وکٹوریہ کی بلی


وکٹوریہ نے اپنی آستین اوپر کی اور مجھے اپنے کندھے کی خراشیں دکھاتے ہوئے کہا، ’دیکھو کل کیٹی نے میرا کیا حشر کیا، میں ساری رات صحیح سے سو نہیں سکی، وہ چلاتی رہی اور مجھ سے لحاف چھینتی رہی‘ وکٹوریہ، جسے سب وکی بلاتے تھے، کو میں نے کہا ’وکی تمہیں کیا ملتا ہے اس منحوس بلی سے ، جسے تم نے اپنے سر پر سوار کر رکھا ہے، رات بھر تمہیں سونے نہیں دیتی، میں تو کہتا ہوں زہر دے کر مارو اسے اور جان چھڑاؤ‘ میں نے اپنی طرف سے اس کے ساتھ ہمدردی اور پیار جتاتے ہوئے کہا۔

اس نے قہر آلود نظروں سے مجھے یوں گھورا جیسے اس میں کسی جنگلی بلی کی روح حلول کر گئی ہو۔ وہ لپک کر بولی ’تمہیں کیا پتہ کیٹی میرے لئے کیا ہے، وہ میری تنہائی کی ساتھی ہے اور اس کے وجود سے میری مردہ سی زندگی میں ایک حیات کا احساس باقی رہتا ہے‘ ۔ میں کچھ کھسیانا سا ہو گیا اور اس کی قربت حاصل کرنے کی کوشش میں الٹا اسے ناراض کر بیٹھا۔

میں نے اور وکی دونوں نے ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنسی کی کمپنی میں چھ ماہ پہلے جوائن کیا تھا۔ میں نے کراچی سے چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کی ڈگری لی تھی اور پھر کچھ سال قبل سعودی عرب چلا گیا۔ جب عربوں کی خدمت سے دل اچاٹ ہوا اور گھٹن بڑھنے لگی تو یہ پنچھی سونے کے پنجرے سے اڑ کر خاندان سمیت گورے کے دیس میں آ بسا۔ مجھ پر ہمیشہ خدا کا فضل رہا اور یہاں ولایت میں بھی اچھی نوکری ملی اور گھریلو زندگی پرسکون گزرنے لگی۔ میں اس فرم میں اکاؤنٹس کنٹرولر تھا۔ میرا روزانہ سب سے پہلے وکی سے ہی سامنا ہوا کرتا کیوں کہ وہ یہاں ریسپشنسٹ تھی۔

سڈول جسم، تیکھے نقوش اور نیلی آنکھوں کی مالک وکی ایک خوبصورت سفید فام لڑکی تھی ، جسے کوئی بھی دیسی لڑکا پہلی نظر میں ہی دل دے بیٹھے، اس کے چہرے پہ ہمیشہ ایک دل آویز مسکراہٹ رہا کرتی۔ لیکن اس کی چند باتیں اس کے ملنے والوں کو نامناسب لگتیں۔ وہ یہ کہ وکی اپنی قبض سے لے کر دیگر پوشیدہ جسمانی عارضوں کی بابت سر عام گفتگو کرتے کوئی احتیاط اور شرم روا نہ رکھتی۔ وہ کھلے بندوں اپنے ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل کے بارے میں سیر حاصل معلومات فراہم کرتی اور ان کی ادویہ کی لمبی فہرست بھی گنوا دیا کرتی۔ اس کی ملنسار اور بے پروا طبیعت کے باعث جلد ہی ہماری گاڑھی چھننے لگی تھی۔ جب میں پہلی دفعہ وکی سے ملا تو وہ مجھے بڑی گرم جوشی سے گلے ملی، اس کے گلابی رخسار جب میری گالوں سے ٹکرائے تو اس مشرقی نوجوان کو دسمبر میں بھی پسینہ آ گیا۔ وہ سب سے ایسے ہی ملا کرتی اور دور سے دیکھتے ہی بانہیں پھیلا دیا کرتی۔

ایک مرتبہ اس نے اپنے موبائل فون میں مجھے ایک مردہ چوہے کی تصویر دکھائی جو اس کے بیڈ روم کے فرش پر اوندھا پڑا تھا، کہنے لگی ’اسے کیٹی چند دن پہلے شکار کر کے اٹھا لائی تھی‘ ۔ میں بولا ’اوہو گھر گندا ہو گیا تمہارا تو‘ ۔ وکی نے زور دارقہقہہ  لگایا اور بولی ’Yes، She is very mean‘ ، حالاں کہ مجھے مرا ہوا چوہا دیکھ کر ابکائی سی آ گئی اور بلی پہ غصہ آنے لگا۔

وکی ہمیشہ با آواز بلند ہی ہنسا کرتی لیکن مجھے معلوم تھا اس کی اس بظاہر کھلکھلاتی ہنسی میں کئی دبی دبی سسکیاں چھپی ہوتیں۔ میں نے برطانیہ کے کھوکھلے خاندانی نظام کے بارے میں کئی باتیں سن رکھی تھیں لیکن جب وکی نے مجھے اپنی کتھا سنائی تھی تو مجھے ٹوٹ پھوٹ کے شکار اس نظام کی حقیقت کا صحیح معنوں میں ادراک ہوا۔ وکی کی کھلکھلاتی ہنسیوں کے پیچھے کئی درد پنہاں تھے۔ اس نے بچپن میں نشے کی عادی ماں کی ماریں کھائیں تھیں اور ماں کے بوائے فرینڈ کے ہاتھوں کئی سالوں تک جنسی ہراسانی سہی تھی۔ اس کا اپنا پرانا بوائے فرینڈ بھی اس کا استحصال کرنے اور کئی ہزار پاؤنڈ کا مقروض بنانے کے بعد چھوڑ کے جا چکا تھا۔ ان واقعات نے وکی کی نفسیات پہ ان مٹ نقوش چھوڑے تھے جیسے درخت کے تنے پہ وقت، داغ ڈالتا ہے۔

میں نے ایک دفعہ اسے کہا ’وکی تم بلی کی بجائے کوئی کتا کیوں نہیں پال لیتی جو نسبتاً صفائی پسند، تابعدار اور وفا شعار جانور ہوتا ہے جبکہ بلی تو ایک آوارہ گرد اور خود غرض جانور ہے‘ یہ سن کر وکی کے دانت بھنچ گئے تھے اور ماتھے پہ شکنیں آ گئیں، اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں، میں نے گڑ بڑا کر کہا ’نہیں، وہ میرا مطلب ہے کہ میں نے ایسا سن رکھا ہے، معاف کرنا میری معلومات بلیوں کے بارے میں ذرا محدود ہیں‘ ۔

اور یہ حقیقت بھی تھی، بلی کیا بلکہ کسی بھی جانور کے بارے میں میری معلومات واجبی سی تھیں۔ ویسے بھی جس انسان کو دیگر کئی پر خلوص انسانوں کی صحبت کی عنایات حاصل ہوں اسے جانوروں سے کیا مطلب، پھر جب انسان سنی سنائی باتوں کی وکالت میں اپنا فیصلہ صادر کرنے لگتا ہے تو مبالغہ آرائی سے بھی کام لیتا ہے، خاص کر جب اس کے بدلے اس کی کوئی غرض پنہاں ہو۔ وکی بولی ’کیٹی تو میری جان ہے، چار سال سے ہم اکٹھے ہیں وہ بے شک مجھے جسمانی مشقت میں مبتلا کرتی ہے لیکن جذباتی راحت بھی پہنچاتی ہے، پھر جب میں ڈپریشن کی ماری دکھتے جسم کے ساتھ اپنے بیڈ میں پڑی ہوتی ہوں تو کیٹی ہی میرے پاؤں چاٹتی اور زندگی کا احساس دلاتی ہے‘ ۔

وکی نے آنکھیں سکوڑیں اور طنز آمیز لہجے میں کہا ’میری ایسی حالت میں کیا تم آؤ گے کیٹی کی جگہ، مجھے گلے لگانے اور بوسہ دینے؟‘ ساتھ ہی اس نے ایک ادا سے اپنی سنہری زلفوں کو جھٹکا دیا۔ میں گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا، ظاہر ہے میرے عائلی اور خانگی حالات ایسا کوئی وعدہ کرنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ وکی نے ماہر کھلاڑی کی طرح میری کمزوری بھانپتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں قہقہہ بلند کیا اور مجھے سینے سے بھینچ لیا اور اپنے ہونٹ میرے کان کے پاس لا کر بولی ’ہوں! وفادار کتے کہیں کے‘ ۔ مجھے ایک جھرجھری سی آ گئی اور دل زور زور سے سینے کے ساتھ بجنے لگا جیسے بھرے بازار میں کسی نے میری چوری پکڑ لی ہو۔

میں چند دن کی چھٹیاں گزار کر کام پہ واپس آیا تو معلوم ہوا کہ وکی کئی دن سے غیر حاضر ہے، کیوں کہ اس کی نفسیاتی بیماری ان دنوں زور پکڑ گئی تھی۔ تب وکی روزانہ فیس بک پہ اپنا سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتی جس میں وہ اپنی نیم برہنہ تصاویر شیئر کرتی، جہاں وہ کیٹی کے ساتھ شرارتوں میں مشغول ہوتی۔ پھر تین ماہ تک وکی کام پہ واپس نہ آئی اور آخر کار جب آئی تو اسے نوکری سے برخاستگی کا نوٹس مل گیا۔ وکی نے بہت ہاتھ پاؤں مارے اور منت سماجت کی لیکن کسی نے ایک نہ سنی، اس نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی جانب سے اپنے لئے تعریفی خطوط جمع کروائے اور آئندہ باقاعدگی سے کام پہ آنے کے وعدے کیے، میں نے بھی اس کے حوالے سے ایک تعریفی مضمون لکھا، لیکن کچھ کارگر نہ ہوا اور اسے غیر مستقل ملازمت ہونے کی بنا پر نوکری سے نکال دیا گیا۔

ان واقعات نے وکی کی ذہنی حالت پہ مزید برا اثر ڈالا۔ چند دنوں بعد سننے میں آیا کہ وہ نفسیاتی بیماریوں کے ایک ہسپتال میں داخل ہے جہاں اسے زبردستی رکھا جا رہا ہے کیونکہ وکی نے اپنی جان لینے کی کوشش کی تھی اور خطرہ تھا کہ وہ پھر اپنے آپ کو کوئی نقصان پہنچا بیٹھے گی۔ وکی اب اپنے حواس کھو بیٹھی تھی۔ اس سارے عرصے کے دوران میں اسے ملنے اور حال پوچھنے تک نہ گیا۔ شاید اس کی وجہ میری بزدلی تھی یا خود غرضی، لیکن دفتر میں وکی کی جگہ اب ایک نئی اور سبز آنکھوں والی ریسپشنسٹ آ چکی تھی۔ یقیناً کیٹی جہاں بھی ہو گی وکی کی یاد میں روتی ہو گی جیسا کہ بلیوں کا راتوں میں رونا ہم سنتے آئے ہیں۔ وفاداری اور بے لوث ہونے میں جانور انسانوں سے بڑھ کے ہی ہوتے ہیں۔

سننے میں آیا کہ ابتدائی ٹیسٹوں سے پتہ چلا ہے کہ وکی حاملہ تھی لیکن اب ذہنی طور پہ مفلوج ہونے کی بناء پر بچے کے والد کا نام بتانے سے قاصر تھی۔ چند ماہ بعد آفس کی ایک کولیگ نے بتایا کہ وکی کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کی آنکھیں بھوری اور رنگت گندمی تھی وہ سفید فام ہونے کی بجائے برصغیر پاک و ہند کا لگتا تھا۔ میں اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے جلدی جلدی اپنا کام مکمل کرنے لگا، کیونکہ آج ویلنٹائن ڈے تھا اور میں نے واپسی پہ اپنی بیوی کے لئے پھول، کٹ کیٹ چاکلیٹ اور تحفہ بھی خریدنا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments