مولانا طارق جمیل سے ایم ٹی جے تک کا سفر



پچھلے دنوں مولانا طارق جمیل صاحب نے کپڑوں کا نیا برینڈ کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے جنید جمشید ایسا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں۔ ان کے کاروبار کے حوالے سے سوشل میڈیا پر آوازیں سنائی دیں۔ تنقید کرنے والوں میں یہ ناچیز بھی شامل رہا۔ اگر میں غلط نہ ہوں تو مولانا طارق جمیل صاحب کی اس وقت عمر میرے حساب سے 67 سال تو یقیناً ہو گی۔ اب آخری عمر میں آ کر ان کو کاروبار کرنے کی کیا سوجھی ، اس کے بارے میں تو وہی بتا سکتے ہیں۔

وہ تو دین کی تبلیغ کے لیے نکلے تھے اور یوں ان کا قافلہ سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ان کے چاہنے والوں سے یہ بھی سنا ہے کہ وہ ایک کھاتے پھیتے زمیندار گھرانے سے ہیں جس کی ساری آسائشیں چھوڑ کر وہ دین کی خدمت کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ پھر سوشل میڈیا کی آمد سے ان کے چاہنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور وہ ایک عام سے تبلیغی مبلغ سے بین الاقوامی مذہبی سیلیبریٹی کا روپ دھار چکے ہیں۔

مولانا صاحب کے بین الاقوامی دورے ایڈوانس شیڈولڈ ہوتے ہیں جہاں عقیدت مندوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔ ان کی بین الاقوامی پذیرائی کی بنیادی وجہ ان کا فروعی اور مسلکی فرقہ پرستی سے بھرپور اجتناب ہے جس سے ایک پڑھا لکھا مسلمان عاجز آیا ہوا ہے۔ بیرون ملک رہنے والے مسلمانوں کا رجحان اس لے ایسے علماء کی طرف زیادہ دیکھنے میں آتا ہے اور یہ دورے لاکھوں کے عوض طے پاتے ہیں جس کے لیے باقاعدہ کاروباری فنانسرز ہوتے ہیں۔

مولانا صاحب نے شہرت حاصل کرنے کا ایک دوسرا مؤثر طریقہ بھی اپنایا ہوا ہے اور وہ ان کا مشہور سلیبریٹیز کے ازدواجی اور نجی مسائل حل کرنے کی جستجو ہے جو ان کی میڈیا پر بھرپور کوریج کا باعث بنتی ہیں حالانکہ یہ مسائل عام لوگوں کی زندگیوں میں زیادہ شدت سے ہوتے ہیں جہاں مولانا صاحب کو ثالث بنتے نہیں دیکھا گیا یا کم ازکم میری معلومات اس بارے میں ناقص ہیں۔

پھر سیاسی جماعتوں کے حکمران بھی مولانا کی بڑھتی ہوی مذہبی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ان کو اپنے ہاں مدعو کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ کسی عالم کا یوں حکمرانوں کے درباروں میں حاضری دینا مناسب نہیں لگتا لیکن کیا کیا جائے فتووں کی ڈوری نہ آپ کے پاس ہے اور نہ میرے پاس ، یہ بھی انہی علماء کے پاس ہیے جیسے چاہیں دین کی تشریح کریں کیونکہ ان کے پاس عقیدت مندوں کی طاقت ہے۔

ان کی محفل میں ہر شرکت کرنے والے مسلمان کا مرکزی نقطہ اپنے دین سے محبت ہے ، جس کی بنیاد پر وہ ہر اس شخص کو عزت دیتا ہے جو ان کے دین کی بات کرے۔ لیکن یہ کیا؟ چالیس سال تک دین کی باتیں کرنے والے اچانک دنیا داری میں پڑ جائیں تو ذہن کو ایک جھٹکا لگتا ہے اور بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ چالیس سال کی انویسٹمنٹ محض دنیا کمانے کے لیے کی گئی تھی جہاں پہلے اعتماد بناؤ اور پھر مال بناؤ کا بنیادی اصول کارفرما تھا۔ اور اعتماد کے لیے بھی دین کا استعمال؟

ہچھلے سال جب وہ کینیڈا آئے تھے تو وہاں ان کے ایک اجتماع میں شرکت کا موقع ملا تو دیکھ کر حیرت ہوئی کہ مذہبی اجتماع اب کسی عبادت سے زیادہ کاروبار کا ذریعہ ہیں کیونکہ ان کے 30 منٹ کے خطاب سے پہلے دو گھنٹے ان کے دورے کے فنانسرز کے کاروبار کے حوالے سے بھرپور تشہیری مہم چلائی گئی تھی اور شرکاء کو اس اشتہاری مہم کے دوران بار بار درمیان میں ان کی تقریر کے پہلے سے ریکارڈ کیے گیے کلپ دکھائے جاتے رہے۔ حتیٰ کہ اپنی تقریر کے دوران مولانا صاحب نے اپنے فنانسرز کے کاروبار کا ذکر کیا اور اجتماع میں شامل لوگوں سے ان کی پراڈکٹ خریدنے اور ان کے کاروبار میں ترقی کے لیے دعائیں منگواتے رہے۔

چونکہ میری کسی مذہبی پروگرام میں شرکت تقریباً دو دہائیوں کے بعد ہوئی تھی ، اس لیے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ مذہبی علماء بھی اب اتنا زیادہ خود کو ڈجٹلائزڈ کر چکے ہیں۔ لہٰذا اس محفل کے آخر میں مجھے نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہیں لگی کہ مولانا صاحب اب خالصتاً دنیاوی کام میں پڑ چکے ہیں ، ورنہ دین والوں کی عاجزی اور درویشی کا الگ ہی انداز ہوتا ہے اور وہ دنیاوی لذتوں سے بے نیاز دور سے اپنی مخصوص خوشبو کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments