پی ایس ایل 6: افغانستان کے وہ پانچ کھلاڑی جو پہلی بار پاکستان سپر لیگ کا حصہ بنے ہیں


افغان کرکٹ ٹیم

پاکستان سپر لیگ کے چھٹے ایڈیشن میں افغانستان کے پانچ کرکٹرز کی موجودگی کو بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں افغانستان کے صرف ایک کرکٹر محمد نبی ہی پاکستان سپر لیگ کھیل پائے تھے۔

اگرچہ افغانستان کے یہ پانچوں کرکٹرز پاکستان سپر لیگ کے تمام میچوں کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے لیکن چونکہ یہ کرکٹرز اس وقت ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لہذا شائقین بے صبری سے انھیں ایکشن میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز راشد خان ہیں جو عصرحاضر کے بہترین لیگ سپنر کے طور پر اپنی دھاک بٹھا چکے ہیں۔ راشد خان نے زندگی کا کچھ حصہ پاکستان کے شمالی شہر پشاور میں بھی گزارا ہے۔

اسلامیہ کالج پشاور کے ڈائریکٹر سپورٹس علی ہوتی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’راشد خان اس زمانے میں راشد ارمان ہوا کرتے تھے۔ وہ اسلامیہ کالج میں کمپیوٹر سائنس کے طالبعلم تھے اور ان کا شمار ذہین طلبہ میں ہوا کرتا تھا۔ مجھے ان کی سب سے اچھی بات یہ لگتی تھی کہ تعلیم ہو یا کھیل وہ ہمیشہ مثبت سوچ رکھتے تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

پی ایس ایل کا چھٹا ایڈیشن ورلڈ کپ تک پہنچائے گا؟

پی ایس ایل 6: کرس گیل گھاٹے کا سودا تو ثابت نہیں ہوں گے؟

پی ایس ایل بورڈ کے لیے کماتی ہے یا بورڈ پی ایس ایل کے لیے؟

افغان کرکٹرز کن کن ٹیموں میں شامل؟

راشد خان پاکستان سپر لیگ 6 میں لاہور قلندرز کی نمائندگی کر رہے ہیں تاہم وہ پورے ٹورنامنٹ کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے اور اس کی وجہ افغانستان اور زمبابوے کے درمیان ہونے والی سیریز ہے۔

راشد خان اس وقت ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہیں۔ آئی سی سی کی جانب سے وہ دہائی کے بہترین ٹی ٹوئنٹی کرکٹر بھی قرار پائے ہیں۔ انھوں نے گذشتہ سال آئی پی ایل میں 20 وکٹیں حاصل کی تھیں جبکہ بگ بیش میں وہ 16 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

راشد خان نے گذشتہ سال تمام ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں مجموعی طور پر 56 وکٹیں حاصل کی تھیں جو سب سے زیادہ 57 وکٹیں لینے والے حارث رؤف سے صرف ایک وکٹ کم تھی۔ تیسرے نمبر پر شاہین شاہ آفریدی کی 52 وکٹیں تھیں۔

اتفاق سے یہ تینوں بولرز ایک ہی ٹیم یعنی لاہور قلندرز کا حصہ ہیں۔

مجیب الرحمن 19 برس کے آف سپنر ہیں جنھیں پشاور زلمی نے حاصل کیا ہے۔ وہ باقاعدگی سے آئی پی ایل، کیریبئن لیگ، بنگلہ دیش پریمئر لیگ، بگ بیش اور انگلینڈ میں ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ میں کھیلتے رہے ہیں۔

گذشتہ سال انھوں نے ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں 37 وکٹیں حاصل کی تھیں جن میں 15رن دے کر پانچ وکٹوں کی کارکردگی قابل ذکر تھی جو انھوں نے بگ بیش میں ہوبارٹ ہریکینز کے خلاف برسبین ہیٹ کی طرف سے دکھائی تھی۔

مجیب الرحمن

مجیب الرحمن نے گذشتہ سال ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں37 وکٹیں حاصل کی تھیں

مجیب الرحمن کسی ون ڈے انٹرنیشنل میچ میں پانچ وکٹیں لینے والے دنیا کے سب سے کم عمر کرکٹر ہیں۔ ان سے قبل یہ ریکارڈ پاکستان کے وقار یونس کا تھا۔

مجیب الرحمن نے سنہ 2017 میں ہونے والے یوتھ ایشیا کپ کے فائنل میں پاکستان کے خلاف پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں جبکہ پاکستان ہی کے خلاف افتتاحی میچ میں وہ چھ وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

قیس احمد

قیس احمد کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سکواڈ کا حصہ ہیں

اُسی سال وہ اور ایک اور افغان کرکٹر طارق ستنکزئی کو پشاور زلمی نے اپنے ٹریننگ سکواڈ کا حصہ بنایا تھا لیکن وہ کوئی میچ نہیں کھیلے تھے۔

قیس احمد 20 سال کے لیگ سپنر ہیں جو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سکواڈ کا حصہ بنے ہیں۔ قیس احمد کو بھی بگ بیش اور لنکا پریمئر لیگ میں کھیلنے کا تجربہ حاصل ہے۔

نور احمد 16 برس کے لیفٹ آرم سپنر ہیں جنھیں کراچی کنگز نے سپلیمینٹری کیٹگری میں حاصل کیا ہے۔

وہ گذشتہ سال انڈر 19 ورلڈ کپ کھیلے تھے اور پھر بگ بیش میں میلبرن رینی گیڈز نے انھیں اپنے سکواڈ میں شامل کیا۔ انھیں کیربیئن لیگ میں سینٹ لوشیا نے بھی شامل کیا تھا لیکن کورونا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ وقت پر ویزا حاصل نہ کر پائے تھے۔

نور احمد

نور احمد 16 برس کے لیفٹ آرم سپنر ہیں جنھیں کراچی کنگز نے سپلیمینٹری کیٹگری میں حاصل کیا ہے

محمد نبی افغانستان کے تجربہ کار آل راؤنڈر ہیں جو کراچی کنگز میں شامل ہیں۔ اس سے قبل وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی طرف سے ایک سیزن کھیلے تھے۔ محمد نبی اس وقت آئی سی سی کی عالمی ٹی ٹوئنٹی آل راؤنڈر رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہیں۔

پشاور زلمی کے سربراہ جاوید آفریدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان کے کرکٹرز اس وقت فرنچائز اور انٹرنیشنل کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، ان کی پاکستان سپر لیگ میں موجودگی سے شائقین کی دلچسپی میں اضافہ ہو گا اور انھیں ان کرکٹرز کے ذریعے بہترین کرکٹ بھی دیکھنے کو ملے گی۔‘

پاکستان سے دوری انڈیا سے قربت

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی حالات کا براہ راست اثر کرکٹ تعلقات پر بھی پڑا ہے حالانکہ یہ بات سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ افغانستان کی کرکٹ کا پاکستان سے گہرا تعلق رہا ہے۔ یہ کرکٹ درحقیقت پاکستان میں قائم پناہ گزیں کیمپوں میں شروع ہوئی تھی اور اس دور میں افغانستان سے کھیلنے والے بیشتر کرکٹرز وہ تھے جنھوں نے انھی کیمپوں میں رہ کر کرکٹ کی ابتدا کی تھی۔

افغان کرکٹرز بہت اچھی اردو بول اور سمجھ لیتے ہیں لیکن اپنے کرکٹ بورڈ کی ہدایت کے سبب وہ اردو میں انٹرویو سے گریز کرتے ہیں۔

محمد نبی

محمد نبی اس وقت آئی سی سی کی عالمی ٹی ٹوئنٹی آل راؤنڈر رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہیں

افغانستان کی کرکٹ کو پروان چڑھانے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا تعاون نمایاں رہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے افغان کرکٹرز کو نہ صرف اپنی قومی کرکٹ اکیڈمی میں ٹریننگ کا موقع فراہم کیا بلکہ کوچنگ اور امپائرنگ کے شعبوں میں بھی اس نے افغانستان کی معاونت کی ہے۔ پاکستان کے ڈومیسٹک کرکٹ سیزن میں بھی افغانستان کے کرکٹرز کو کھیلنے کے مواقع فراہم کیے گئے۔

پاکستان کے متعدد سابق ٹیسٹ کرکٹرز افغانستان کے قومی کوچ رہے ہیں جن میں کبیر خان، راشد لطیف اور انضمام الحق قابل ذکر ہیں لیکن سیاسی تعلقات میں اُتار چڑھاؤ اور خطے میں رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے افغانستان کی کرکٹ پر انڈین اثر غالب آنا شروع ہو گیا۔

افغانستان کے کرکٹرز جو پہلے شارجہ کو ہوم گراؤنڈ کے طور پر استعمال کرتے تھے اب انڈیا میں نوئیڈا کے مقام کو ہوم گراؤنڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

اس غیرمعمولی تبدیلی میں یہ بات بھی خاص طور پر محسوس کی گئی ہے کہ کسی زمانے میں پاکستان کے تعاون کا شکریہ ادا کرنے والی افغان آوازیں اب انڈیا کی مداح سرا ہیں۔

جون سنہ 2019 میں افغانستان کرکٹ بورڈ کے اسوقت کے عبوری چیف ایگزیکٹیو اسد اللہ نے بیان داغ دیا کہ افغانستان کی کرکٹ پاکستان کی کرکٹ سے ہرلحاظ سے بہتر ہے اور اگر پاکستان کرکٹ بورڈ چاہے تو وہ اپنی کرکٹ میں بہتری کے لیے ہم سے کوچنگ کے سلسلے میں تکینکی مدد لے سکتا ہے۔

ان کا یہ طنزیہ جملہ ورلڈ کپ میں پاکستان کی ویسٹ انڈیز کے خلاف شکست کے بعد سامنے آیا تھا حالانکہ اس عالمی کپ میں افغانستان کی ٹیم ایک میچ بھی نہ جیت پائی تھی۔

شارجہ میچ

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سنہ 2013 میں شارجہ میں ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلا جا چکا ہے، جو پاکستان نے جیتا تھا

افغان کرکٹرز پی ایس ایل سے کیوں غائب تھے؟

افغانستان کے بیس کرکٹرز نے اس سال پاکستان سپر لیگ میں اپنی رجسٹریشن کرائی تھی۔ یہ سلسلہ ہر سال پہلے بھی جاری تھا لیکن یہ کھلاڑی ڈرافٹ کا حصہ اس لیے نہیں بنتے تھے کہ افغانستان کرکٹ بورڈ انھیں این او سی جاری نہیں کرتا تھا۔

پاکستان سپر لیگ کی انتظامیہ اس دوران افغان کرکٹرز سے مستقل رابطے میں رہی۔ اس مرتبہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو افغانستان کرکٹ بورڈ سے ان کھلاڑیوں کی پی ایس ایل میں شرکت کی تحریری اجازت مل گئی جس کے بعد انھیں ڈرافٹ میں شامل کیا گیا۔

افغانستان کرکٹ بورڈ نے جون 2017 میں کابل میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد پاکستان سے کرکٹ روابط منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ پاکستان دہشت گردوں کو مبینہ طور پر تحفظ فراہم کررہا ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت کیا گیا جب دونوں حکومتیں کابل اور لاہور میں دو دوستانہ میچ کھیلنے پر اتفاق کر چکی تھیں۔

گزشتہ نومبر میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے دور کابل کے موقع پر افغانستان کی کرکٹ ٹیم سے ملاقات کی تھی جس میں انھیں ٹیم کے کھلاڑیوں کے دستخط والا بیٹ پیش کیا گیا۔

کرکٹ کے میدان میں گرما گرمی

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلا جا چکا ہے۔ سنہ 2013 میں شارجہ میں کھیلا گیا یہ میچ پاکستان نے جیتا تھا۔ دونوں کے درمیان دو ون ڈے انٹرنیشنل کھیلے جا چکے ہیں اگرچہ دونوں میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی ہے لیکن اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

2018 میں ایشیا کپ کے میچ میں پاکستان نے شعیب ملک کی ناقابل شکست نصف سنچری کی بدولت جب تین وکٹوں سے فتح حاصل کی تو صرف تین گیندیں باقی رہتی تھیں اسی طرح سنہ 2019 کے عالمی کپ میں پاکستان نے تین وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تو صرف دو گیندیں باقی رہتی تھیں۔

یہ وہ میچ تھا جس میں میدان میں تو کھلاڑیوں کے جوشیلے جذبات اپنے عروج پر تھے لیکن میدان سے باہربھی دونوں طرف کے شائقین کے درمیان زبردست ہنگامہ آرائی رہی تھی اور پولیس کے لیے بھی ان پر قابو پانا مشکل ہو گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32485 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp