مکلی قبرستان: جام نظام کا ’سانس لیتا‘ مقبرہ، ’جہاں کیل لگانا ممنوع ہے وہاں پہاڑ توڑنے کا آلہ استعمال ہوا‘


جام نظام الدین کا مقبرہ

کراچی سے سو کلومیٹر کی مسافت پر ٹھٹھہ شہر کے قریب مکلی کا قبرستان 10 کلومیٹر کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس قبرستان میں موجود چھوٹی بڑی قبروں کی تعداد دس لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے جبکہ یہاں 20 کے قریب بڑے مقبرے موجود ہیں۔

روایت کے مطابق مکلی کا یہ قبرستان ’مائی مکلی‘ نامی ایک خاتون سے موسوم ہے، جن کی قبر یہاں کی مسجد کے محراب تلے موجود ہے تاہم تاریخی شواہد اس کی تصدیق نہیں کرتے۔

اس قبرستان میں موجود قبروں کی قدامت 500 سال تک بتائی جاتی ہے اور اس قبرستان کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 1981 میں مکلی کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔

صدیوں کی قدامت کو درودیوار میں سمیٹے اس شہر خموشاں میں مقبروں اور تاریخی آثار کی بحالی کا کام جاری ہے لیکن ماہرین کے نزدیک کام کا انداز ’تسلی بخش‘ نہیں اور انھیں خدشہ ہے کہ اگر کام کا انداز یہی رہا تو مکلی کو ثقافتی ورثے کی عالمی فہرست سے باہر یا پھر ’خطرے سے دوچار آثار(Endangered)‘ کی فہرست میں شمولیت سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

مکلی کا شہر خموشاں مختلف حکمرانوں کے ادوار کا چشم دید گواہ ہے۔ یہاں کے مشہور مقابر جیسے جام یعنی سمہ، ترخان، ارغون وغیرہ مغل حکمرانوں کے ادوار کی تہذیب و تمدن اور تعمیراتی حسن کو بیان کرتے ہیں۔ یہ دلکش نقش و نگاران مقابر میں خوابیدہ افراد کے جاہ و جلال اور شان و شوکت کی کہانیاں بھی بیان کرتے ہیں۔ان ہی بڑے مقبروں میں ایک مرزا عیسی خان ترخان ثانی کا مقبرہ بھی ہے۔

حال ہی میں ٹھٹھہ کے گورنر مرزا عیسیٰ خان ترخان ثانی کے تقریباً 400 سال قدیم مقبرے میں بحالی کے کام کے حوالے سے مختلف حلقوں کی جانب سے بہت اعتراضات سامنے آئے ہیں۔

جام نظام الدین کی قبر
جام تماچی کی قبر

خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر عیسیٰ خان ترخان کے مقبرے کے بعد جام نظام الدین کے مقبرے کے کام میں بھی ’مہارت‘ کا عالم یہی رہا تو مکلی کے قبرستان کو یونیسکو کی ثقافتی ورثے کی عالمی فہرست سے باہر ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

متعلقہ محکمہ ان تمام الزامات کو رد کرتا ہے اور اسے کچھ افراد کا ذاتی عناد قرار دیتا ہے۔

کون کتنا سچ بول رہا ہے؟ افواہوں کی اس اڑتی دھول کے اس پار اصل ماجرا کیا ہے؟ یہی کھوج ہمیں مکلی کے قبرستان تک کھینچ لائی۔

مرزاعیسیٰ خان ترخان ثانی کا مقبرہ

مکلی میں مغلیہ دور کے اس مقبرے کی عمارت بہت شاندار اور پُرشکوہ ہے۔ مرزا عیسیٰ خان ترخان ثانی، مرزا عیسیٰ خان اول کے پوتے تھے۔ یہ دلی کے مغل دربار میں پہلے چار ہزاری منصب پر فائز رہے اور بعد میں سنہ 1627 میں انھیں سندھ کا گورنر مقرر کیا گیا۔

شاہ جہاں کے دور حکومت میں وہ کرنا کے قلعہ دار تھے اور اسی زمانے میں انھوں نے اپنے مقبرے کی تعمیر کے لے پتھر ٹھٹھہ روانہ کرنا شروع کر دیے تھے۔

مرزا عیسیٰ خان ترخان کا پورا مقبرہ زرد رنگ کے پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس میں ایک بڑا گنبد بھی ہے۔ محرابوں پر قرآنی آیات کندہ ہیں جو خطاطی کا اعلیٰ نمونہ ہپں۔

عیسیٰ خان ترخان ثانی کے مقبرے پر مرمت کا کام

حالیہ تنازع اسی مقبرے کی بحالی کا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس مقبرے کے فرش کی بحالی کا کام کیا گیا جس میں مقبرے کے نصف فرش کے قدیم پتھروں کو اکھاڑ کر نئی ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے۔ مقبرے کا بقیہ نصف فرش قدیم پتھروں پر مشتمل ہے۔

نئی ٹائلوں کے استعمال کے پیش نظر شاید مقبرے کے فرش کی خوبصورتی ضرور رہی ہو گی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کم از کم چار سو سال پرانے پتھروں کو اکھاڑ کر تاریخی آثار ضائع کر دیے گئے ہیں۔ اکھاڑے گئے پتھر مقبرے کے قریب ہی موجود ہیں اور مقبرے کے احاطے میں بہت سی نئی غیر استعمال شدہ ٹائلیں بھی موجود تھیں ۔

مکلی کے کنزرویٹر ظفر وڑائچ پیشے کے اعتبار سے انجینیئر ہیں اور انھیں 30 سال سے زیادہ عرصہ اس کام میں گزر چکا ہے۔ پہلے وہ وفاقی حکومت اور اب اٹھارہویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت کے ساتھ منسلک ہیں۔

انھوں نے عیسیٰ خان ترخان کے مقبرے کے حوالے سے بتایا کہ اس مقبرے میں اوریجنل فرش موجود نہیں تھا۔

عیسیٰ خان ترخان ثانی مقبرہ

’ہم نے اسے توڑا تو اندر کچرا تھا۔ اس میں پانی جذب ہو چکا تھا۔ ایک طرف سے دیواریں گر رہی تھیں۔ تاریخی آثار کی بحالی کا پہلا اصول اسے پانی سے بچانا ہوتا ہے۔ پانی سے بچانے کے لیے نیا فرش ڈالا گیا۔‘

ماہر آثار قدیمہ و تاریخ غلام مرتضی داﺅد پوتا کا کہنا ہے کہ کنزرویشن کے عالمی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سندھ کے ورثے کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

’یونیسکو کے کنزرویشن مینوئل کے مطابق جہاں ایک کیل مارنے کی اجازت نہیں، وہاں ٹیکم (پہاڑوں کے پتھر توڑنے والا آلہ) اٹھائے سائٹ کے اوائلی تاریخی فرش کو اکھاڑ کر باہر پھینک دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ نیا پتھر لگا کر تاریخی شواہد کو مٹایا جاتا ہے۔ یہ تاریخی ورثے سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔‘

پاکستان کی پہلی خاتون آرکیٹیکٹ یاسمین لاری نے بھی مکلی قبرستان میں موجود کئی تاریخی عمارات کی بحالی کا کام کیا ہے جن میں ایک مسجد، جان بابا ( عیسیٰ خان ترخان کے والد) کا مقبرہ اور دیگر عمارات شامل ہیں۔ ان میں سب سے اہم سلطان ابراہیم کا مقبرہ ہے۔

یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ تاریخی آثار کی بحالی بہت وقت، سرمائے اور احتیاط کا تقاضا کرتی ہے۔

’ڈھائی کروڑ کے سرمائے سے تین سال کے عرصے میں سلطان ابراہیم کے مقبرے کا کام مکمل ہو سکا۔ سندھ میں کاشی کے ماہر کاری گر موجود نہیں اور جو تھوڑا بہت کام جانتے تھے وہ محنت کرنے تیار نہیں تھے۔ جو ٹائلز تیار کی جا رہی تھیں اس سے ہم مطمئن نہیں تھے۔ لہذا ہم نے خود بھٹیاں لگالیں جن پر میں نے خود کام کیا، مٹی تک ہم نے خود گوندھی اور خواتین کو بھی اس کام کی ٹریننگ دی۔ بہت وقت لگا لیکن محنت وصول ہوئی۔‘

سلطان ابراہیم کا مقبرہ
ڈھائی کروڑ کے سرمائے سے تین سال کے عرصے میں سلطان ابراہیم کے مقبرے کا کام مکمل ہو سکا

مکلی میں عیسیٰ خان ترخان کے مقبرے میں کیے گئے حالیہ کام کے حوالے سے یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کو اپنے کام کا طریقہ کار بدلنا ہو گا۔

’اگر آپ ٹھیکے دار کے ذریعے کام کروائیں گے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ وہ اس کام کی اہمیت نہیں سمجھ سکتا، وہ تو سب کچھ تبدیل کر کے عمارت کو نیا کردے گا۔ ہم تو ایک ایک نقش کو کسی قیمتی خزانے کی طرح بہت احتیاط سے چھوتے تھے کیونکہ ہمیں تاریخ کو تباہ نہیں کرنا تھا لیکن ٹھیکیدار یہ نہیں سمجھ سکتا۔ حکومت کو متعلقہ شعبے کے ماہرین کی مدد سے اس حوالے سے قوانین بنانا ہوں گے۔ تفصیلات طے کرنا ہوں گی کہ کام کس طرح کیا جائے۔‘

یاسمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مکلی کئی بار ’خطرے سے دوچار‘ فہرست میں جا چکا ہے اور اب بھی اس کے سر پر یہ خطرہ منڈلا رہا ہے۔

’سنہ 2010 میں بھی اسے ’خطرے سے دوچار‘ کی فہرست میں ڈال دیا گیا تھا کیونکہ یہاں سیلاب متاثرین کا کیمپ لگایا گیا تھا، لوگ مقبروں میں رہائش اختیار کیے بیٹھے تھے ۔اس پر دنیا بھر سے اعتراضات کیے گئے تھے۔‘

ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ اور نوادرات منظوراحمد کناسرو نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ سنہ 2010-11 میں مکلی کو ’خطرے سے دوچار‘ لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں ’ سنہ 2017 میں بھی حکومت کو ڈیڈ لائن دی گئی تھی کہ اگر وہ بحالی کے سنجیدہ اقدامات نہیں کرے گی تو اسے ڈی لسٹ کر دیا جائے گا لیکن سندھ حکومت نے ان آثار قدیمہ کی حفاظت کے بہت سے اقدامات کیے۔ مثلاً ہم نے حفاظت کی غرض سے چاروں جانب احاطہ کھینچ دیا، باقاعدہ چار دیواری بنا دی ہے۔ مقامی لوگوں سے لڑ جھگڑ کر بہرحال نئی تدفین اس قبرستان میں روک دی گئی ہے۔ مقامی لوگوں کو قبرستان کے لیے 25 ایکڑ متبادل زمین فراہم کر دی گئی ہے۔ بڑی گاڑیوں کا داخلہ روک دیا گیا ہے۔ ان تمام اقدامات کے بعد سنہ 2020 میں یونیسکو نے مکلی کو ’خطرے سے دوچار‘ لسٹ سے نکال دیا۔‘

منظور احمد کناسرو نے اقرار کیا کہ محکمے میں رائج قوانین کے تحت کام کا ٹھیکہ کسی ٹھیکیدار ہی کو دیا جاتا ہے۔

جام نظام

جام نظام الدین کا مقبرہ کیوں اہم ہے؟

سندھ پر سمہ خاندان کے آخری کامیاب حکمران جام نظام الدین کو سمجھا جاتا ہے۔ رعایا کے دلوں پر حکومت کرنے والے اس راجا کو عوام نے پیار سے ’جام نِندو کا خطاب دیا تھا۔ آج بھی مقامی لوگ بڑی عقیدت سے یہاں حاضری دیتے ہیں۔ جام نظام کا عرصہ حکمرانی سنہ 1460سے 1508 یعنی ان کی وفات تک رہا۔ جام کے مقبرے کی تکمیل کا سال 1809 عیسوی ہے۔

مغل حکمرانوں کی طرح سندھ کے اس راجا کو بھی تعمیرات کا بہت شوق تھا، خاص کر سنگِ زرد کی تعمیرات کا۔ آج اسی کے باعث تعمیرات کی دنیا میں یہ دور ’سمّہ آرکیٹکٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جام نے اپنی زندگی میں ہی اپنے مقبرے کی تعمیر شروع کروا دی تھی جو ان کی موت کے ایک سال بعد مکمل ہوا۔

جام نظام الدین کے مقبرے کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہ مقبرہ بغیر چھت کے تعمیر ہوا۔ مقبرے کا زرد پتھر قرین قیاس ہے کہ جودھ پور سے منگوایا گیا ہو گا جسے چوکور اینٹوں کی صورت ڈھالا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق چہار اطراف کی چوڑائی اور اونچائی، ہر جانب سے 37 فٹ ہے۔ مشرقی سمت ایک جالی دار کھڑکی موجود ہے۔ مغرب کی جانب بیرونی سمت پر دروازہ اور اندر سے درمیان میں ایک انتہائی منقش چھ فٹ اونچی محراب ہے۔ شمال اور جنوب کی جانب دروازے ہیں لیکن شمالی دروازہ اب موجود نہیں، اسے پتھروں سے پاٹ دیا گیا ہے۔ سیڑھیاں بھی دلکش نقوش سے مرصع ہیں۔

مقبرے کی عمارت پر اندر اور باہر کی سمت کندہ کاری کے دلکش نمونے ہیں جو ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں۔ پتھر کے ایک ٹکڑے پر ایک سے زائد نمونے تراشیدہ ہیں۔ مقبرے میں جام اور دیگر مدفون افراد کی قبریں انتہائی سادہ ہیں لیکن مقبرے کے درودیوار پر دلکش حجری کام موجود ہے۔

واضح رہے کہ جام نظام الدین کا مقبرہ مکلی میں موجود ان چند مقبروں میں سے ایک ہے جن کی اہمیت کے باعث یونیسکو نے اسے اپنی عالمی فہرست میں شامل کیا۔ یہ مقبرہ ایک پہاڑی کے کنارے پر تعمیر شدہ ہے اور افتاد زمانہ کے باعث یہ ایک جانب سے کچھ جھک گیا ہے۔

ظفر وڑائچ کا کہنا ہے کہ یہ مقبرہ پہاڑی کے کنارے پر تعمیر کیا گیا اور پہاڑی سے راکھ نکل رہی ہے جس سے یہ ایک جانب جھک سا گیا ہے۔

’ہم نے سوائل ٹیسٹنگ کروائی ہے، چونکہ ماضی میں دریا اس کے بہت قریب سے بہتا تھا تو شاید اس پہاڑی کی مٹی پانی سے متاثر ہوئی ہو۔‘

ظفر وڑائچ کا یہ بھی خیال ہے کہ شاید تعمیر کے وقت ہی اس میں کچھ جھکاﺅ آ گیا تھا، اسی لیے اس کا گنبد نہیں بنایا گیا ہو گا تاکہ اس پر مزید وزن نہ ڈالا جائے۔

جام نظام الدین کا مقبرہ
جام نظام الدین کے مقبرے میں دراڑوں کو مانیٹر کرنے کے لیے دیواروں میں ڈیجیٹل کریک مانیٹر لگائے گئے ہیں

مقبرہ سانس لیتا ہے

مکلی کے سائٹ انچارج اور اسسٹنٹ کنزرویٹر سرفراز نواز نے ایک دلچسپ بات بتائی کہ مقبرے میں دراڑوں کو مانیٹر کرنے کے لیے دیواروں میں ڈیجیٹل کریک مانیٹر لگائے گئے ہیں جو خصوصاً مقبرے کے اوپر والے حصے میں لگائے گئے تھے۔

’جب ہم نے ریڈنگ لی تو ہمارے ساتھ ایک خاصے سینیئر آرکیٹیکٹ کنزرویٹر تھے، وہ بوکھلا کر کہنے لگے کہ ’یہ مقبرہ سانس لیتا ہے۔‘

سرفراز نواز نے مزید وضاحت کی کہ شاید پہاڑی پر ہونے کے باعث اس میں ارتعاش زیادہ ہے اور اس ارتعاش میں دن اور رات کے اوقات میں فرق دیکھا گیا۔

اب جبکہ جام نظام الدین کے مقبرے پر کام کا آغاز ہو چکا ہے تو عیسیٰ خان ترخان ثانی کے مقبرے کے فرش کے کام کو دیکھتے ہوئے ماہرین کے خدشات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

غلام مرتضی داﺅد پوتا کے مطابق جام نظام الدین کا مقبرہ ایک جانب سے جھک گیا ہے اور کوئی چھوٹی سی بھی لرزش یا کسی بھی قسم کا دباﺅ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے لیکن محکمے نے بے احتیاطی کرتے ہوئے یہاں ڈرلنگ کروائی ہے جو کہ اس مقبرے کے حوالے سے خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

قاضی ایاز سندھ میں یونیسکو کے سابق کوآرڈٹینٹر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس مقبرے کی تاریخی، ثقافتی حیثیت اور تعمیراتی شان و شوکت کی بحالی کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے ایک خطیر رقم صوبائی حکومت کے متعلقہ محکمے کو جاری کر دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود بحالی کا یہ کام جس احتیاط اور مہارت کا متقاضی تھا وہ کہیں نظر نہیں آ رہا۔

انھوں نے مزید کہا ’یہ صرف اس مقبرے کی بات نہیں۔ فنڈز ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے غفلت کا مظاہرہ معمول کی بات بن چکی ہے۔ جرمنی سے ماہرین کی ٹیم بھی حکومت کی اس ضمن میں مدد کے لیے آئی تھی مگر افسر شاہی کے روایتی حربوں نے انھیں کام نہیں کرنے دیا۔‘

مکلی قبرستان میں مرمت کا کام

مکلی کے حوالے سے حالیہ اعتراضات پر یونیسکو کا کہنا ہے کہ ’ہمارا مانیٹرنگ مشن اپنے شیڈول کے اعتبار سے اپنے وقت پر مکلی کا دورہ کرے گا البتہ اس حوالے سے اگر کوئی تیسرا فریق ہم سے شکایت کرے گا تو ہم متعلقہ ادارے سے وضاحت طلب کرنے کے مجاز ہیں۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ دو سال قبل استنبول میں منعقد ہونے والی یونیسکو کانفرنس میں پاکستان کو ایک سال کی مہلت دی گئی تھی تاکہ وہ بہتر اقدامات کر لے ورنہ یونیسکو مکلی قبرستان کو عالمی فہرست سے نکال کر ’خطرات سے دوچار کی فہرست میں ڈال دے گا۔

کورونا وائرس کے باعث یہ سالانہ کانفرنس سنہ 2020 میں منعقد نہیں ہو سکی اور اب یہ اس سال ستمبر میں متوقع ہے۔

ماہرین کے نزدیک جام نظام الدین مقبرے کا کام اب صوبائی حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس ہے اور اگر وہ اس میں ناکام ہو جاتی ہے تو ایک جانب اہم ترین ثقافتی ورثے کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ دوسری جانب مکلی قبرستان کو عالمی فہرست سے باہر ہونے سے بھی کوئی نہیں روک سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32470 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp