سینٹ اور ضمنی انتخابات: ہم کہاں جا رہے ہیں؟


سیاسی وابستگی کو ایک طرف رکھتے ہوئے ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ابھی سینٹ کے انتخابات کا قضیہ جاری ہے۔ 1973 کے آئین میں ایوان بالا کے انتخابات کے بارے میں جو شق رکھی گئی تھی، 2018 تک، یعنی پینتالیس سال انتخابات اسی طریقے سے ہوتے رہے۔ اب اچانک یہ سوال کھڑا ہوا ہے کہ سینٹ انتخابات بدستور خفیہ ہی ہونے چاہئیں یا کھلی ووٹنگ ہونی چاہیے۔ یہ سوال پارلیمنٹ میں گیا اور پھر واپس لے لیا گیا کیوں کہ آئینی ترمیم ممکن نہیں تھی۔

پھر حکومت نے صدر مملکت کے ذریعے ایک ریفرنس سپریم کورٹ میں داخل کیا جس میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا سینٹ انتخابات کے ضابطے قانون کے ذریعے بنائے جا سکتے ہیں یا اس کے لئے آئین میں ترمیم ضروری ہے۔ سپریم کورٹ پچھلے کئی دنوں سے اس پہ غور کر رہی ہے۔ آئندہ ہفتے اس کی رائے سامنے آنے کا امکان ہے۔ ادھر اس سوال کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ہی صدر مملکت کی طرف سے ایک آرڈیننس بھی جاری کر دیا گیا کہ سپریم کورٹ کی رائے کی روشنی میں اوپن ووٹنگ کروائی جا سکے۔

اس قضیے کے دوران ہم صبح شام دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ہمارے ایوان بالا میں کرپشن کا دور دورہ ہے۔ پیسے والے لوگ کروڑوں روپے میں ووٹ خرید کر سینٹ میں آن بیٹھے ہیں۔ ان حالات میں، ووٹنگ خفیہ ہو یا کھلی، ایک بات کا ڈھنڈورا تو بہرحال پوری شدت سے پیٹا جا رہا ہے کہ پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر کرپشن کا جو تأثر پایا جاتا ہے وہ درست ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے جو کچھ کہا وہ بالکل ٹھیک کہا۔ ہم دنیا کو یہ بھی باور کرا رہے ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ بھی کرپشن میں لت پت ہے۔

ہمارے دشمنوں کو ہمارے خلاف کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ پیسے کے لین دین کو ختم کرنے کے لئے ایک طریقہ کار یہ بتایا جا رہا ہے کہ متناسب نمائندگی کے اصول کے مطابق جس بھی جماعت کا جو حصہ بنتا ہے اسے دے دیا جائے جیسے کہ خواتین کی مخصوص نشستوں کے بارے میں ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کسی جماعت کی چار نشستیں بنتی ہیں تو چپ کر کے چار اسے دے دی جائیں۔ انتخابات کی نوبت ہی نہ آئے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان چار نشستوں کے لیے دوڑ دھوپ نہیں ہو گی؟ کیا پیسہ رکھنے والے افراد ”پارٹی فنڈ“ کے نام پر کروڑوں روپے کی بوریاں لے کر پارٹی کے سربراہ کے پاس نہیں پہنچ جائیں گے؟ کیا کرپشن کو پہلے سے بھی زیادہ آسان راستہ نہیں مل جائے گا؟

اب آئیے ضمنی انتخابات کی طرف۔ چند دنوں کے وقفے سے یہ انتخابات بلوچستان، اندرون سندھ، کراچی، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں منعقد ہوئے۔ اس بات کو نظر انداز کر دیجئے کہ کون جیتا اور کون ہارا۔ سیاست سے ہٹ کر اس کا غیر جانب دارانہ جائزہ لیجیے کہ جب بلوچستان، کراچی سمیت سندھ، خیبر پختونخوا میں انتخابات پر امن ماحول میں ہو گئے تو پنجاب میں ایسا کیوں نہ ہو سکا۔ ایک مبصر نے اگلے دن ایک ٹی۔ وی شو میں کہا کہ ”وزیر آباد میں صوبائی اور ڈسکہ میں قومی اسمبلی کی سیٹوں کے انتخابات کا مطلب یہ ہوا کہ ڈیڑھ سیٹوں پر الیکشن تھا۔افسوس کہ یہ ڈیڑھ سیٹوں کا انتخاب بھی پر امن طریقے سے نہ کرایا جا سکا“ ۔

دونوں حلقوں میں تلخی اور کشیدگی موجود تھی۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ صورتحال معمول کے مطابق نہیں۔ ایسا ہی ہوا۔ موٹر سائیکلوں پر سوار افراد جگہ جگہ فائرنگ کرتے رہے۔ کئی پولنگ سٹیشنوں پر گھنٹوں پولنگ رکی رہی۔ دو افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ کئی زخمی ہو گئے۔ خاص طور پر ڈسکہ سارا دن میدان جنگ بنا رہا۔ نفاذ قانون کے ادارے مکمل طور پر غیر مؤثر رہے۔

قانون شکن عناصر کھل کھیلتے رہے جس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگ گھروں میں دبک کر رہ گئے اور ووٹ کے لئے باہر نہ نکلے۔ سب سے قابل افسوس بات یہ ہوئی کہ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد دیہی علاقے کے بیس پریذائیڈنگ افسر غائب ہو گئے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ لوگ کہاں گئے تھے؟ ان کے ووٹوں والے تھیلے کہاں تھے؟ پھر ایسا کیا ہوا کہ یہ سب کے سب صبح چھ بجے کے لگ بھگ ریٹرننگ افسر کے دفتر واپس آ گئے۔

متحارب جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگا رہی ہیں۔ ہمارے لیے یہ فیصلہ مشکل ہے کہ کس کا موقف درست ہے اور کس کا غلط۔ لیکن الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ہونے والا اعلامیہ، نہایت ہی سنجیدہ سوالات اٹھا رہا ہے۔ کمیشن کے سرکاری بیان میں کہا گیا ہے۔ ”حلقہ این۔ اے 75 سیالکوٹ کے نتائج غیر ضروری تاخیر کے ساتھ موصول ہوئے۔ اس دوران متعدد بار پریذائیڈنگ افسر وں کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ناکامی ہوئی۔ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر کی اطلاع پر چیف الیکشن کمشنر نے انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ متعلقہ پریذائیڈنگ افسر وں کا پتہ لگایا جا سکے مگر کوئی response نہ ملا۔

چیف سیکرٹری صاحب سے ایک دفعہ رابطہ رات کو تقریباً 3 بجے ممکن ہوا۔ انہوں نے گمشدہ افسر وں اور پولنگ بیگوں کو ٹریس کر کے نتائج کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی۔ مگر پھر انہوں نے اپنے آپ کو unavailable کر لیا۔ کافی تگ و دو کے بعد تقریباً صبح 6 : 00 بجے پریذائیڈنگ افسر ز، بمعہ پولنگ بیگز حاضر ہوئے۔ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر حلقہ این۔ اے 75 سیالکوٹ VI نے یہ اطلاع دی ہے کہ 20 پولنگ سٹیشنوں کے نتائج میں رد و بدل کا شبہ ہے۔

لہذا مکمل انکوائری کے بغیر حلقہ کا غیر حتمی نتیجہ جاری کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس ضمن میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر تفصیلی رپورٹ الیکشن کمیشن میں ارسال کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر کو این۔ اے 75 سیالکوٹ VI کے غیر حتمی نتیجہ کے اعلان سے روک دیا ہے۔ اور مکمل انکوائری اور ذمہ داران کے تعین کے لئے، انہیں ہدایات جاری کی ہیں اور صوبائی الیکشن کمشنر اور جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچنے کی ہدایت کی ہے تاکہ معاملات کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔ اور ریکارڈ کو مکمل طور پر محفوظ کر لیا جائے۔ یہ معاملہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری لگتی ہے۔“

الیکشن کمیشن کا اعلامیہ کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ اس میں واضح کر دیا گیا ہے کہ سیالکوٹ کے مذکورہ حلقے کے انتخابات مشکوک ہو گئے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن کیا فیصلہ کرتا ہے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اتنی بات تو واضح ہو گئی کہ ہم مسلسل زوال کا شکار ہیں اور ”ڈیڑھ“ حلقوں کے غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور پر امن انتخابات کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ انتخابات، جمہوری عمل کے زینے کا پہلا قدم ہوتے ہیں۔ ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہم قابل اعتبار انتخابات نہیں کرا سکے اور اسی کھیل میں آدھا ملک بھی گنوا بیٹھے۔

خوش آئند امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنی آئینی ذمہ داری کے حوالے سے حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس امر کی تحقیقات لازما ہونی چاہئیں کہ بیس پریذائیڈنگ افسر وں پر کیا گزری؟ کسی کی جیت یا کسی کی ہار سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن انتخابی عمل پر عو امی اعتبار اٹھ جائے تو بہت نقصان ہو جاتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments