اسلام آباد کی مارگلہ ہلز میں تیندووں کی موجودگی، انتظامیہ کا شہریوں کو انتباہ


وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی چیئرپرسن کا کہنا ہے کہ ان کا یہ اندازہ ہے کہ ان تیندووں کی افزائش میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دارالحکومت اسلام آباد کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تیندووں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اسلام آباد نے ہائیکنگ کے خواہش مند شہریوں کو سورج غروب ہونے کے بعد ٹریلز پر جانے سے گریز کرنے کا کہا ہے۔

وائلڈ لائف مینجمنٹ کی طرف سے شہریوں کو ٹریل پر جانے سے تنبیہ ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے کہ جب گزشتہ دنوں سی سی ٹی وی کیمروں میں تیندووں کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں۔

اسلام آباد وائلد لائف مینجمنٹ بورڈ کی چیئرپرسن رعنا سعید خان کا کہنا ہے کہ اب تک تقریباً پانچ تیندوے محکمے کے لگائے گئے کیمروں میں ریکارڈ ہو چکے ہیں جن کی جنس اور عمر کے بارے میں تحقیق جاری ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے رعنا سعید خان نے مزید بتایا کہ ایک تیندوے کا اوسطاً علاقہ 30 سے 40 مربع کلو میٹر پر مشتمل ہوتا ہے اور کوئی بھی تیندوا کسی دوسرے تیندوے کو اپنے علاقے میں نہیں آنے دیتا۔

ان کا کہنا تھا کہ شروع شروع میں یہی اندازہ لگایا گیا کہ یہ موسمِ سرما میں بالائی علاقوں سے ہجرت کر کے یہاں آئے ہوں گے اور گرمیوں میں مری اور نتھیا گلی کی جانب چلے جاتے ہوں گے۔ تاہم اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ وہی تیندوے ہیں جو عرصۂ دراز سے یہاں مقیم ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں ان کے لیے شکار کے وافر ذرائع موجود ہیں۔

رعنا سعید خان کا کہنا تھا کہ یہ تمام بہت شرمیلے تیندوے ہیں۔ دن کے وقت سوئے ہوتے ہیں جب کہ رات کے وقت شکار کے لیے نکلتے ہیں اور اسی مناسبت سے لوگوں کو شام کے وقت ٹریل پر جانے سے منع کیا گیا ہے۔

وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی چیئرپرسن کا کہنا ہے کہ ان کا یہ اندازہ ہے کہ ان تیندووں کی افزائش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیوں کہ ان کے کھانے کے لیے جنگلی سور، بندر اور دوسرے جنگلی حیات وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔

رعنا سعید خان کے مطابق اسلام آباد میں جنگلی سور کی بڑھتی ہوئی شرح تیندووں کی افزائش نسل کی وجہ سے ہی کنٹرول ہوئی ہے جس کی وجہ سے اسلام آباد میں اب جنگلی سور کم ہی نظر آتے ہیں۔

سن 1986 سے لے کر اب تک ایبٹ آباد میں خواتین اور بچوں سمیت کل 11 افراد تیندوے کی ذد میں آ چکے ہیں۔
سن 1986 سے لے کر اب تک ایبٹ آباد میں خواتین اور بچوں سمیت کل 11 افراد تیندوے کی ذد میں آ چکے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کامن لیپرڈ گلیات اور نتھیا گلی کی اطراف بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور چوں کہ آبادی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے تو کبھی کبھار ان کا انسانوں کے ساتھ آمنا سامنا بھی ہو جاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں انسانی آبادی میں بھیڑ بکریوں پر حملوں کے تناظر میں آگاہی کی کمی کے باعث کئی تیندووں کو مارا گیا ہے۔

مارگلہ ہلز نیشنل پارک 174 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جب کہ یہاں شکار پر سختی سے پابندی کے باعث جنگلی حیات کی افزائش میں مناسب اضافہ ہوا ہے۔

سب ڈویژنل آفیسر محکمہ جنگلی حیات ایبٹ آباد سردار محمد نواز کے مطابق گلیات اور اس کے گردونواح میں کامن لیپرڈ کے لیے ماحول بہت سازگار ہے اور اسی وجہ سے اس کی افزائش میں بہت اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر پہلے 40 مربع کلومیٹر کا رقبہ کسی تیندوے جوڑے کے لیے مختص ہوتا تھا تو اب وہ سکڑ کر تقریبا پانچ مربع کلومیٹر تک آ گیا ہے۔

یاد رہے کہ کسی ایک علاقے میں ایک ہی تیندوے کا جوڑا رہتا ہے اور کوئی دوسرا صرف اسی صورت میں وہاں آ سکتا ہے جب پہلے والا یا تو وہاں سے چلا جائے یا پھر اسے کوئی حادثہ پیش آ جائے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سردارمحمد نواز نے بتایا کہ ابھی تک تیندوے کے کسی بالغ مرد پر حملے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ ان کے بقول ابھی تک جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ان میں خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

سن 1986 سے لے کر اب تک ایبٹ آباد میں خواتین اور بچوں سمیت کل 11 افراد تیندوے کی زد میں آ چکے ہیں۔

خواتین پر حملے اس صورت میں ہوئے ہیں کہ جب وہ گھاس کاٹنے میں مصروف تھیں۔

سب ڈویژنل آفیسر کے مطابق چوں کہ وہ جنگل میں بہت دور تک چارہ کاٹنے کے سلسلے میں جا چکی تھیں۔ تیندوے نے انہیں اپنے لیے خطرہ سمجھا جس کا نتیجہ ٹکراؤ کی صورت میں سامنے آیا۔

کرم: تیندوے کو مارنے والے چھ افراد گرفتار، ڈیڑھ لاکھ جرمانہ عائد

رعنا سعید خان کے مطابق ٹکراؤ بعض اوقات تیندووں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ جس کے بعد وہ انسانی علاقوں میں جانوروں پر حملہ کر دیتے ہیں اور جوابی کارروائی میں تیندووں کو زہر یا پھر گولی سے مار دیا جاتا ہے۔

ان کے مطابق اس کے بعد ایک نیا تیندوا اس علاقے میں آ جاتا ہے جو کہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کیوں کہ پرانے تیندوے کو لوگوں کے معمولات کے بارے میں پتا ہوتا ہے لیکن نئے تیندوے کو علاقے کو جاننے میں وقت لگتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات قریبی آبادی سے ٹکراؤ ہو جاتا ہے۔

رعنا سعید خان کے مطابق اسلام اباد میں تیندووں کے لیے جنگل میں وافر مقدار میں خوراک موجود ہے۔ اس لیے ٹکراؤ کے امکانات کم ہیں۔ تاہم انہوں نے شہریوں کی آگاہی کے لیے سوشل میڈیا مہم کے علاوہ متعلقہ ٹریل پر گیٹ بھی نصب کر دیے ہیں۔

ان کے مطابق اگر پھر بھی کسی طریقے سے آمنا سامنا ہو جائے تو شہریوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ تیندؤں کو نظر انداز کیا جائے اور اسی طرح دونوں اپنی اپنی راہ لے لیں گے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments