انڈین بحریہ کے جوانوں کی وہ بغاوت جس نے انگریزوں کو ’وقت سے پہلے ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا‘


ہندوستان کی آزادی کے بہت سال بعد جب سابق برطانوی وزیر اعظم کلیمینٹ ایٹلی کولکتہ آئے تو مغربی بنگال کے گورنر کی جانب سے منعقدہ سرکاری تقریب کے دوران کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پی وی چکرورتی نے اُن کی طرف جھک کر سوال پوچھا ’آپ کی نظر میں انگریزوں کے انڈیا کو آزاد کرنے میں مہاتما گاندھی کی ’ہندوستان چھوڑ دو‘ تحریک کا کتنا کردار تھا؟’

ایٹلی کے جواب نے وہاں موجود لوگوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم گاندھی کی تحریک سے نمٹنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن ہندوستانی سکیورٹی فورسز میں بے چینی اور خاص طور پر ہندوستانی بحریہ کے جوانوں کی بغاوت نے ہمیں وقت سے پہلے ہی ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا۔‘

برصغیر کی بات کی جائے تو یہاں بسنے والے عام افراد کی نظر میں اس خطے میں انگریزوں کے خلاف صرف ایک بڑی بغاوت ہوئی تھی۔ یعنی سنہ 1857 میں جب ہندوستانی سپاہیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ (اس بغاوت کو کئی لوگ غدر اور کئی لوگ جنگ آزادی کے نام سے یاد کرتے ہیں)۔

مگر ایٹلی جس بغاوت کا ذکر کر رہے تھے وہ 18 فروری سنہ 1946 کو ہوئی تھی جس میں تقریبا دو ہزار ہندوستانی بحریہ کے جوانوں شرکت کی تھی اور سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے لگ بھگ 400 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

بحریہ کے ان باغی جوانوں نے بمبئی (اب ممبئی) کے آس پاس سمندر میں کھڑے جہازوں پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنی چار انچ توپوں کا رخ گیٹ وے آف انڈیا اور تاج ہوٹل کی طرف موڑ دیا اور انگریزوں کو متنبہ کیا کہ اگر انھیں نقصان پہنچایا گیا تو یہ عمارتیں منہدم کر دی جائيں گی۔

برطانوی وزیر اعظم کلیمینٹ ایٹلی

برطانوی وزیر اعظم کلیمینٹ ایٹلی

خراب کھانے پر بغاوت

یہ بغاوت 18 فروری سنہ 1946 کو اس وقت شروع ہوئی جب مواصلاتی تربیتی مرکز ایچ ایم آئی ایس تلوار کے جوان بحری جوانوں نے نعرہ لگایا کہ ’کھانا نہیں، تو کام بھی نہیں۔‘ انھوں نے خراب کھانا دینے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے افسروں کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

لیفٹیننٹ کمانڈر جی ڈی شرما اپنی کتاب ’انٹولڈ سٹوری 1946 نیول میوٹیٹی لاسٹ وار آف انڈیپینڈینس‘ میں لکھتے ہیں: ’اس وقت بحریہ کے جوانوں کو ناشتے میں دال اور ڈبل روٹی دی جاتی تھی۔ ہر دن ایک ہی قسم کی دال دی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ دن کے کھانے میں بھی اسی دال میں پانی ملا کر چاول کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا۔ 17 فروری کی شام کو ہی 29 بحریہ کے جوانوں نے احتجاجا کھانا نہیں کھایا۔‘

’اس وقت ڈیوٹی پر تعینات آفیسر بترا اور سچدیو نے نہ تو ان کی شکایت پر توجہ دینے کی کوشش کی اور نہ ہی اپنے اعلی عہدیداروں کو اس کی اطلاع دی۔ یہ نوجوان کھانا کھائے بغیر سو گئے۔ اگلے دن ناشتے میں پھر وہی دال ڈال دی گئی۔ بڑی تعداد میں بحریہ کے جوانوں نے ناشتہ کرنے سے انکار کر دیا اور نعرے بازی کرتے ہوئے میس (کینٹین) سے باہر آ گئے۔‘

انھیں بحریہ کے جوانوں کی بغاوت پر ’1946 نیول اپرائزنگ دیٹ شک دی امپائر‘ نامی کتاب لکھنے والے پرمود کپور بتاتے ہیں کہ ‘تلوار پر بغاوت کی چنگاری ان کے دیو قامت کمانڈنگ آفیسر آرتھر فریڈرک کنگ کے نسل پرستانہ طرز عمل کی وجہ سے بھڑکی تھی۔‘

’احتجاجا باغی جوانوں نے اُن کی گاڑی کے ٹائر کی ہوا نکال دی اور اس کے بونٹ پر ’ہندوستان چھوڑ دو‘ لکھ دیا۔ اس پر کنگ نے چیخ کر کہا ’یو سنز آف کولیز، سنز آف ب۔۔۔‘ اس پر بحریہ کے جوانوں نے جن کی اوسط عمر 15 سے 24 سال تھی کہا کہ اب بہت ہو گيا۔ پہلے تو انھوں نے کھانا لینے سے انکار کر دیا اور اگلے دن سے کام کرنا بھی چھوڑ دیا۔ صبح کو جب کام کرنے کے لیے بیگل بجایا گیا تو ان میں سے کوئی بھی وہاں نہیں پہنچا۔‘

بغاوت میں بمبئی کے لوگ بھی شامل ہوئے

تھوڑی دیر بعد بحریہ کے نوجوانوں نے ٹرکوں پر سوار ہو کر بمبئی کی سڑکوں پر نعرے بازی شروع کر دی۔ خبر پھیلنے لگی کہ حکومت کے خلاف کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ یہ جوان سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی سے متاثر تھے اور وہ بمبئی کے لوگوں کو بھی اپنی تحریک میں شامل کرنا چاہتے تھے۔

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر انیرودھ دیشپانڈے اپنی کتاب ’ہوپ اینڈ ڈیسپیئر میوٹینی، ریبیلین اینڈ ڈیتھ ان انڈیا 1946‘ میں لکھتے ہیں: ’انتظامیہ ایک طرح سے مفلوج ہو کر رہ گئی تھی اور بحریہ کے جوانوں نے امریکی لائبریری سے امریکی جھنڈا اتار کر جلا دیا تھا۔ انھوں نے لارنس اور میو جیسی یورپی ملکیت والی دکانوں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ بہت سارے ہندوستانی دکانداروں نے آیا خوف سے یا پھر بحریہ کے جوانوں کی حمایت میں اپنی دکانیں بند کر دیں۔ 19 فروری تک بمبئی کے تمام 11 بحری یونٹوں کے تقریبا 20 ہزرا جوان بغاوت میں شامل ہو گئے۔‘

یونین جیک نکال کر کانگریس، مسلم لیگ اور کمیونسٹ پارٹی کے پرچم لگا دیے

اگلے چار دنوں تک بھوک ہڑتال جاری رہی۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کو دھمکایا جاتا رہا۔ بحریہ کے جوانوں نے بمبئی کی بندرگاہ کے گرد 22 بحری جہازوں پر قبضہ کر لیا۔ ہر جہاز سے برطانوی نشان اور جھنڈے اتار کر کانگریس، مسلم لیگ اور انڈین کمیونسٹ پارٹی کے جھنڈے لگا دیے۔

برطانوی حکومت نے بیرکوں کو پانی اور بجلی کی فراہمی منقطع کر دی۔ انھوں نے باغیوں کو سنگین نتائج کی دھمکی دی اور یہاں تک کہا کہ وہ رائل انڈین نیوی کا وجود ہی ختم کر دیں گے۔

انگریزوں نے بحریہ کے جوانوں کو ڈرانے کے لیے بندرگاہ کے اوپر بہت کم بلندی پر جنگی طیارے بھی اڑائے۔ ہندوستانی بحریہ میں بمبئی کے فلیگ آفیسر نے ریڈیو پر پیغام نشر کرتے ہوئے بغاوت کرنے والے جوانوں غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کی اپیل کی۔

اس بغاوت کو کچلنے کے لیے سب سے طاقتور برطانوی جہاز ایچ ایم ایس گلاگو سے کہا گیا تھا کہ وہ فوری سری لنکا میں ٹرینکومالی سے بمبئی کے لیے کوچ کرے۔

اس بغاوت پر کتاب کے مصنف پرومود کپور کہتے ہیں کہ ’جب ان بحریہ کے جوانوں کا کھانا پانی روک دیا گیا تو تلوار کے آس پاس جتنے بھی ایرانی اور پارسی ریستوران تھے وہ کھانے کے پیکٹ بنا کر گیٹ وے آف انڈیا تک پہنچاتے تھے اور وہاں سے کشتیوں کے ذریعے وہ کھانا جہازوں تک لے جایا جاتا تھا۔‘

’جب کمیونسٹ پارٹی نے اپیل کی تو قریب ایک لاکھ لوگ ان جوانوں کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے۔ ان میں سے کچھ شرپسند عناصر نے ڈاکخانے اور بینکوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ ہجوم نے موٹر گاڑیوں اور ریلوے سٹیشنوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ برطانوی سکیورٹی فورسز اور پولیس کو مظاہرین کو دیکھتے ہیں فائرنگ کا حکم دے دیا گیا۔ تقریبا 20 مقامات پر فائرنگ کی گئی۔ دو دنوں تک جاری رہنے والی اس جدوجہد میں لگ بھگ 400 افراد ہلاک اور تقریبا 1500 افراد زخمی ہوئے۔

انگریزوں نے بغاوت کو کچلنے کے لیے پوری طاقت لگا دی

18 فروری کی شام تک اس بغاوت کی اطلاع چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کلاوڈ آچنلیک کو دی گئی۔

انھوں نے وائسرائے لارڈ ویویل کو واقعات کی پیشرفت سے آگاہ کیا۔ ہندوستانی بحریہ کے چیف ایڈمرل جے ایچ گوڈفری کے طیارہ نے ادے پور ایئرپورٹ پر ابھی لینڈ ہی کیا تھا انھیں بغاوت کے بارے میں ایک خفیہ پیغام پہنچایا گیا۔ انھوں نے اسی وقت دہلی واپسی کا فیصلہ کیا۔ دوسرے دن وہ خصوصی طیارے کے ذریعے بمبئی پہنچے۔

اس واقعہ پر دہلی کے کونسل ہاؤسز میں زبردست بحث ہوئی۔ وزیر اعظم ایٹلی اور وائسرائے ویویل کے دفاتر کے مابین تاروں کی جھڑی سی لگ گئی۔

انیرودھ دیشپانڈے لکھتے ہیں؛ ’اگر 18 فروری کو ہی باغیوں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کیا جاتا تو اس بغاوت کو دبایا جا سکتا تھا۔ لیکن انگریزون کو سنہ 1857 کی بغاوت یاد آ رہی تھی۔ انھیں خدشہ تھا کہ یہ بغاوت کہیں 1857 کی طرح وسیع شکل اختیار نہ کر لے۔ اس لیے انھوں نے طے کیا کہ وہ اسے پوری طاقت سے کچل دیں گے۔‘

پرمود کپور اور ریحان فضل

پرمود کپور اور ریحان فضل

مہاتما گاندھی بغاوت کے خلاف تھے

مہاتما گاندھی نے یہ کہتے ہوئے اس بغاوت کی مخالفت کی کہ یہ ان کے عدم تشدد کے اصولوں کے خلاف ہے۔ کمیونسٹوں نے نہ صرف اس بغاوت کی حمایت کی بلکہ فوجیوں کو ہتھیار نہ ڈالنے کی ترغیب بھی دی۔

کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار ’پیپلز ایج‘ میں گنگادھار ادھیکاری نے گاندھی، پٹیل اور نہرو پر تنقید کرتے ہوئے اپنے ایک اداریے میں لکھا کہ ’پٹیل نے مرنے والوں کے لیے آنسو بہائے ہیں اور ان لوگوں کی مذمت کی جنھوں نے ‘غندہ گردی’ کی۔ لیکن انھوں نے برطانوی فوج کی ‘غنڈہ گردی’ پر ایک لفظ بھی نہیں کہا جنھوں نے بغیر سوچے سمجھے فائرنگ کی جس میں سیکڑوں بے گناہ افراد مارے گئے۔‘

کانگریس کے سینیئر رہنماؤں نے بحریہ کے جوانوں تحمل کا مظاہرہ کرنے اور مسئلے کے پرامن حل کا مشورہ دیا۔ اس معاملے میں کانگریس کی رہنما ارونا آصف علی ہی مستثنیٰ تھیں۔

جنرل کلاؤڈ آچنلیک

جنرل کلاؤڈ آچنلیک

نو اگست 1942 کو گووالیا ٹینک گراؤنڈ میں کانگریس کا جھنڈا لہرانے والی ارونا آصف علی، جئے پرکاش نارائن، رام منوہر لوہیا اور دیگر سوشلسٹوں کی حلیف تھیں۔ نظریاتی طور پر وہ خود کو سردار پٹیل سے زیادہ جواہر لعل نہرو کے قریب محسوس کرتی تھیں۔ وہ کسم اور پی این نایر کی بھی دوست تھیں جن کے میرین ڈرائیو والی رہائش گاہ پر اس بغاوت سے متعلق میٹنگو ہوا کرتی تھیں۔

کانگریس تذبذب کا شکار

کانگریس کے رہنماؤں کے لیے بغاوت کا وقت بڑا سر درد تھا۔ پرمود کپور کہتے ہیں کہ ’گاندھی، نہرو اور سردار پٹیل بغیر کسی رکاوٹ کے اقتدار کی منتقلی کے حق میں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ انگریزوں کے ساتھ خونی لڑائی سے اقتدار چھینا نہیں چاہیے۔‘

’انھیں کہیں نہ کہیں یہ خیال بھی ستا رہا تھا کہ برطانوی فوج کی جانب سے سخت کارروائی کے نتیجے میں کہیں آزادی کے حصول میں تاخیر نہ ہو۔ دوسری جانب سردار پٹیل کو یہ بھی خوف تھا کہ بحریہ کے جوانوں کی یہ بے قا‏‏عدگی کہیں مثال نہ بن جائے گی اور آزادی ملنے کے بعد انھیں بھی اس کا مزہ چکھنا پڑے۔’

دلچسپ بات یہ تھی کہ ایک طرف تو کانگریس کے قائدین تشدد کی مذمت کر رہے تھے لیکن دوسری طرف وہ یہ ظاہر بھی نہیں کرنا چاہتے تھے کہ ان کا بحریہ کے جوانوں سے کوئی سروکار نہیں۔

نہرو مظاہرین سے ملاقات کیے بغیر الہ آباد لوٹ گئے

جب کشیدگی حد سے بڑھ گئی تو ارونا آصف علی نے 21 فروری کو نہرو کو ایک ٹیلی گرام بھیجا جس میں لکھا تھا: ’بحریہ کی ہڑتال سنگین، آپ کی بمبئی میں موجودگی ضروری ہے۔‘

اس ٹیلی گرام کے بارے میں جاننے کے بعد سردار پٹیل ناراض ہو گئے۔ انھوں نے گاندھی کو ایک خط میں لکھا: ارونا نے نہرو کو بحریہ کے جوانوں سے ملنے کے لیے بمبئی آنے پر راضی کر لیا ہے۔ انھوں نے یہ کام اس لیے کیا ہے کہ انھیں اس معاملے میں میری حمایت نہیں مل سکی۔ نہرو نے مجھے ٹیلی گرام سے پوچھا ہے کہ کیا میرا بمبئی آنا ضروری ہے؟ میں نے ان سے کہا ہے کہ وہ نہ آئیں۔ لیکن وہ پھر بھی یہاں آ رہے ہیں۔‘

نہرو نے بمبئی آنے کے لیے پہلی دستیاب ٹرین پکڑی لیکن سردار پٹیل نے انھیں جوانوں سے ملاقات نہ کرنے پر راضی کر لیا۔ نہرو اسی دن الہ آباد واپس آئے۔ یہیں سے بغاوت کمزور ہونے لگی۔

سردار پٹیل کی اپیل پر سرینڈر کیا

سردار پٹیل نے ایک اپیل جاری کی اور جوانوں سے ہتھیار ڈالنے کو کہا۔ کانگریس کے صدر مولانا آزاد نے بھی ہڑتال ختم کرنے پر زور دیا۔

اسی دن مہاتما گاندھی کے مشورے پر سردار پٹیل نے ایم ایس خان کی سربراہی میں ہڑتال کمیٹی کو بات چیت کے لیے بلایا۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس گفتگو کے دوران سردار پٹیل نے انھیں غیر مشروط طور پر اپنے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا۔

یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ برطانوی حکومت نے سردار پٹیل کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر وہ بحریہ کے جوانوں کو غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کے لیے راضی کر لیتے ہیں تو اس ہڑتال کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ ایم ایس خان نے سردار پٹیل سے کہا کہ کیا وہ اس بارے میں تحریری یقین دہانی کروا سکتے ہیں تو سردار بہت ناراض ہو گئے۔

نہرو اور پٹیل

نہرو اور پٹیل

دلیپ کمار داس اپنی کتاب ’ریویزٹنگ تلوار‘ میں لکھتے ہیں: ’سردار نے میز پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے کہا، جب آپ کو میری باتوں پر یقین نہیں تو میری تحریری یقین دہانی کا کیا معنی رہ جاتا ہے۔‘

آخر کار 23 فروری کو صبح چھ بجے بغاوت کرنے والے بحریہ کے جوان سفید جھنڈے لے کر اپنے جہازوں پر پہنچے۔ ایم ایس خان نے اعلان کیا کہ موجودہ بدقسمت حالات میں کانگریس نے ہمیں ہتھیار ڈالنے کا مشورہ دیا ہے۔ ہم انگریزوں کے سامنے نہیں بلکہ اپنے ہم وطنوں کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ حکومت نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ ہمارا استحصال نہیں کیا جائے گا۔‘

ہتھیار ڈالنے کی دستاویز کو حتمی شکل کمیونسٹ رہنما موہن کمارامنگلم نے دی۔

بحریہ کے جوان

انگریزوں کی وعدہ خلافی

لیکن انگریزوں نے سردار پٹیل اور بحریہ کے جوانوں سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ 23 فروری کو ہتھیار ڈالنے والے 400 جوانوں کو، جنھیں انگریزوں نے بغاوت کا سرغنہ قرار دیا تھا، گرفتار کر کے مولند کے قریب حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ ان میں ایم ایس خان اور مدن سنگھ بھی شامل تھے۔ وہاں بھی ان کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا گیا۔

بعد میں ان افراد کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ ہر بحریہ کے نوجوان کو اپنے گھر جانے کے لیے ریلوے سٹیشن تک چھوڑا گیا تھا۔ انھیں ایک طرف کا تیسرے درجے کا ریلوے ٹکٹ دیا گیا۔ ان کی وردی کو پہنچنے والے ہر نقصان کا ہرجانہ ان کی تنخواہ سے کاٹ لیا گیا۔ گھر جاتے ہوئے انھیں متنبہ کیا گیا کہ اگر کبھی بمبئی کا رُخ کیا تو ان کی خیر نہیں۔

تاریخ میں مناسب جگہ نہیں ملی

بحریہ کے ان جوانوں کو سب سے بڑا دکھ اس لیے بھی تھا کہ آزاد ہونے کے بعد بھی انڈین رہنماؤں نے ان کا خیال نہیں رکھا۔ ایک جوان نے سوال اٹھایا: ’ہمیں ہتھیاروں سے لڑنے کی تربیت دی گئی تھی۔ ہمارے لیے چرخے سے لڑنا ممکن نہیں تھا۔‘

اس بغاوت میں شریک بحریہ کے بِشو ناتھ بوس نے ایک کتاب ’آر آئی این میوٹینی 1946‘ لکھی۔ اس میں انھوں نے نہرو کے نام اپنے خط کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: ’مجھے نہ صرف بحریہ کے ان جوانوں کا رہنما بتا کر گرفتار کیا گیا بلکہ مجھے ملازمت سے بھی برطرف کر دیا گیا۔‘

’جیل سے باہر آنے کے بعد میں آپ سے مسلسل رابطہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں تاکہ مجھے اپنی نوکری واپس مل سکے۔ اگر ایسا کوئی قانون ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے بعد کسی کو سرکاری ملازمت نہیں دی جا سکتی ہے تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کانگریس پارٹی کے رہنما کی حیثیت سے آپ بھی جیل گئے تھے لیکن آپ تو وزیر اعظم کے عہدے کو رونق بخش رہے ہیں۔‘

دوسری عالمی جنگ کے بعد جہاں جواہر لعل نہرو نے انڈین نیشنل آرمی کے جوانوں کے خلاف جاری مقدمے کی سماعت میں ان کی مدد کے لیے برسوں بعد اپنی وکالت کا کالا کوٹ زیب تن کیا وہین انگریزوں کے خلاف بغاوت کا بگل بجانے والے ان بحریہ کے جوانوں نہ تو بحال کیا گیا اور نہ ہی انھیں مجاہد آزادی کا درجہ دیا گیا۔ انھیں ایک طرح سے فراموش کر دیا گیا تھا۔ ان کے کارناموں کو ہندوستانی تاریخ میں بھی وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ حقدار تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp