”ڈسکہ ڈانس“ اور پاکستانی امور سے لاتعلقی کیوں ضروری ہے؟



وارننگ: 1958 الفاظ کی طویل تحریر ہے۔ مزاج نہ ہو، تو آن لائن میڈیا نفسیات کے مطابق، پڑھے بغیر ہی ”واہ واہ“ یا ”لعنت تیرے پر“ کا کمنٹ کر سکتے ہیں۔ شکریہ

میں اس برس اپنی عمر کے 50 ویں برس میں داخل ہو جاؤں گا۔ تین روز قبل ڈسکہ میں الیکشن کے دوران، اسلامی جمہوری اور ایٹمی ریاست میں ہونے والے تماشے نے خیال کا ایک دائرہ شروع کیا، جو ابھی تھوڑی دیر قبل مکمل ہوا تو، اپنے جیسے غریب گھروں سے تعلق رکھنے والے، یا غربت کا پس منظر رکھنے والوں کے نام، کہ جن کی اکثریت ہے، پورے خلوص سے کچھ تحریر کرنے کا سوچا۔ تو یارو، یہ تمھارے نام ہے۔ پڑھ لو، باقی مرضی تمھاری ہے۔

میں پانچ برس کا تھا جب جنرل ضیاء کا مارشل لاء پاکستان پر نازل ہوا۔ اپنے ابو کے پہلو میں بیٹھے، گلی امرتسریاں ملکوال میں، باجی نگو اور (جگت) خالہ کے گھر بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی جنرل ضیاء کو سیاہ عینک پہلے، اپنے سیاہ نامہ اعمال کا آغاز کرتے ہوئے دیکھا۔ بہت مبہم سی یاد، مگر موجود ہے۔ جب جنرل ضیاء کا سایہ، خدا کے فضل و کرم سے، میرے وطن پر سے آموں کی ایک پیٹی کے طفیل اترا، میں 16 برس کا ہو چکا تھا، اور ان 11 برسوں میں پاکستان فی الحال کی گھڑی تک تو بدلا جا چکا تھا۔

جنرل ضیاء نے اپنی مرضی سے غیرجماعتی الیکشنز کروائے۔ محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنوایا۔ اپنے ہاتھ کا چنا ہوا وزیراعظم بھی برداشت نہ ہو سکا۔ اس مرد شریف کو چلتا کیا اور بعد میں خود ہی ’پاٹ‘ کر چلتے بنے۔

پھر 1988 میں محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں۔ ان کو جنرل اسلم بیگ نے چلتا کیا اور ان 18 ماہ میں بی بی شہید پر بے شمار سیاسی حملے ہوئے۔ جن میں سے دو کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے : راجیو گاندھی کے دورے کے دوران سرینگر کی جانب کے فاصلے کا مائل سٹون(سنگ میل) ہٹوا دیا تھا اور اعتزاز احسن نے سکھوں کی لسٹیں بھارت کے حوالے کی تھیں۔ پہلی بات غلط تھی اور دوسری بات کی بابت، دلیپ ہیرو کی کتاب، دا لانگیسٹ آگسٹ، میں پڑھ رکھا ہے کہ لسٹیں جنرل حمید گل نے، را کے اپنے ہم منصب کو بلوچستان میں جاری شورش ختم کرنے کے بدلے، عمان میں دی تھیں اور تین سو سکھ، جو اپنے تئیں حریت کے رستے پر تھے، ان کی اور ان کے خاندانوں کی معلومات، جو ریاست کی مطلب پرستانہ انٹیلی جنس اقدار کے عین مطابق تھا، انڈیا کے حوالے کر ڈالیں۔

1990 میں میاں نواز شریف صاحب وزیراعظم بنے یا بنوائے گئے۔ انہیں منصب سے اتارنے میں جنرل وحید کاکڑ نے اپنا کردار ادا کیا۔ میاں صاحب ضد کے پکے تھے۔ جاتے جاتے، اک بڈھی روح والے بیوروکریٹ صدر، غلام اسحاق خان کو بھی ساتھ لے گئے۔

1993 میں بی بی شہید پھر سے وزیراعظم بنیں۔ 1996 میں اپنی وزرات عظمیٰ کے دور میں ہی ان کا بھائی کراچی میں قتل کر دیا گیا اور اس کے چند ہفتوں بعد ، وہ فاروق لغاری کے ہاتھوں ہٹوا دی گئیں۔ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ صدر کا انفرادی عمل تھا تو آپ ابھی باہر جا کر لولی پاپ چوسنا شروع کر سکتے ہیں۔

1997 میں میاں نواز شریف صاحب، پھر سے وزیراعظم بنے اور مزید حماقتوں کا ثبوت دیتے ہوئے خود کو 12 ویں ترمیم کے ذریعے امیرالمؤمنین بنانے کے خواب دیکھنا شروع ہو گئے۔ رویہ اور طرزحکومت قریباً آمرانہ ہی تھا۔ جنرل مشرف نے ہاتھوں نکالے گئے۔

جنرل مشرف بغل میں دو کتے دبائے برآمد ہوئے اور نو برس کے بعد ، قوم کو کتا بنا کر خود دبئی ناچ گانے کے لیے تشریف لے گئے۔ اپنے دور میں ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بنوایا۔ دل بھر گیا، انہیں ہٹوایا۔ پھر چوہدری شجاعت وزیراعظم بنوائے گئے۔ دل بھر گیا، ہٹوائے گئے۔ بعد از شوکت عزیز کو وزیراعظم بنوایا۔ انہوں نے عمدہ دیہاڑی لگائی اور پاکستان سے ایسے بھاگے کہ پلٹ کر دوبارہ اس طرف رخ نہ کیا۔

بی بی 2007 میں شہید کر دی گئیں۔

2008 میں پیپلزپارٹی کو حکومت ملی اور زرداری صاحب اور گیلانی صاحب پر مسلسل وار کیے جاتے رہے۔ میموگیٹ تو سب کو یاد ہی ہو گا۔ آپ کو لطف کی بات یہ بتاتا ہوں کہ میموگیٹ کے مرکزی کردار، منصور اعجاز کو (شاید) ہمارے ادارے 2000 میں سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دے چکے تھے، جب منصور اعجاز نے کشمیر میں رمضان کے ماہ کے لیے سیز فائر کا اعلان مجید ڈار سے کروا لیا تھا، مجید ڈار کو انڈین کشمیر میں قتل کر دیا گیا اور منصور اعجاز کو، سید صلاح الدین نے اس وقت کے ہالیڈے ان میں اک پریس کانفرنس میں سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دیا۔

وہی منصور اعجاز تقریباً 10 برس بعد پاکستان کی سلامتی کے لیے وفادار اور اتاولا پایا گیا اور سپریم کورٹ میں بذریعہ اک ویڈیو لنک اس کا بیان بھی حاصل کیا گیا۔ عظیم ادارے کے ہی سابق محبوب، ’نہ حسین نہ حقانی صاحب‘ جان چھڑا کر ایسے بھاگے کہ امریکہ میں بیٹھ کر ساڑھ پھونکتے رہتے ہیں۔ لطف یہ رہا کہ خود زرداری صاحب نے حقانی صاحب کو (شاید سلیم صافی کے) ایک ٹی وی انٹرویو میں غدار قرار دے رکھا ہے۔ قادری مداری کا دھرنا کروایا گیا، عدالت سے گیلانی صاحب کو نااہل کروایا گیا۔

2013 میں نواز شریف صاحب کی حکومت بنی، اور اس کے تھوڑے عرصے کے بعد ہی عین وہی تماشا شروع ہو گیا، جو بی بی شہید کے پہلے دور حکومت، یعنی 2013 سے 25 برس قبل کا تماشا تھا۔ میاں صاحب پر مسلسل دباؤ کی کیفیت رہی، اور وہ کبھی مشاہد اللہ مرحوم اور الیکشن کمیشن کے ذریعے حال ہی میں نااہل قرار دیے جانے والے، پرویز رشید صاحب کے ساتھ ساتھ، اپنی انتظامی اور سیاسی سپیس کی قربانی دے کر بھی پانامہ کا شکار ہوئے۔

میں نے ساری عمر میں پاکستان میں جاری شدہ سیاسی پراسیس کی بنیاد پر معاشی مضبوطی نہ دیکھی اور نہ ہی ایکسپیرئنس کی، جیسی 2015 سے 2016 میں کی۔ خیال تھا کہ پاکستان میں اب جمہوری و سیاسی روش اور اس کی بنیاد پر معیشت بہتر ہو گی تو، جماعت اسلامی کے ہاتھوں پانامہ کا وار کروایا گیا۔ سراج الحق صاحب، میاں صاحب کو نااہل کروا کر، گویا افیون ملی نسوار لگا کر ایسے سوئے کہ پانامہ میں آنے والے باقی 400 ناموں کا آج تک کبھی پلٹ کر تذکرہ بھی نہ کیا۔ خود میاں صاحب کی حکومت میں ہی ڈی جی آئی ایس پی آر کھلم کھلا حکومت وقت کے مقابلے میں بیانیہ بناتے اور بیانات اچھالتے رہے۔ آرمی چیف معیشت پر سیمینار کرنے کے بعد ، 5.8 فیصد پر چلتی معیشت پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے، تاآنکہ، وطن کے کندھوں پر عمران خان نامی اک شعبدہ باز کو لا مسلط کروایا۔

2018 میں پاکستان میں باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت ایک انقلاب لایا گیا جس کے ثمرات ابھی کل رات ہی کاریم (Careem) کے ایک ڈرائیور کی زبانی سنے ہیں، سنتا ہی رہتا ہوں۔ وہ کہنے لگے : ایہناں ساریاں رل مل کے ملخ برباد کری چھوڑیا (ان سب نے مل کر ملک برباد کر چھوڑا ہے)۔ ان کا تعلق راولپنڈی سے تھا اور انہوں نے عمران خان کو ہی ووٹ دیا تھا۔ میرے خیال میں آپ سب کی یادداشت اتنی تازہ تو ضرور ہے کہ اگست 2018 کے عظیم ’نیازی۔ جٹ انقلاب‘ کے بعد کا پاکستان اور اس میں جاری تماشے آپ سب کے سامنے ہیں۔

ڈیم فنڈ بنا۔ ثاقب نثار بابا رحمتے بنے۔ اربوں روپوں کے گھٹیا پروموز بنا کر ”ہم یہ ڈیم بنا لیں گے“ کی پیامبری ہوئی۔ چھ ماہ تک مثبت رپورٹنگ کا ٹنٹنا بجایا گیا۔ ”مجھے مودی نے فون کیا، مجھے فرانس کے صدر نے فون کیا، کٹے دیں گے، بکریاں دیں گے، ککڑیاں دیں گے، انڈے دیں گے، لیٹرینیں صاف کریں گے، میاں والی سے بیر ایکسپورٹ ہوں گے ، وزیرستان سے زیتون ایکسپورٹ ہوں گے ، تیاری کے بغیر حکومت میں نہیں آنا چاہیے، ریاست مدینہ 30 برس میں بنے گی، براڈشیٹ وغیرہ وغیرہ“ کے تماشے تو وہ ہیں جو یاد کیے بغیر ہی دماغ میں فوری آن ٹپکے۔

تین روز قبل، ڈسکہ کے الیکشنز میں ریاست کے غیرمتعلق ہونے، اس کے کمزور و نااہل ہونے اور سماجی و سیاسی فاشزم کے عملی نمونوں کے سامنے، ریاست کی مشینری کو مدد کے لیے موجود ہونے کا تکلیف دہ منظر دیکھنا پڑا، اور پھر رات کی تاریکی میں، پاکستان کے ایک آئینی ادارے کے الیکشن اہلکاروں کا ”دھند“ میں غائب ہو جانے کا منظر دیکھنے کو ملا۔

آپ کو میں نے 1977 سے لے کر، پرسوں تک کا پاکستانی سیاسی تاریخ میں ایک کریش کورس دے دیا ہے۔ آپ اس کو لیں یا پھینک دیں، مجھے قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں مگر، 1977 سے لے کر پرسوں تک کے واقعات میں، یعنی تقریباً 45 برس کے اس دورانیے میں آپ کو دو باتیں مسلسل کامن ملتی ہیں : پاکستان کے مقتدر اداروں کا ”مذاقیہ“ ہونا، اور ان کے ساتھ ایک اور آئینی ادارے کا ”فکاہیہ“ ہونا۔ دونوں نے مل جل کر پاکستان کو مذاقستان اور فکاہستان بنا رکھا ہے، ایسے میں کیا سنجیدگی دکھائی جا سکتی ہے۔ نیز ان دونوں اداروں کا مذاقیہ اور فکاہیہ ہونا کب تک جاری رہے گا، اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

یہ میری سوچی سمجھی اور حتمی رائے ہے کہ ریاست کے ساتھ فرد کو ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے کہ جیسا ریاست اس کے ساتھ کرتی ہے۔ ریاست اور فرد کے باہمی تعلق میں اولین اور بنیادی ذمہ داری، ریاست کی جانب ہوتی ہے۔ فرد/شہری کی ذمہ داری کہیں بعد میں آن وارد ہوتی ہے۔ آپ میں سے کتنے ایسے افراد/شہری ہیں جو اپنے وجود، روح، عزت پر لگے زخموں کا پھاہا ریاست سے متوقع کرتے ہیں؟ کتنے ایسے ہیں جو تعلیم، علاج، امن و عامہ اور ذاتی عزت کے حوالہ جات سے ریاست کی جانب اس امید سے دیکھتے ہیں کہ ان معاملات کے حوالے سے ریاست آپ کے سر پر ہاتھ رکھے گی؟

کتنے ایسے ہیں جو یہ کہنے کے قابل ہیں کہ جناب ڈسکہ جیسے واقعات کو اگنور اس لیے بھی کر دینا چاہیے کہ ریاست بصورت دیگر اپنے سارے نہ سہی، اکثریتی کام تو پورے کر رہی ہے نا!

یہ طویل مضمون قطعاً کسی ادارے یا ریاست کی مخالفت میں تحریر نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ میں کمرے میں موجود ہاتھی سے لڑائی کے حق میں ہوں ہی نہیں اور اس لیے بھی کہ میں اختلاف کا حامی ہوں، مخالفت کا قطعا/قطعاً نہیں۔ ایک شہری ہونے کے ناتے یہ میرے حق کے دائرے میں ہے کہ میں ریاست اور اس کے اداروں کے کاموں یا کرتوتوں سے اختلاف رکھوں۔ مجھے حُب الوطنی کے لیے ”باجوہ صاحب، زندہ باد،“ حب الریاست کے لیے ”عمران نیازی، زندہ باد“ اور حب الاسلامی کے لیے ”طارق جمیل و دیگران زندہ باد“ کے نعرے مارنے کی قطعاً کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ میری ماں کی قبر ملکوال، ضلع منڈی بہاء الدین، صوبہ پنجاب، ملک پاکستان میں موجود ہے۔ جہاں ماں کی قبر بن جاتی ہے، وہی وطن ہو جاتا ہے۔

جس بات سے اپنی اس تقریر کا آغاز کیا تھا، اسی پر اختتام بھی کرتا ہوں اور میرے مخاطب اپنی طرح کا غربت والا پس منظر رکھنے والے لوگ ہی ہیں۔

یارو! میرے 45 برس کے تجربے میں اگر یہ تماشا جاری رہا ہے تو قرین قیاس ہے کہ اگلے 45 برس بھی یہی ”ڈسکہ ڈانس“ جاری رہے گا تو پاکستان کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کو کھونٹے پر ٹانگ کر، محض معاشی وابستگی کی طرف توجہ دیجیے۔ وطن و ریاست سے صرف معاشی محبت کا تصور غلط اپروچ نہیں۔ میں تو خود کو گھسیٹ گھساٹ کر مڈل کلاس تک لا چکا، اب اس سے آگے جانے کی خواہش، محنت اور کوشش ہے۔ اور بس اس سے زیادہ اب کچھ نہیں۔ اختتام کرتا ہوں

اے وطن
اب محبت پھر کبھی ہو گی
تیرے لبوں کی سرخی پر جو
کبھی دل مچلے گا
بس تبھی ہو گی
پھر کبھی ہو گی

نوٹ: سوشل میڈیا پر آئندہ کا رویہ اگر اس تقریر کے مخالف پائیے، تو میری تصحیح کر دیا کیجیے گا مترو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments