پاکستانی ٹیم کی جیت خوب لیکن کمزوریوں پر بھی نگاہ رکھیے


پاکستانی کرکٹ ٹیم نے جنوبی افریقہ کے خلاف کرکٹ کا معرکہ بہت آسانی سے سر کر لیا۔ ٹی 20 کے تین میچوں میں سے 2 میچ اپنے نام کیے اور 2 ٹسٹ میچوں کی سیریز میں جنوبی افریقہ کی ٹیم پر بالکل ہی چونا پھیر کر رکھ دیا اس طرح دونوں سیریز اپنے نام کر کے نہ صرف ٹیم کا حوصلہ بہت زیادہ بلند کیا بلکہ کھلاڑیوں میں اس جیت کی وجہ سے ایک نئی تازگی سی دوڑ گئی۔ جس کی وجہ سے یہ امید ہو چلی ہے کہ آئندہ کھیلی جانے والی جتنی بھی سیریز ہوں گی وہ بھی پاکستان اپنے حق میں کرنے میں کامیاب و کامران ہو گا۔

جیت اپنی جگہ لیکن 3 ٹی 20 اور دو ٹیسٹ میچوں میں جو کمزوریاں سامنے آئیں ، وہ کمزوریاں پاکستان کو کسی بھی وقت شکست در شکست سے دو چار کر سکتی ہیں اور اگر ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش نہ کی گئی یا ان سے چشم پوشی اختیار کر کے جیت کو اسی طرح مناتے رہے جس طرح اب تک مسلسل منایا جا رہا ہے تو یہ رویہ پاکستان کی کرکٹ کے زوال کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

سیریز ٹی 20 کی ہو یا ٹیسٹ میچ کی، اگر کھیلے گئے میچوں پر بھرپور نظر ڈالی جائے تو کئی ایسے پہلو ہیں جو اس بات کی مسلسل دعوت دے رہے ہیں جس پر محنت کرنے اور ان کو ”صفر“ تک لانے کی از حد ضرورت ہے۔

ان سارے میچوں میں جو کمزوریاں سامنے آئی ہیں ، ان میں ”مس فیلڈنگ“ بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ اگر تمام میچوں میں ہاتھوں میں آئے کیچوں کا اس طرح گر جانا جیسے ہاتھوں میں بڑے بڑے چھید ہوں، کسی بھی صورت قابل معافی کمزوری نہیں گنی جا سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ پورے پورے میچ میں کوئی ایک آدھ بار تو ضرور ہوتا ہے کہ وکٹ کیپر سمیت کسی بھی کھلاڑی کے ہاتھوں سے کوئی کیچ گر جائے لیکن ایسے زیادہ تر وہ کیچز ہوا کرتے ہیں جس کو کرکٹ کی اصطلاح میں ”مشکل“ سمجھا اور کہا جاتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی آسان سا کیچ کسی کھلاڑی کے ہاتھ میں آ کر نکل جائے لیکن ٹی 20 کی سیریز ہو یا ٹیسٹ میچوں کی، ان میں بلاشبہ درجن بھر سے زیادہ کیچز ڈراپ ہوئے اور ان میں 99 فیصد وہ کیچز تھے جو آسان بھی تھے اور ہاتھوں کی پہنچ سے دور بھی نہیں تھے۔

جیت میں اچھی یا خراب فیلڈنگ کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اچھی فیلڈنگ سے چوکے ایک یا دو دوڑوں میں یا جہاں دو دوڑیں یقینی نظر آ رہی ہوں ، وہاں کھلاڑیوں کو ایک ہی دوڑ میں محدود کر دینے سے کسی بھی ٹیم کو بڑا اسکور کرنے سے روک دیا جاتا ہے جبکہ خراب فیلڈنگ 1 دوڑ کو دو دوڑوں اور بعض اوقات ایک بھی دوڑ کے نہ ہونے کے یقین کو چوکے میں بدل دیا کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ اسکور جس کو بہت محدود دوڑوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہو، ایک بڑے اسکور کی صورت میں سامنے آ کر اپنی ٹیم کے لئے ایک نئی آزمائش کو جنم دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

پاکستان کی خراب فیلڈنگ کے باوجود بھی جنوبی افریقن پاکستان کی اس کمزوری کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے جس پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ بحیثیت مجموعی جنوبی افریقہ کی ٹیم پاکستانی ٹیم کے مقابلے میں کافی کمزور ٹیم تھی۔

پاکستانی ٹیم کی ایک بڑی کمزوری اور بھی سامنے آئی ، جس پر جتنی بھی تشویش کا اظہار کیا جائے اور آنے والا دنوں میں جتنی بھی محنت کی جائے شاید وہ کم ہی ہو۔ سارے میچوں، یعنی ٹی 20 اور ٹیسٹ میچوں کو سامنے رکھا جائے تو بہت تشویشناک بات جو سامنے آئی وہ پاکستان کے سارے چوٹی کے بلے بازوں کی مکمل نامی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چوٹی کے ایک دو بلے بازوں نے سنچریاں اور ففٹیاں بھی اسکور کی ہیں لیکن کسی بھی جیت کے لئے جو دوڑیں درکار ہوتی ہیں ، وہ تمام کی تمام یا تو آل راؤنڈرز نے بنائیں یا پھر بالرز نے اچھی بیٹنگ کرتے ہوئے اسکور کیں۔

کوئی ایک میچ بھی ایسا نہیں جس میں دوڑوں کے پہاڑ بلے بازوں نے کھڑے کیے ہوں۔ ایک جانب تمام تر مناسب یا جیت کے لئے درکار دوڑیں چوٹی کے بلے بازوں کی بجائے آل راؤنڈرز یا باؤلرز نے بنائی ہیں تو دوسری جانب مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو کوئی بھی بڑا اسکور کرنے سے روکنے یا ہدف کے حصول میں ناکام بنانے میں بھی نمایاں کردار باؤلرز ہی کا نظر آیا۔

ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو ٹی 20 کے میچز ہوں یا ٹسٹ میچز، ان میں ڈوڑیں اسکور کرنے میں چوٹی کے بلے بازوں سے زیادہ باؤلرز کا ہی ہاتھ رہا ہے تو دوسری جانب بالز ہی مخالف ٹیم کو مسلسل کم اسکور تک محدود رکھنے یا پاکستان کے دیے گئے دوڑوں کے اہداف کے اندر اندر جنوبی افریقہ کی ٹیم کو آؤٹ ہی نہیں آؤٹ کلاس کرنے میں کامیاب و کامران نظر آتے ہیں یعنی اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ بھی باؤلرز ہی کرتے نظر آئے تو باؤلنگ کا اعلیٰ معیار بھی ان ہی کی جانب سے دیکھنے آیا۔

بیشک ٹیم کا ہر فرد ایک مکمل ٹیم ہوا کرتا ہے اور باؤلرز ہوں یا بلے باز، سب کی مربوط کوششیں ہی کسی بھی ٹیم کو کامیابیاں دلایا کرتی ہیں لیکن جو جو کمزوریاں سامنے آئی ہیں اگر ان کی جانب توجہ نہ دی گئی تو آنے والے میچوں میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو کافی مشکلات کا سامنا درپیش ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ صرف جیت کا جشن ہی نہیں منایا جاتا رہے گا بلکہ پوری سنجیدگی کے ساتھ ہر ہر شعبے کو مزید بہتر بنانے کی جانب بھی بھرپور توجہ دی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments