ سرگرمیوں‘ کے خلاف مظاہرہ کرنے والے تقریباً 60 افراد کا ذکر ملتا ہے۔ مظاہرین ’سی آئی اے انڈیا چھوڑ دو‘ اور ’سی آئی اے ہمارے پانی میں زہر ملا رہی ہے‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔

جہاں تک ہمالیہ میں گم ہو جانے والے جوہری آلات کا تعلق ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔

امریکی کوہ پیماؤں میں سے ایک جیم میک کارتی نے ٹکیڈا کو بتایا ’ہاں یہ آلہ برفانی تودے میں گر گیا اور گلیشئیر میں پھنس گیا اور صرف خدا ہی جانتا ہے کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔‘

کوہ پیمائی کے لیے جانے والوں کا کہنا ہے کہ رینی کے ایک چھوٹے سٹیشن نے ریڈیو ایکٹیویٹی کی جانچ کے لیے باقاعدگی سے ندی سے آنے والے پانی اور ریت کا تجزیہ کیا، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا انھیں آلودگی کا کوئی ثبوت ملا ہے یا نہیں۔

آوٹ سائٹ جریدے نے رپورٹ کیا کہ ’جب تک پلوٹونیم (پاور پیک میں ریڈیو سرگرمی کا ذریعہ) تباہ نہیں ہوتا، جس میں کئی صدیوں کا وقت لگ سکتا ہے، اس آلے میں تابکاری کا خطرہ باقی رہے گا جو ہمالیائی برف میں گر سکتا ہے اور گنگا کی ندیوں کے راستے سے انڈیا کے دریائی نظام میں مداخلت کا سبب بن سکتا ہے۔‘

کیپٹن کوہلی اب 89 برس کے ہو چکے ہیں، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں ہمالیہ میں جوہری آلات چھوڑ آنے پر مجبور ہونے والی اس مہم کا حصہ بننے پر افسوس ہے؟

انھوں نے جواب دیا ’اس میں افسوس یا خوشی والی کوئی بات نہیں۔ میں صرف احکامات کی پیروی کر رہا تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32469 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp