ضمنی انتخاب کا خونی منظر


عجب تماشا ہے کہ جہاں سے جیت جائیں ، یہ ہمارے نام نہاد بیانیے کی فتح ہے ، ابا کے سیاسی فلسفے کی جیت ہے ۔ جہاں سے ہار جائیں وہاں دھاندلی ہوئی ہے ، ازسرنو الیکشن کرائے جائیں۔  گوجرانوالہ ہو یا ڈسکہ ، نون لیگ کے امیدواروں کو پی ڈی ایم کی نو جماعتوں کا ووٹ بھی پڑا ہے جس پر شریف خاندان شہزادی مریم نواز بھارتی فلموں کے ڈائیلاگ بول رہی ہیں کہ ہمارے شیر نے عمران خان کو اس کے گھر میں گھس کر مارا ہے۔

تمام تر کمیوں، کوتاہیوں کے باوجود تحریک انصاف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے نوشہرہ اور وزیر آباد کی شکست کو بڑے حوصلے سے قبول کیا ہے اور شواہد بتا رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران دھاندلی کے غلیظ اور مکروہ کھیل میں کسی طور خود ملوث نہیں ہیں۔

چند برس ہوتے ہیں اسی طرح کا ایک معرکہ نوشہرہ ورکاں میں بھی ہوا تھا ، جہاں نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی جعلی تعلیمی اسناد کی وجہ سے نااہل قرار پا گئے تو اعلیٰ جمہوری اقدارکے علم بردار میاں نواز شریف نے ان کے چھوٹے بھائی مدثرقیوم ناہرا کو امیدوار نامزد کر دیا تھا ، ان کے مقابل راجپوتوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان کا نیم خواندہ چشم و چراغ تصدق مسعود خاں مقابل اترا تو تمام نظریے اور فلسفے دم توڑ گئے اور یہ مہاجر راجپوتوں اورمقامی جاٹوں کا میدان جنگ بن گیا تھا۔

یہ کالم نگار بھی ووٹر تھا ، ضمنی الیکشن میں برسراقتدار گروہ کو ہرانا تقریباًناممکن ہوتا ہے کہ حکومت مخالف امیدوار کو شکست دینے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کرتی ہے۔

نواز شریف وزیراعظم تھے ۔ ان کے حکم پر ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ میں جعلی الیکشن کمیشن کا دفتر بنایاگیا جہاں متوازی نتائج تیار کر کے نون لیگی امیدوار کو جتوانا تھا۔ وہ تو بھلا ہو حد درجہ دیانت دار پولیس آفیسر ذوالفقارچیمہ کا ، جنہوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اس جعلی دفتر پر چھاپہ مار کر سارا ساز و سامان قبضے میں لے لیا اور علاقے میں امن و امان یقینی بنانے کے لیے ریٹرننگ افسر کو رات گئے نتائج کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

ذوالفقار چیمہ اب ہمارے کالم نگار اور بلند پایہ مصنف ہیں ، اس شکست پر ہمارے بعض معزز قلم کار کھسیانی بلی کی طرح کھمبے نوچتے رہے کہ اگر نواز شریف نوشہرہ ورکاں خطاب کرنے آ جاتے تو نتائج مختلف ہوتے۔

اسی طرح سینٹ کے انتخاب میں برادرم پرویز رشید کو تکنیکی بنیادوں پر انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی ”سازش ناکام“ کی جا رہی ہے، جس سے سینٹ کا سارا عمل ہی بے وقعت اور ناقابل اعتبار ہو جائے گا۔ قبل ازیں اسی طرح کی حماقت ممتاز کالم نگار جناب ایاز امیر کے کاغذات نامزدگی عام انتخابات میں مسترد کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جناب وزیراعظم عمران خان کی ذاتی دلچسپی نے اپنی صفوں میں ایسے پرجوش عناصر کو لگامیں ڈالیں۔

گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب میں سیاسی جمہوری منظرنامہ دھندلا رہا ہے اور یہ ’کارخیر‘ کوئی اور سیاست کار سر انجام دے رہے ہیں اور اس میں ووٹ کو عزت دینے کے نعرے لگانے والے پیش پیش ہیں۔

وزیرآباد میں نون لیگ کی امیدوار شریف النفس شوکت منظور چیمہ کی بیوہ کے مقابلے مین وزیرآباد شہر سے تعلق رکھنے والے بھلے مانس چودھری یوسف پی ٹی آئی کے امیدوار تھے جو چند ماہ پہلے تک نواز شریف کے متوالے ہوتے تھے ۔ اس انتخاب میں انصافی قیادت نے چودھری حامد ناصر چٹھہ کو اس معرکے سے باہر رکھا اور ان کے صاحبزادے احمد چٹھہ بھی متحرک نہیں تھے۔

تحصیل وزیرآباد کا دیہی علاقہ چٹھے اور چیمے، جاٹوں کی آماج گاہ ہے ، یہاں پر حامد ناصر چٹھہ کے والد چودھری صلاح الدین چٹھہ برٹش انڈیا کے وقتوں سے نمائندگی کیا کرتے تھے ۔ بعد ازاں نیک نام کرنل غلام سرور چیمہ، حامد ناصر چٹھہ کے مقابل آئے اور کئی بار جیتے۔ بے نظیر کے دور میں میں وزیر دفاع بھی رہے ، پھر ان کی جگہ ہمارے ہم کار کالم نویس ممتاز پولیس آفیسر ذوالفقار چیمہ کے بھائی جسٹس افتخار چیمہ اور اب ڈاکٹر نثار چیمہ قومی اسمبلی میں نمائندگی کرتے ہیں ، یہ وہی ذوالفقار چیمہ ہیں جنہوں نے ایک ضمنی انتخاب میں نون لیگ کا قائم کردہ جعلی الیکشن کمشن دفتر بند کرا دیا تھا، جو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اورمریم کے چچا شہباز شریف کی براہ راست ہدایات پر قائم کیا گیا تھا جو اب فرماتی ہیں کہ ووٹ کو عزت دو، ورنہ میں عمران خان کو چین سے نہیں رہنے دوں گی۔

پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نے جس کی رہنمائی پنجاب کے وزیر ہاؤسنگ میاں محمود الرشید کر رہے تھے جنہوں نے آرائیں برادری کی عصبیت کو بنیاد بنا کر وزیر آباد فتح کرنے کی کوشش ناکام کی۔

گزشتہ ہفتے گکھڑمنڈی میں مقامی کالم نگار اور میاں صبیح کے بھائی کے ولیمے پر دوستوں سے ضمنی انتخاب بارے تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ دھیمے لہجے میں آہستگی سے بات آگے بڑھانے والے نون لیگ گوجرانوالہ کے صدر مستنصر گوندل ایڈووکیٹ اور گجرات کے چودھریوں کو چیلنج کرنے والے رکن قومی اسمبلی عابد رضا کوٹلہ سے تفصیلی گپ شپ کا موقع ملا جس سے عمومی تأثر یہی بنا کہ بیگم طلعت شوکت چیمہ کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ ساتھ جاٹوں کا سو فیصد ووٹ ہو گا۔

اس کالم نگار کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کا امیدوار 10 سے 15 ہزار ووٹ حاصل کر سکے گا لیکن میاں محمود الرشید کی انتخابی حکمت عملی اور ادریس پال جیسے انتھک اورمخلص دوستوں کی وجہ سے چودھری یوسف 30 ہزار کی حد عبور کر کے ’شکست فاتحانہ‘ سے ہمکنار ہوئے۔

تاریخی قصبے سوہدرہ سے ممتاز روحانی پیشوا ضیاء النور اور ان کے حریف چودھری سلطان معرکۂ وزیر آباد میں چودھری یوسف کی حمایت کر رہے تھے۔ مریم نواز اس جیت کو اپنے ابا نواز شریف کے بیانیے کی فتح قرار دے رہی ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ جاٹوں کی شان و شوکت اور عزت و حرمت کے نام پر لڑا جانے والا معرکہ تھا جس کا ملکی سیاست اور جھوٹے سچے فلسفوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

اس سے ملحقہ قومی اسمبلی کے حلقے میں یہ ہمارے ایک قلندر صفت یار پیر ظاہرے شاہ کی وفات سے خالی ہونے والی نشست پر غضب کا معرکہ تھا جس دوران ڈسکہ شہر کی حدتک ہلڑبازی کے بھیانک مظاہرے ہوئے جس میں 2 نوجوان جاں بحق ہو گئے، ڈسکہ دستکاروں کا ابھرتا ہوا شہر ہے جہاں بوجوہ جناب نواز شریف کے بیانیے پر مرمٹنے والے بڑی اکثریت میں ہیں ، یہاں انصافی لشکر کی قیادت سیالکوٹ کی جھانسی رانی، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کر رہی تھیں جنہیں وزیراعظم عمران خان نے اپنی سرشت کے برعکس میدان میں اتارا تھا کہ سیالکوٹ میں تحریک انصاف کا دامن اس حوالے سے خالی تھا۔

تازہ ترین حقائق کے مطابق پسرور کے نواحی علاقوں سے ملحقہ پولنگ سٹیشنوں کاعملہ ووٹوں سے بھرے تھیلوں سمیت غائب ہو گیا تھا جس کا اعتراف الیکشن کمشن نے باضابطہ اپنی پریس ریلیز میں کیا ہے ، جہاں حیرت انگیز طور پر ووٹنگ کی شرح 80 فیصد سے بھی زیادہ رہی۔

اگر یہ دعوے درست ہیں تو تھیلے ووٹوں سے بھرے گئے ہیں ، اس کے بعد اس حلقے کا سارا الیکشن ہی مشکوک ہو جائے گا اور مریم نواز از سرنو انتخاب کرانے کا مطالبہ زور و شور سے کریں گی ۔ اسی طرح نوشہرہ سے تحریک انصاف کی صوبائی نشست نون لیگ نے جیت لی ہے، جہاں پرویز خٹک کے سگے بھائی اور صوبائی وزیرشوکت خٹک ڈٹ کر نون لیگ کے امیدوار اختیار ولی کی حمایت کر رہے تھے اور ان کا صاحبزادہ احد خٹک تو نون لیگ جلسوں سے خطاب بھی کرتا رہا تھا۔

غالباً کے پی کے، پی ٹی آئی کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اندرونی اختلافات کے باوجود ان کے امیدوار کو شکست ہو جائے گی۔ اس لیے حلقے کی سیاست پر کسی نے توجہ نہیں دی ، جب شکست مقدر ٹھہری تو بعد خرابیٔ بسیار شوکت خٹک کو وزارت سے برطرف کر دیا گیا۔

حرف آخر یہ کہ انتخابات جمہوریت کے رخ روشن کو تابناک بناتے ہیں ا، سے حسن بخشتے ہیں ۔ ہمارے ہاں انتخاب جمہوریت کے رخ روشن کو مسخ کرتے ہیں ، اس کے خوبرو چہرے کو داغدار کرتے ہیں، افسوس صد افسوس! 70 برس گزرنے کے بعد بھی ہم نے کچھ نہ سیکھا۔

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments