میں اہم تھا، یہی وہم تھا


میں روزانہ صبح سویرے اس سڑک کے کنارے ٹہلتا ہوں، یہ سڑک میرے گھر سے زیادہ دور نہیں، چند قدم کا فاصلہ ہوگا۔ عموماً لوگ چہل قدمی کے لیے کسی باغ کا رخ کرتے ہیں مگر مجھے یہ سڑک پسند ہے۔ علی الصبح یہاں ٹریفک کا رش ذرا کم ہوتا ہے، گاڑیوں کی چیخ پکار اور لوگوں کی دھکم پیل بھی نہیں ہوتی مگر پھر ذرا سی دیر میں ہی یہاں ایک ہنگامہ سا برپا ہو جاتا ہے۔ کوئی دفتر کو دوڑ رہا ہوتا ہے، کسی کو اسکول پہنچنے کی جلدی ہو تی ہے، کسی نے اپنی دکان کھولنی ہوتی ہے، یکایک ہڑبونگ مچ جاتی ہے۔

یوں لگتا ہے جیسے یہ سب لوگ اپنے اپنے بلوں میں چھپے ہوئے تھے جو اچانک مقررہ وقت پر ایک ساتھ باہر نکلے ہیں۔ ٹریفک کو قابو کرنے والا سنتری بھی اسی ہنگام میں ڈیوٹی پر آتا ہے۔ شروع کا ایک آدھ گھنٹا تو وہ یونہی جماہیاں لیتے ہوئے گزار دیتا ہے، پھر اس کے بعد آڑا ترچھا ہو کر بادل نخواستہ اپنا کام شروع کرتا ہے۔

چوراہے پر نصب ٹریفک کی بتی کو غالباً کسی جلوس کے دوران توڑ پھوڑ میں نقصان پہنچا تھا سو وہ بیکار ہو چکی ہے، اکثر اسی وجہ سے ٹریفک پھنسی رہتی ہے، سنتری کو مگر اس کی پرواہ نہیں ہوتی، وہ صرف اس وقت چوکس دکھائی دیتا ہے جب کسی اہم شخصیت نے سڑک سے گزرنا ہو اور ایسا مہینے میں ایک آدھ بار ہی ہوتا ہے۔

لوگوں کے رش کی وجہ سے ٹھیلے والوں اور خوانچہ فروشوں کے لیے بھی یہ سڑک کافی پر کشش ہے، دن چڑھنے کے ساتھ وہ بھی یہاں پہنچ جاتے ہیں اور سڑک کے کنارے اپنا سامان رکھ کر بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ میں اس دوران وہیں چہل قدمی کرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ ان میں سے کسی کے کام میں رکاوٹ نہ بنوں۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کو میری یہ بات عجیب لگے کہ ایسی بھیڑ بھاڑ میں بھلا کیسے ٹہلا جا سکتا ہے مگر مجھے بالکل بھی عجیب نہیں لگتا، اس قدر رش کے باوجود میں واک کرتے ہوئے کبھی کسی سے نہیں ٹکرایا اور نہ ہی میں کسی کے راستے میں آیا ہوں۔

میرے اس معمول میں کبھی فرق نہیں آتا اور میں روزانہ اسی سڑک کا رخ کرتا ہوں۔ عام لوگوں کے برعکس مجھے شور اور بھیڑ بھاڑ والی جگہیں زیادہ پسند ہیں، میں بہت سے انسانوں کو ایک ساتھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں، تنہائی اور گوشہ نشینی سے مجھے وحشت ہوتی ہے، سناٹے میں میرا دل گھبراتا ہے اور ویران جگہوں سے مجھے خوف آتا ہے، اسی لیے میں بلا ناغہ یہاں آتا ہوں، اس سڑک پر دوڑتی بھاگتی گاڑیوں اور فٹ پاتھ پر تیز تیز چلتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر مجھے ایک طرح کا اطمینان ہوتا ہے کہ زمین پر زندگی رواں دواں ہے۔

سڑک پر بھکاریوں کی آمد بھی دن چڑھے شروع ہو جاتی ہے، ریڑھی بانوں کی طرح ان بھکاریوں نے بھی اپنی اپنی جگہیں مقرر کی ہوئی ہیں اور کوئی ایک دوسرے کی حدود میں نہیں گھستا، یہ لوگ سارا سارا دن گاڑیوں کے آگے پیچھے ہاتھ پھیلائے بھاگتے رہتے ہیں، میں نے کبھی ان سے پوچھا تو نہیں مگر میرا اندازہ ہے کہ رات تک یہ اچھی خاصی کمائی کر لیتے ہوں گے۔

سنتری بادشاہ کبھی کبھار انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر بھگانے کی نیم دلانہ سی کوشش کرتا ہے مگر انہیں بھی پتا ہے کہ سنتری کا حقیقت میں ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ ایک آدھ مرتبہ تو میں نے سنتری کو ان سے ماچس لے کر سگریٹ سلگاتے ہوئے اور ٹھٹھول کرتے بھی دیکھا۔ یہ بات مجھے بہت عجیب لگی۔ آخر میں بھی وہیں اس کے آس پاس ہوتا ہوں اور میرا معمول ہے کہ میں ٹہلنے کے بعد کھڑے کھڑے ایک سگریٹ ضرور پیتا ہوں مگر سنتری نے مجھ سے کبھی سگریٹ یا ماچس نہیں مانگی۔

شاید وہ مجھ سے جھجکتا ہے۔ ان بھکاریوں کو تو خیر میں زیادہ منہ نہیں لگاتا البتہ ایک آدھ ٹھیلے والے سے میری سلام دعا ضرور ہو گئی ہے، سلام دعا کہنا شاید مناسب نہ ہو، دراصل خوانچہ فروشوں میں سب سے پہلے یہ ٹھیلے والا آتا ہے اور میں اسے دیکھ کر اپنے سر کو خفیف سی جنبش دیتا ہوں گویا اس کی پابندی وقت یا ڈسپلن کو سراہ رہا ہوں، جواباً وہ بھی مسکرا کر مجھے دیکھتا ہے یا کم از کم مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ مسکراتا ہے۔

اس ٹھیلے والے کو میں نے مشورہ دیا ہے کہ وہ روزمرہ کے استعمال کی کچھ چیزیں رکھے جن کی اکثر گھروں میں ضرورت ہوتی ہے اور جن کے لیے خواہ مخواہ بڑی دکانوں میں جانا پڑتا ہے، میں نے اسے سمجھایا ہے کہ اس سے تمہاری بکری بڑھے گی۔ ٹھیلے والے کو میرا یہ مشورہ بہت پسند آیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی اس پر عمل کرے گا۔

مجھے اس سڑک پر چہل قدمی کرتے ہوئے کئی ماہ ہو گئے ہیں، میں صبح اپنے مخصوص وقت پر آتا ہوں اور گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس جاتا ہوں، اس دوران کچھ دکانیں بھی میرے سامنے ہی کھلتی ہیں۔ سب سے پہلے بیکری والا آتا ہے، شاید یہ اس سڑک کی واحد دکان ہے جس کا مالک خود آ کر دکان کھولتا ہے۔ اس نے کوئی چوکیدار بھی نہیں رکھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا ہوتا ہے، دکان کے تالے کھول کر یہ خود دکان کی صفائی کرتا ہے، اس دوران دکان کا شٹر ادھ کھلا رہتا ہے، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ دکان تو کھل گئی ہے مگر کام شروع نہیں ہوا۔

تھوڑی دیر میں صفائی سے فارغ ہونے کے بعد وہ پورا ا شٹر اٹھا دیتا ہے، اب وہ کپڑے بھی تبدیل کر چکا ہے، شاید وہ کپڑوں کا تھیلا ہوتا ہے جو وہ روزانہ ساتھ لاتا ہے۔ میں اکثر اس کی بیکری سے کوئی نہ کوئی چیز خرید کر کھاتا ہوں، میں نے وہاں کوئی ملازم نہیں دیکھا، خست سے کام لیتے ہوئے وہ اکیلا ہی پوری دکان سنبھالتا ہے۔ باقی دکانوں کے آگے کوئی نہ کوئی چوکیدار یا ملازم ضرور ہے، ان میں سے بیشتر اب مجھے پہچاننے لگے ہیں، میں تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا ان کے پاس سے گزرتا ہوں تو ان کے ساتھ نظریں چار ہوتی ہیں اور میں انہیں کسی شناسا کی طر ح دیکھ کر سر ہلا دیتا ہوں۔ بیکری کے بالکل ساتھ ایک بوڑھا سیکورٹی گارڈ مجھے کچھ زیادہ ہی غور سے دیکھتا ہے، شاید اسے چہل قدمی کا میرا یہ معمول پسند ہے۔ اتنے ماہ سے اس سڑک پر چہل قدمی کی وجہ سے لوگ مجھے جاننے لگے ہیں، مجھے لگنے لگا ہے جیسے ان سب کے لیے میں کوئی مانوس اور اہم شخص ہوں۔

آج البتہ ایک عجیب واقعہ ہوا۔ حسب معمول میں واک کرنے نکلا، سڑک پر ابھی رش زیادہ نہیں ہوا تھا، میں نے سوچا کہ کیوں نہ آج سڑک کے اس پار چہل قدمی کی جائے، مہینے میں ایک آدھ بار میں ایسا کرتا ہوں، بوڑھا سیکورٹی گارڈ اپنی ڈیوٹی پر آ چکا تھا، اسے دیکھ کر میں نے سر کو خفیف سی جنبش دی۔ ابھی میں ادھر ادھر دیکھ ہی رہا تھا کہ اس دوران اچانک نہ جانے کہاں سے ایک تیز رفتار گاڑی بے قابو ہوتی ہوئی آئی اور مجھے رگیدتے ہوئے کھمبے سے ٹکرا گئی۔ میں کئی فٹ دور اچھل کر فٹ پاتھ پر اس ٹھیلے والے کے قریب گرا جو سب سے پہلے آ کر اپنا ٹھیلا لگاتا ہے۔

تھوڑی ہی دیر میں میرے گرد لوگوں کی بھیڑ لگ گئی۔ ٹھیلے والا بھاگم بھاگ دیکھنے آیا کہ کیا ہوا ہے، بوڑھا چوکیدار اور اس کے ساتھ ایک دو سیکورٹی گارڈ بھی پہنچ گئے، بیکری والا جو اپنی دکان کھولنے کی تیاری کر رہا تھا وہ بھی دکان چھوڑ کر آ گیا، بھانت بھانت کی بولیاں میرے کانوں میں سنائی دینے لگیں، کوئی ایمبولنس بلانے کے لیے کہہ رہا تھا تو کوئی پولیس کو فون کرنے کا مشورہ دے رہا تھا، وہیں موجود کسی لونڈے نے اپنے موبائل فون سے ویڈیو بنانی بھی شروع کر دی۔

تھوڑی دیر میں ٹریفک کا سنتری بھی وہاں پہنچ گیا اور لوگوں کو پرے ہٹنے کا حکم دینے لگا، ایک نظر اس نے مجھ پر ڈالی اور پھر پوچھنے لگا کہ یہ سب کیسے ہوا، ہر کوئی اپنی اپنی زبان میں وقوعہ بیان کرنے لگا۔ اس دوران کسی نے سنتری کے کان میں کہا کہ اس کے گھر والوں کو اطلاع کرنی چاہیے، سنتری نے یہ سن کر سر ہلایا اور بھیڑ میں موجود لوگوں سے پوچھا ”کیوں بھئی، کسی کو اس کے گھر کا پتا ہے، کوئی جانتا ہے اسے؟“ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، ٹھیلے والے نے یک دم کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر سوچ کر چپ ہو گیا اور اس کے منہ سے فقط یہ الفاظ نکلے ”صاحب، آج سے پہلے کبھی دیکھا نہیں اسے!“ ۔

بھیڑ اب چھٹ چکی تھی، بیکری والا اپنی دکان کھول رہا تھا، سیکورٹی گارڈ بھی اپنی ڈیوٹی پر واپس جا چکے تھے، ٹھیلے والا اپنا سامان سجانے لگا تھا، موبائل فون سے ویڈیو بنانے والا لڑکا، ایک آدھ راہ گیر اور بھکاری وہیں موجود تھے، سنتری نے بیزاری سے فون نکالا اور ایمبولنس کا نمبر ملانے لگا۔
(یہ ایک افسانوی کالم ہے، میں الحمدللہ خیریت سے ہوں)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments