زندگی کے بدلتے موسم



آج پروفیسر مائیکل گیول کی ہیومینیٹیز کی کلاس میں زندگی کے حالات مستقل بدلتے رہنے اور انسانوں کے مسلسل تبدیل ہونے پر ٹیڈ ٹاک سنی گئی۔ ٹیڈ ٹاک کا لنک مضمون کے آخر میں دیا گیا ہے۔ اس کلاس میں بہت دلچسپ گفتگو ہوئی جس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔

میری: دس سال پہلے میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ مجھے خون کا کینسر ہو جائے گا اور میں ایک ریسرچ والی دوا لوں گی جس سے میرا کینسر ٹھیک ہو جائے گا۔ زندگی مسلسل بدلتی رہتی ہے اور اپنے ساتھ نئے مسائل اور سوال لاتی ہے۔ جب ڈاکٹروں نے کہا کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں تو میں نے خود ریسرچ کی اور ان تحقیق دانوں سے رابطہ کیا جو اس نئی دوا کو مریضوں پر آزما رہے تھے۔

اینڈی: جیسا کہ آپ جانتے ہیں، یونیٹیرین پاسٹر ہونے کے علاوہ میری ایک ٹیٹو بنانے والی دکان ہے جہاں میں آرٹسٹ ہوں۔ اب میں سمجھ چکا ہوں کہ اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ٹیٹو بنوانا کیوں غیر قانونی ہے؟ میں ان نوجوانوں سے یہی کہتا ہوں کہ ابھی آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ میوزک بینڈ بہت کول (cool) ہے اور اس کا نشان اپنے جسم پر بنوانا کوئی بہت کول بات ہے لیکن آج سے تیس سال بعد آپ ایسا محسوس نہیں کریں گے۔

ایک دن میری دکان میں ایک جوڑا داخل ہوا انہوں نے اسی دن شادی کی تھی۔انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے بازو پر انفینیٹی کا ٹیٹو بنا دیں۔ یہ اس بات کا نشان ہو گا کہ ہمارا رشتہ ہمیشہ کے لیے قائم رہے گا۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ اچھا خیال نہیں ہے۔ لیکن وہ دونوں بہت پرجوش تھے کہ نہیں نہیں ہم بہت محبت میں ہیں، آپ ہمارے بازوؤں پر یہ میچنگ ٹیٹو بنا دیں جن میں ہمارے نام اور آج کی تاریخ لکھی ہو۔ ان ٹیٹوز کی قیمت تین سو ڈالر تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے میں بنا دیتا ہوں لیکن جب آپ یہ مٹانا چاہیں تو میرے پاس واپس آئیں۔

ایک سال بعد وہ آدمی واپس میری دکان میں آیا اور بولا کہ مجھے یہ ٹیٹو مٹوانا ہے۔ میں اس کو بھول چکا تھا لیکن ٹیٹو دیکھ کر میں نے اسے پہچان لیا کیونکہ وہ میں نے ہی ایک سال پہلے بنایا تھا۔ کیا ہوا؟ آپ یہ ٹیٹو ایک سال ہی میں کیوں مٹوا رہے ہیں؟ اس نے کہا کہ ہماری چھ مہینے میں ہی طلاق ہو گئی تھی لیکن میری سابقہ بیوی شرمندگی کی وجہ سے آپ کی دکان میں واپس آنے کے بجائے اس کو مٹوانے کے لیے کہیں اور گئی۔ میں بھی اب آیا ہوں جب میرے پاس اتنے پیسے ہیں کہ اس کی قیمت ادا کر سکوں جو کہ ساڑھے تین سو ڈالر تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ شادی کرنے سے پہلے وہ ایک دوسرے کو صرف تین ہفتے سے جانتے تھے۔

اینڈی: اگر آپ کو اپنی محبت ثابت کرنے کے لیے ٹیٹو بنانے کی ضرورت پڑے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ آپ کا تعلق پہلے سے ہی ٹھیک نہیں ہے۔ اگر آپ حقیقت میں محبت کرتے ہیں تو اس کے لیے کسی قسم کی علامت یا رسم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ ساتھ اسی لیے ہوتے ہیں کہ آپ کو ایک دوسرے سے محبت ہے۔

میری: میرا بیٹا اور ایمی تیس سال پہلے ملے تھے۔ جب وہ ایک سال تک ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہے تو ایک ماں ہونے کے ناتے میں نے ان سے پوچھنا شروع کر دیا کہ آپ لوگ شادی کب کر رہے ہیں؟ انہوں نے مجھے روک دیا اور کہا کہ ہم کبھی شادی نہیں کریں گے اور کبھی بچے بھی پیدا نہیں کریں گے۔ اب تیس سال گزر چکے ہیں اور وہ اب بھی ساتھ ہیں۔ انہوں نے ساتھ میں کاروبار کیا، مکان خریدے اور خوشی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

ڈیوڈ: عمر کے ساتھ بھی لوگ بدلتے جاتے ہیں۔ جن مشہور افراد کو ہم ان کی بڑھاپے کی تصویروں سے پہچانتے ہیں، ان کے لیے ہم ایسا ہی سمجھتے ہیں کہ یہ مشہور لوگ ہمیشہ سے ایسے ہی دکھائی دیتے تھے۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ وہ کبھی نوجوان بھی تھے۔

لبنیٰ: جی ہاں۔ جب بھی ہم مدر ٹریسا کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کی بڑھاپے کی تصویر ہی ذہن میں آتی ہے جس میں ان کی کمر جھکی ہوئی ہے، ان کے چہرے پر جھریاں ہیں اور انہوں نے سفید ساڑھی پہنی ہوئی ہے۔ مدرٹریسا کبھی ایک بچی بھی تھیں اور ایک جوان عورت بھی۔ ان تصاویر کو دیکھ کر یقین نہیں ہوتا کہ وہ انہی کی ہیں۔

میریلن: جب آپ نوجوان افراد کو ٹی وی پر دیکھتے ہیں جو اپنے خیالات پیش کر رہے ہوں تو آپ سوچتے ہیں کہ یہ تو ابھی اتنے سمجھدار نہیں ہوسکتے کہ ان اہم باتوں کے بارے میں جانتے ہوں، حالانکہ شاید ایسا نہیں ہے۔ اپنی دوستوں کے حلقوں سے یہ جانتی ہوں کہ خواتین جب ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو نوجوانی میں لڑکوں کے بارے میں باتیں کرتی ہیں، بیس اور تیس کی دہائی میں اپنے بچوں کے بارے میں اور بڑھاپے میں جوڑوں میں درد کی بیماری کے بارے میں۔ زندگی مستقل بدلتی جاتی ہے۔

مائیکل: یہ اہم ہے کہ ہم حال میں زندہ رہیں۔ کیا معلوم آج سے پانچ سال میں مجھے کوئی جان لیوا بیماری ہو جائے؟ تبدیلی سے ہم ڈرتے تو ہیں لیکن اس خوف کو ہم خود پر حاوی کر کے جینا نہیں چھوڑ سکتے۔

میریلن: میں عالمی وباؤں کے بارے میں نہیں جانتی تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس طرح تمام دنیا ایک وائرس کی وجہ سے ٹھہر جائے گی اور ہزاروں لوگ اس طرح مر جائیں گے۔

اینڈی: اور امریکہ میں ایسا ہو جائے گا، ایسا میں نے بھی نہیں سوچا تھا۔ میرے ماں باپ مورمن عیسائی ہیں۔ وہ اپنے مذہب کے مطابق ایک سال تک کے لیے کھانے پینے کا سامان گھر میں رکھتے ہیں۔ حال ہی میں جب تمام ملک میں شدید سردی کی لہر دوڑ گئی اور ٹیکساس کی ریاست نے گھٹنے ٹیک دیے تو میں نے اپنے والدین سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے کیا کیا؟ ان کے پاس بجلی نہیں تھی اور پانی بھی نہیں تھا۔ پانی اور بجلی کے بغیر وہ اس اناج سے کچھ نہیں پکا سکتے تھے جو انہوں نے اپنے گھر میں جمع کیا ہوا تھا۔

کیا اب بھی آپ اسی طرح کھانے پینے کے لیے اناج جمع کرتے رہیں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ظاہر ہے ہمارے پیغمبر کے کہے کے مطابق ہم ضرور ایک سال کے لیے کھانے پینے کا سامان جمع کریں گے تاکہ مشکل وقت میں سہارا ہو۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا آپ کچھ بدلیں گے؟ نئے مسائل نئے حل کا تقاضا کرتے ہیں۔ میرا یہ مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ 2021 کے سرد طوفان کے بعد کیا جمع کرنے کی ضرورت ہوگی اور اس کو کیسے استعمال کیا جائے گا، بدلنا پڑے گا۔

لبنیٰ: میرے دونوں بچے اب کالج میں ہیں۔ میں اپنے گھر کی صفائی کر رہی تھی تو ان کے ہوم ورک کی بہت ساری کاپیاں ملیں۔ میرے دونوں بچے کومان جاتے تھے جو کہ جاپانی کوچنگ سینٹر ہیں۔ کومان میں بچوں کو پڑھنے اور میتھ کی پریکٹس کروائی جاتی ہے۔ ان کی کاپیاں طرح طرح کے میتھ کے سوالات سے بھری ہوئی تھیں۔ ان صفحوں کو پلٹتے ہوئے میں یہی سوچ رہی تھی کہ میتھ کی یہ مشقیں بچپن میں کتنی فضول لگتی ہیں۔ آخر ان کا کیا مقصد ہے؟

ان کا مقصد یہی ہے کہ دماغ استعمال کرنا سیکھا جائے۔ جب ہمارے سامنے ایک حساب کا مسئلہ رکھا جائے جو اس کی پرانی مثالیں دیکھ کر اس کو حل کرنے سے ہمارا دماغ یہ سیکھتا ہے کہ پہلے سے سیکھی ہوئی معلومات کو کس طرح استعمال کر کے نئے مسائل کے حل تلاش کیے جائیں۔ ہر سوال مختلف ہوتا ہے۔ ایک ہی سوال کا جواب بھی وقت کے ساتھ مختلف ہوتا ہے۔ اس مشق کا مقصد تنقیدی سوچ سکھانا ہے۔ ہماری زندگی میں ایسے سوالات اور ایسی صورت حال سامنے آتی رہیں گی جن کے بارے میں پہلے سے کوئی مثال موجود نہیں ہو گی۔

ان کو حل کرنے کی صلاحیت ہی وہ منزل ہے جہاں تک ہمیں نسل در نسل پہنچنا ہو گا۔ آج سے دو سو سال پہلے کمپیوٹر کے بارے میں کون جانتا تھا؟ آج سے پچاس سال پہلے اس سیل فون کے بارے میں کون سوچ سکتا تھا؟ اسی طرح ہمیں اپنے بچوں کی بھی اس طرح تربیت کرنا ہو گی جس میں وہ اپنا دماغ استعمال کرنا سیکھیں۔ ان کے سامنے کیا مسائل یا کیا حالات ہوں گے، ان کے بارے میں کچھ پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔

سارا: مجھے میتھ بہت مشکل لگتا تھا لیکن وہ میری ڈگری مکمل کرنے کے لیے ضروری تھا۔ اس لیے میں نے ایک فیمنسٹ کتاب خریدی جو ان خواتین کے لیے لکھی گئی تھی جن کو میتھ میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس کے بعد میں نے نئے سرے سے کوشش کی اور اتنا میتھ سیکھ لیا کہ سارے امتحان پاس کر سکوں۔

جان : میتھ کے لیے تو زیادہ نہیں کہہ سکتا، لیکن جیومیٹری نے مجھے سکھایا کہ کس طرح پہلے ایک قدم اٹھاؤ اور پھر دوسرا اور مسئلہ حل کرو۔ اس نے مجھے صبر کرنا سکھایا۔

اینڈی: جب ہم کم عمر ہوتے ہیں تو بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ کس طرح وہ ہماری زندگی پر اثر ڈالیں گی۔ پندرہ سال کی عمر میں کسی دن شراب پی کر ایک پندرہ سالہ کو حاملہ کر دیا تو اس کے ہماری بقایا زندگی پر کیا کیا اثرات ہوں گے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہمیں سمجھ میں آنا شروع ہوتا ہے کہ ان کے کیا اثرات ہوئے۔

لبنیٰ: کم از کم ایک کھلے ہوئے معاشرے میں آپ زندہ تو رہیں گے کہ ان آنے والے مسائل کا سامنا کریں اور یہ جانیں کہ زندگی چلتی رہتی ہے۔ ایک بند معاشرے میں ایسے ہر مسئلے کا حل موت ہے۔ اسی لیے وہ نسل در نسل مرتے ہیں کیونکہ اب تک کسی بھی نسل نے ٹھہر کر ان مسائل کو حل کرنے کی زحمت نہیں کی۔

سارا: میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میرا بیٹا اتنی دور منتقل ہو جائے گا اور دس سال تک اس نے مجھ سے بات نہیں کی۔ پھر میں نے اس کو خط لکھا کہ اگر ہم اپنا تعلق برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملنا چاہیے۔ اس نے کہا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ ہانگ کانگ جا رہا ہے اور وہاں میں اس سے ملنے آ سکتی ہوں۔ اس سے پہلے میں ہانگ کانگ کے بارے میں یا وہاں کسی کو نہیں جانتی تھی۔ بلکہ میں نے کبھی وہاں جانے کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔

میں نے زندگی میں زیادہ کبھی سفر نہیں کیا۔ جب میں نے اپنی ایک دوست سے اس مسئلے کا ذکر کیا تو اس نے مجھے اپنی ایک اور دوست سے ملوایا جنہوں نے ہانگ کانگ کے بارے میں مجھے بتایا کہ وہاں سب لوگ اچھے ہیں۔ وہ تمہارا اچھا خیال رکھیں گے۔ میں ہانگ کانگ میں اپنے بیٹے اور اس کی بیوی سے ملی۔ میرے سابقہ شوہر مر چکے ہیں اور میں جانتی ہوں کہ وہ اور میرا بیٹا مجھ سے خوش نہیں تھے لیکن اب ہمارے بہتر تعلقات ہیں۔ میری بہو چینی ہے اور ان کے کلچر میں ایک بوڑھی خاتون کے لیے کچھ برا نہیں سوچا جاتا۔ اس کے مجھ سے اچھے تعلقات ہیں۔ مجھے اپنی اولاد سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے خود کو کچھ بدلنا پڑا لیکن اب میں خوش ہوں۔

میریلن: ہم کیسے بدلتے ہیں؟ وہ کون سے عوامل ہیں جن سے لوگ بدلتے ہیں؟

لبنیٰ : زندگی میں ہمارے سامنے اس طرح نئے چیلنج آتے ہیں جن کے بارے میں ہم نے کوئی پیش گوئی نہیں کی ہوتی۔ کسی کا بچہ ہم جنس پسند ہو تو ان کو اپنے بچے کی زندگی اور خوشی کی خاطر اپنے بچپن سے ذہن میں بیٹھے خیالات کو بدلنا ہو گا۔ کچھ افراد کی نوکری چلی جائے یا طلاق ہو جائے تو ان کو اپنے اندر جھانک کر دیکھنا ہو گا کہ ان کے کن رویوں کی وجہ سے ان کے پیارے دور ہو رہے ہیں۔ زندگی میں بدلتے حالات کے لحاظ سے ہمیں فیصلے بنانے پڑتے ہیں جن کی وجہ سے ہمیں اپنی ویلیوز کو تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ وقت اور حالات کے ساتھ خود کو تبدیل نہیں کرتے، تبدیلی ان کے لیے کر دی جاتی ہے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہ سردی کا طوفان آیا اور کس طرح اس نے ہر شعبہ اور نظام درہم برہم کر دیا۔ ٹیکساس میں بجلی چلے جانے سے چڑیا گھر میں جانور مر گئے۔ ایک لحاظ سے مجھے ان کی موت کی زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ ان کو ہم نے پنجروں میں بند کیا اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری لی۔ وہ انسان کی غلطیوں کی وجہ سے مرے ہیں۔ 2020 کے اکتوبر میں جب اوکلاہوما میں غیر معمولی برف کا طوفان آیا تو ساری ساری رات درختوں کی شاخیں اس بوجھ کی وجہ سے چٹخ کر ٹوٹتی رہیں جن کی آواز بندوق کی گولیوں کی طرح تھی۔ابھی پتے نہیں گرے تھے اور وہ اس برف کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھے جو پگھل کر جم گئی تھی۔

دنیا میں بہت سے علاقے اتنے گرم ہو چکے ہیں کہ وہاں بغیر بجلی کے انسان نہیں رہ سکتے۔ اگر ہم خود کو نہیں بدلیں گے اور تیل سے ہٹ کر ہوا اور سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنا شروع نہیں کریں گے تو جس طرح تمام نباتات اور حیاتیات ناپید ہو رہی ہیں، وہ وقت دور نہیں جب انسان اپنی بقاء کے لیے انسان کو کھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ دنیا کے حالات اور اس کے مستقبل کا سوچ کر میرے دل میں کوئی خواہش نہیں کہ میرے بچے کبھی بچے پیدا کریں حالانکہ میں جانتی ہوں کہ وہ کرنے کے لیے میرا فیصلہ نہیں ہے لیکن مجھے خود اس دنیا کے اندر دو زندگیاں لانے پر پچھتاوا ہے۔ میں آج اپنی کم عمری سے خود کا موازنہ کروں تو میں ایک بالکل مختلف انسان ہوں۔

اینڈی: میں آپ سب کی بات توجہ سے سن رہا ہوں اور انہی خیالات کی بنیاد پر اپنے سبق ترتیب دیتا ہوں تاکہ ان تمام افراد کی روحانی تربیت ہو سکے جو ہمارے یونیٹرین چرچ میں آتے ہیں۔ اسی لیے ہر عمر کے افراد کا ایک دوسرے سے بات کرنا ضروری ہے تاکہ جو لوگ کم عمر ہیں اور ان کا تجربہ محدود ہے، وہ دوسرے انسانوں کی زندگی سے سیکھ سکیں۔ لوگوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ حالات کتنے بھی خراب ہوں، برا وقت گزر جاتا ہے اور دنیا چلتی رہتی ہے۔

لبنیٰ: یہاں پر پھر سے وہی کہوں گی کہ کھلے ہوئے معاشرے میں آپ کو مستقل باہر سے پرفیکٹ دکھائی دینے کی کوشش نہیں کرنی ہوتی ہے۔ بند معاشرے میں کامیاب انسانوں کے مجسمے موجود ہیں، ان کے سفروں کی کہانیاں غائب ہیں۔ اسی لیے اپنی زندگی کے بارے میں اور اپنے تجربات کے بارے میں دیانت داری اہم ہے۔ ہمیں ساتھ میں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ ہر انسان مختلف ہے اور مختلف سوالات کا سامنا کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ دوسروں کے مسائل کو نہ سمجھ سکے۔ اس لیے ہمیں خود کو بھی یہ سمجھا دینا ہو گا کہ ضروری نہیں ہے کہ جو ہمیں اپنے لیے ٹھیک لگے وہ ہمارے گرد سبھی کو ٹھیک لگنا چاہیے۔ اپنا ذہن کھلا رکھنے اور مسلسل سیکھتے رہنے کی کوشش کرنا ہو گی۔

مائیکل: آپ سب کا ہیومینیٹیز کی کلاس میں آنے کا شکریہ۔ پندرہ منٹ میں چرچ سروس شروع ہونے والی ہے اس لیے آپ سے اجازت چاہوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments