مولانا طارق جمیل: فیشن اور کپڑوں سے متعلق کاروبار ایم ٹی جے قائم کرنے پر مذہبی رہنما کی وضاحت، سوشل میڈیا پر تبصرے


پاکستان کی ایک معروف مذہبی شخصیت مولانا طارق جمیل کے حوالے سے گذشتہ کئی روز سے ایسی خبریں سامنے آ رہی تھیں کہ انھوں نے کاروباری دنیا میں قدم رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اپنے نام سے ایک برانڈ قائم کیا ہے۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر یہ سوال پوچھا جانے لگا کہ یہ کمپنی کس چیز کی ہو گی اور کیا اب اس کے ساتھ وہ اپنی دینی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں گے یا نہیں۔

یہ بحث اتنی بڑھ گئی کہ گذشتہ روز طارق جمیل کو خود اس کی وضاحت کے لیے ایک ویڈیو پیغام جاری کرنا پڑا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مذہبی سرگرمیوں خاص کر مدرسے چلانے کے لیے کاروبار کرنے کا بہت عرصے سے سوچ رہے تھے تاہم اب کووڈ 19 کے باعث انھیں اپنی اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ملا۔

انھوں نے کہا کہ ’برصغیر میں علما کا کاروبار کرنا یا تجارت کرنا عیب سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات پتا نہیں یہاں کہاں سے آ گئی ہے۔‘

بہت سے لوگ طارق جمیل کے اس فیصلے پر انھیں مبارکباد دے رہے ہیں اور ان کے لیے دعا گو ہیں مگر دوسری طرف اس نے ایک بحث کو بھی جنم دیا ہے کسی مذہبی سکالر کی جانب سے کاروبار کرنے پر اعتراض کیوں اٹھایا جاتا ہے۔

طارق جمیل کی کمپنی ایم ٹی جے کیا فروحت کرے گی؟

طارق جمیل کے نام سے منسوب کمپنی ’ایم ٹی جے‘ کراچی میں رجسٹرڈ ہے۔

کمپنی کی لنکڈ اِن پروفائل پر لکھا گیا ہے کہ ’یہ ایک فیشن برانڈ ہے جو کوالٹی اور دیانتداری سے چلائی جائے گی’ اور یہ ’مولانا طارق جمیل کی خدمت خلق سے متاثر ہو کر قائم کی گئی ہے۔‘

پروفائل کے مطابق کمپنی میں 50 سے 100 لوگ ملازمت کر رہے ہیں۔ کمپنی کی باقاعدہ ویب سائٹ ’ایم ٹی جے آن لائن‘ کو باقاعدہ طور پر متعارف نہیں کرایا گیا ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق کمپنی کے ذریعے شلوار قمیض اور کُرتے فروخت کیے جائیں گے۔

یوٹیوب پر اپنی حالیہ ویڈیو میں مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ ’سنہ 2000 کے دوران انھوں نے فیصل آباد میں مدرسہ الحسنین کی بنیاد رکھی تھی۔ بعدازاں اس مدرسے کی 10 شاخیں مختلف شہروں میں قائم کی گئیں۔ یہاں ہمارے شاگرد پڑھا رہے ہیں اور تعلیم عربی میں دی جاتی ہے۔‘

’دوست احباب کے تعاون سے یہ سلسلہ چل رہا تھا۔ گذشتہ سال کورونا وائرس کی لہر چلی اور کاروبار ٹھپ ہو گئے۔ مدارس تو ساتھیوں کے تعاون سے چلتے تھے۔‘

مولانا نے مزید کہا کہ ’میں نے مدارس بند کر دیے اور آن لائن اسباق شروع کیے۔ مجھے پریشانی شروع ہوئی کہ لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو گئے ہیں۔ ہمارے مدارس لوگوں کے تعاون، زکوٰۃ و خیرات سے چلتے ہیں۔ تو اب میں کس منھ سے ان سے کہوں کہ زکوٰۃ دو جبکہ وہ خود انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے مدرسے میں چندہ مانگنے کا کوئی مستقل نظام نہیں تھا نہ اب ہے۔ صرف میں اکیلا اپنے دوستوں کو فون کر کے ان سے تعاون کی اپیل کر دیتا تھا، وہ (مدد) کر دیتے تھے۔‘

’جب کورونا نے سب کو متاثر کیا تو میں نے کہا کہ میں نے اب کسی سے چندہ نہیں مانگنا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ یہ نظام چلے گا کیسے۔‘

’اللہ نے میرے دل میں ڈالا کہ ہم کوئی کاروبار کریں جس کی کمائی کو مدارس پر لگائیں۔ میری یہی نیت بنی کہ کوئی ایسا کاروبار ہونا چاہیے۔‘

’مولوی کا تصور ہے کہ وہ بھیک مانگتا ہے‘

مولانا طارق جمیل نے بتایا کہ ’دوستوں نے تعاون کے لیے ہاتھ بڑھایا۔۔۔ اور ہم نے میرے نام سے ایک برانڈ ایم ٹی جے لانچ کرنے کا ارادہ کیا۔۔۔ ہمارے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہے۔‘

دو روز قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے طارق جمیل کے ایک ترجمان نے بتایا تھا کہ کراچی کی ایک کمپنی اپنے برانڈ کے لیے مولانا کا نام استعمال کرنا چاہتی تھی تاہم انھوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں۔

طارق جمیل اپنی ویڈیو میں کہتے ہیں کہ ’میں کوئی کاروبار اس لیے نہیں کر رہا کہ پیسے بناؤں۔ میں نے ساری زندگی پیسے نہیں بنائے۔۔۔ ہمارا کوئی کاروباری ذہن نہیں۔ جب سے تبلیغ میں لگا ہوں کاروبار نہیں کیا بس 1984 میں ایک بار کپاس کاشت کروائی تھی۔‘

’اس برانڈ سے کاروبار کا ارادہ نہیں ہے۔ اس کی کمائی فاؤنڈیشن پر لگانا چاہتا ہوں۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ اس کی کمائی سے اچھا ہسپتال اور سکول بنائیں گے۔

’ہمارے برصغیر میں علما کا کاروبار کرنا یا تجارت کرنا عیب سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات پتا نہیں کہاں سے آ گئی۔ حالانکہ امام ابو حنیفہ، جن نے فتوے ہم (مسلمان) مانتے ہیں، ان کے زمانے میں اُن سے بڑا کپڑے کا تاجر کوئی نہیں تھا۔‘

انھوں نے اعتراض کیا کہ ’مولوی کا تصور ہے کہ وہ بھیک مانگتا ہے اور وہ لوگوں سے مانگتا ہے۔۔۔ ہم نے کسی کاروباری نیت سے یہ کام نہیں کیا، کسی کے مقابلے میں نہیں کیا۔‘

’کم از کم میرے مدارس اس سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں اور میرے دنیا سے جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہے۔‘

یاد رہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی مذہبی شخصیت نے پاکستان میں کپڑوں کا برانڈ قائم کیا ہو۔ سنہ 2004 میں موسیقی کی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد جنید جمشید نے ملبوسات کا کاروبار شروع کیا تھا جو آج پاکستان کے نمایاں ترین فیشن برانڈز میں سے ایک ہے۔

حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن اور معروف اینکر عامر لیاقت حسین کے نام سے منسوب کمپنی بھی مردانہ اور زنانہ کپڑے فروخت کرتی ہے۔

’کاروبار گناہ تو نہیں‘

پاکستانی سوشل میڈیا پر اس خبر کے ردعمل میں کئی لوگوں نے تبصرہ کیا ہے۔

ٹوئٹر صارف ادریس اکرمزئی لکھتے ہیں کہ ’تنقید سے گریز کریں کیونکہ تجارت گناہ نہیں ہے۔۔۔ دیگر مذہبی شخصیات کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ کاروبار کریں۔‘

اینکر اقرار الحسن نے کہا کہ ’خبر ہے کہ مولانا طارق جمیل یا اُن کے صاحبزادے نے کپڑوں کے برانڈ کا آغاز کیا ہے۔

’تجارت سنت بھی ہے اور شرعاً اس میں کوئی قباحت بھی نہیں۔ میں دل کی گہرائیوں سے انھیں مبارک باد اور نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں اور ناقدین سے گزارش کہ کوئی منطقی یا شرعی دلیل لائیں یا خاموشی فرمائیں۔‘

صارف اریبہ نے لکھا کہ ’کیا مذہبی لوگوں کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کاروبار کریں؟ یہ اچھی چیز ہے۔ روزی کمانا سب کا حق ہے اور ضرورت بھی۔‘

علی نامی صارف نے طنزیہ لکھا کہ ’ویسے بھی تو مذہب کے نام پر تقریباً تمام مولوی کاروبار ہی تو کر رہے ہیں۔‘

اُم فاروق نامی صارف کے مطابق طارق جمیل کی جانب سے ’بزنس شروع کرنے پر تنقید نہیں بنتی۔‘

’مذہبی افراد کو بھی اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے دولت کمانے کے جائز ذرائع اختیار کرنے چاہییں۔۔۔ ان کی ویور شپ کو بھی یہ ایک عملی میسج ہے کہ اللہ نے دولت کمانے سے منع نہیں کیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp